نارتھ ناظم آباد کا ریپ


ریپ ہونے سے پہلے کراچی کی بستی نارتھ ناظم آباد میں ابن انشاء کی رہائش اور مشتاق احمد یوسفی کا آنا جانا تھا۔ یوسفی صاحب کے دوست بشارت نے قیام پاکستان کے بعد کاروبار میں ترقی کی تو اس بستی میں اپنا گھر بنایا اور اس کے باہر بہت محبت سے مولسری کا ایک درخت لگایا (حوالہ: ”آب گم“ ، صفحہ 240، ایڈیشن 1990) ۔ آج جب اس بستی کا مسلسل ریپ دو دہائیوں سے جاری ہے، نارتھ ناظم آباد میں نہ درخت نظر آتے ہیں اور نہ یوسفی اور انشاء جی جیسے لوگ۔

نظر تو اب اس بستی کے اولین ریپسٹ بھی نہیں آتے کیونکہ وہ غاصب اپنی لوٹ کھسوٹ مچا کر بستی دوسرے درندوں کے سپرد کر کے بھاگ چکے۔ صرف کبھی کبھی ان کے ناموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ بلڈنگ فلاں ”باجی“ کی ہے جو کینیڈا میں بیٹھ کر اس کا کرایہ وصول کرتی ہیں۔ اس پراجیکٹ کی کمائی سے فلاں ”بھائی“ نے امریکہ میں دسیوں گیس سٹیشن کھڑے کر لئے ہیں، وغیرہ۔

اس بستی کا ریپ سیوریج کے قانون کی دھجیاں اڑنے سے شروع ہوا۔ اس قانون کے مطابق:

”اگر ایک گٹر لائن پچاس لوگوں کے فضلے کے اخراج کے لئے ڈیزائن کی گئی ہے اور اس پر پانچ سو لوگوں کو بسا دیا جائے، تو لامحالہ وہ گٹر لائن بند ہو جائے گی، فضلہ واپس پھینکنے لگے گی، اور اس میں سے ایسا تعفن زدہ معاشرے ابھرے گا جس میں انسانوں کا دم گھٹ جائے۔“

جو پارک اور میدان ہمارے بچوں کی امانت تھے، ان پر قبضہ کیا گیا اور پلازے اور اپارٹمنٹ بلڈنگز تعمیر کر دی گئیں۔ رہائشی پلاٹس کو بیدردی سے کمرشل بنا کر ان پر شاپنگ مالز بنا دیے۔ لاوارث پلاٹس پر قبضہ کر کہ کئی پورشن بنا کر بیچ ڈالے۔ زمین حاصل کرنے کی اتنی بھوک کہ ہرے بھرے علاقے کے سارے درخت کاٹ ڈالے گئے۔ پچاس پڑھے لکھے، خاموش طبع لوگوں کے اوپر پانچ سو کم ظرف لا کر بٹھا دیے گئے، سیوریج لائنز پھٹ پڑیں، سڑکیں بہ گئیں، اور انسانوں کا دم گھٹ گیا۔

اور یہ سب کس نے کیا؟

جنگوں میں تو ریپ بیرونی حملہ آور کرتے ہی، ۔ لیکن ریپ پر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ امن کے دنوں میں ریپسٹ عام طور پر اندر ہی کے لوگ ہوتے ہیں۔ نارتھ ناظم آباد کا ریپ اس تحقیق کی سچائی کی دلیل ہے۔ اس بستی کو اپنوں نے ویسے ہی تاراج کیا جیسے پاکستان کو اپنوں نے تاراج کیا۔ اسی لیے نارتھ ناظم آباد کے ریپ کو سمجھنے سے پاکستان کے ریپ کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ سوشیالوجی کے طلباء کروڑوں کی آبادی پر تحقیق کرنے کے لیے ایک ایک فرد سے جا کر سوال نہیں کرتے بلکہ چند سو یا ہزار لوگوں سے سوالنامہ پر کروا کر نتیجہ نکال لیتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا ریپ سمجھنے کے لیے کراچی کی اپنے وقت کی شاندار آبادی نارتھ ناظم آباد کی بربادی کو سمجھنا کافی ہے۔

یہ ریپسٹ وہی ”بھائی“ اور ”باجیاں“ تھیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ یہ ہمارے ہی درمیان سے اٹھے مقامی فرعون تھے جو ایم کیو ایم نامی تنظیم سے ابھرے اور افسوس یہ کہ ان عفریتوں کی نظر ہمارے نارتھ ناظم آباد پر پڑی۔ بڑی وجہ یہاں کی مڈل کلاس آبادی تھی۔ دھیمے مزاج کے، پڑھے لکھے، اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ۔ ایم کیو ایم، جس کو آج کوئی پوچھتا نہیں، اس دور میں کراچی میں دہشت کی علامت تھی۔ جیسا کہ آرویل نے کہا ہے، مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کر دیتی ہے۔ اس جماعت کے ساتھ یہی ہوا۔

کراچی کے اندر یہ مکمل کرپٹ اور لٹیرے تھے لیکن اوقات ان کی کراچی سے باہر اپنی بدمعاشی دکھانے کی نہیں تھی۔ یوں سمجھئیے کہ بلاول بھٹو لاہور جا کر دھمال برپا کر سکتے ہیں، مریم سندھ میں عوام سے پوچھ سکتی ہیں کہ ان کے ابا کو کیوں نکالا، موجودہ وزیر اعظم تو پچھلی پانچ دہائیوں سے ملک اور بیرون ملک سلیکشن کمیٹیوں کو تگنی کا ناچ نچائے ہوئے ہیں، لیکن یہ لوگ تو پورے کراچی میں بھی اپنا تکبر نہیں دکھا سکتے تھے۔ کنٹونمنٹ یا ڈی ایچ اے میں کبھی کھال چھیننے یا بھتہ لینے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہوئی تو صرف اپنے لوگوں سے۔ قربانی کا جانور زندہ کھڑا ہوتا تھا اور یہ اس کی کھال کی پرچی لئے پہلے سے کھڑے ہوتے تھے۔ دینے والا اعتراض کرے تو اپنی کھال اتروائے۔

ایسے تھے یہ کم ظرف۔ ہمارے نارتھ ناظم آباد کی کھال کھینچ کر لے گئے۔ اتنے ہی ہمت والے تھے تو ڈی ایچ اے کے کسی پارک میں پلازہ کھڑا کر کے دکھاتے۔ پلازا تو دور کی بات، ایک اینٹ رکھ کر دکھاتے۔ ان کی اوقات تو یہ تھی کہ پہاڑ کو کاٹ کر ”کٹی پہاڑی“ بنائی تاکہ اس زمین پر قبضہ کریں، لیکن وہ بھی نہ کر سکے۔ پہاڑ پر رہنے والوں نے ان کی ایسی پھینٹی لگائی کہ دم دبا کر بھاگتے بنی۔ یہ تو صرف اپنوں کو ریپ کرنے کی ہمت رکھتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ نارتھ ناظم آباد کو اسلام آباد سے پہلے بنایا گیا تھا، یہ سوچ کر کہ یہ پر فضا مقام دارالحکومت کے لیے بہت موزوں ہے۔ تو وہ پہاڑیاں جدھر پرائم منسٹر ہاؤس بننا تھا، آج وہاں ”کٹی پہاڑی“ نام کا بدنما داغ ہے۔

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ڈی ایچ اے اور دوسرے پوش علاقوں کو اٹھانے کے لیے ہمارے نارتھ کو قصدا ٌ ان بھیڑیوں کے ہاتھوں برباد کروایا گیا۔ اگر ایسا ہے تو پھر وہی تنگ نظری، چھوٹا پن، خود کو اٹھانے کے لیے دوسرے کو گرانا ضروری سمجھنا۔

بہرحال، اقبال نے ان لوگوں کے بارے میں تو ہرگز نہیں کہا تھا، ”کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد“ ۔ یہ بے بصیرت، تازہ بستیاں تو کیا آباد کرتے، یہ ہماری آباد بستی کو تاراج کر گئے۔ نارتھ ناظم آباد ایک محلہ تھا عالم میں انتخاب، اور ہم بدقسمت وہاں کے رہنے والے ہیں۔ ایک وقت تھا جب دن بھر شہر میں کام کرنے کے بعد نارتھ کی فضا میں قدم رکھتے ہی روح میں سکون کا احساس ہوتا تھا۔ آج یہاں گھس بیٹھیوں کی یلغار ہے اور طبیعت اوبتی ہے۔ پر فضا باغات کی جگہ بد نما عمارتوں نے لے لی ہے۔ یوسفی اور انشاء جی کے حوالوں سے معروف بستی میں آج کسی تخیل سے عاری شخص نے ایک بلڈنگ کا نام رکھا ہے ”برج ویو اپارٹمنٹس“ ، یعنی وہ فلیٹ جن کی بالکنی سے ایک سریے اور کنکریٹ سے بنا ہوا بدصورت سیاہ ڈھانچہ دکھائی دے۔

واہ، کیا بے شرمی ہے۔ پارک پر قبضہ کر کہ بلڈنگ بناؤ، اور نام ایسے فخر سے رکھ رہے ہیں جیسے کہ رہے ہوں وکٹوریہ آبشار ویو یا نیاگرا فالز ویو۔

لیکن بے شرم کا لقب دینے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ان میں سے زیادہ تر پاکستان چھوڑ چکے، آج امریکا، برطانیہ وغیرہ میں عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں، گیس سٹیشنوں کی لائن لگائی ہوئی ہے ہماری بستی کے عوض۔ اور جو چند پیچھے رہ گئے، یہ وہ بیچارے جنہیں اس وقت حصہ نہیں ملا، آج ان کی حالت عبرت ناک ہے، کیونکہ پارٹی تو اب ایک گلی کی بھی نہیں رہی۔

یہ عفریت جو ہمیں کھا گئے انہوں نے صرف اس پر بس نہیں کی۔ یہ دوسرے عفریتوں کو ریپ کے طریقے سکھا گئے۔ بالکل جس طرح انہوں نے دوسروں کو بھتہ لینا، موبائل چھیننا، قتل کرنا، لوگوں کو دہشت میں مبتلا کرنا سکھایا۔ ان کے سکھائے ہوئے آج ان سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ پچھلی دنوں خبر پڑھی، ایم کیو ایم کو کراچی کی زمینوں پر قبضے پر تشویش۔ ہنسی چھوٹ گئی۔ پھر ان کا مطالبہ پڑھا، کوویڈ کی آڑ میں کراچی کے تاجروں سے بھتہ لینا بند کیا جائے۔ انٹرنیٹ کی اصطلاح میں rofl کی کیفیت ہو گئی، یعنی ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ پوٹ ہونا پڑا۔

لیکن ہنسی کا گلا گھٹ گیا یہ سوچ کر کہ آج نارتھ ناظم آباد ہر طرح کے درندوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، نہ جان محفوظ نہ مال۔ جس غنڈے، موالی کا کہیں اور زور نہیں چلتا، اپنی اوقات کے مطابق نارتھ میں آ کر زمینوں پر قبضے کرتا ہے، گھروں میں ڈکیتیاں مارتا ہے، یا سڑکوں پر رہ زنی کرتا ہے۔ لینڈ مافیا زمین پر غنڈے بٹھا کر دھرتی ماں کے سینے میں بورنگ کی مشین ٹھونکتا ہے۔ مکینوں کے لئے پانی نہیں، لیکن مافیا زمین میں سینکڑوں فٹ گہرے سوراخ مار کر ریپ کا آغاز کرتا ہے۔ دن بھر مشینی شور، لیکن کسی میں ہمت نہیں انہیں خاموش کرانے کی۔ جلد ہی کئی منزلہ عمارت تیار، اور مافیا بیچ کر غائب۔

اس کے بعد پچاس لوگوں کی لیے فراہم کردہ سہولتوں پر پانچ سو آباد، اور معیار زندگی برباد۔

ایک بزرگ جنہوں نے نارتھ ناظم آباد کا شاندار ماضی دیکھا ہے ایک لا وارث پلاٹ پر قبضہ ہوتے دیکھ کر کہنے لگے، یہ زمین ان کو مرنے کے بعد ایسے بھینچے گی کہ پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جائیں گی۔ یقیناً، لیکن اگر شور محشر یہیں اٹھ جائے، ان مجرموں کو دار و رسن کے لالے یہیں پڑ جائیں تو کتنا مزہ ہو۔ مگر پھر سوال کہ یہ کرے گا کون۔ قانون نافذ کرنے والے خاموش تماشائی ہیں یا سلیپنگ پارٹنر؟ اس کا جواب نہ کسی کے پاس ہے نہ مانگنے کی ہمت۔

تسلیم کرتے ہوئے شرم آتی ہے، لیکن یہ کم ہمتی ہی ہماری بربادی کی وجہ ہے۔ جب پہلے پارک پر قبضہ ہوا، سب خاموش رہے۔ ہر نئے ظلم پر لوگ مزید خاموش اور بے حس ہوتے گئے۔ اور آج اس مینڈک کی طرح ہیں جو بتدریج گرم پانی میں رہتے ہوئے ابل کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس بے حسی کی قیمت دیتے دیتے نارتھ ناظم آباد کا سماجی لباس تار تار ہو چکا۔ شکار بے لباس ہو تو ریپ کرنے والے اور کھل کر کھیلتے ہیں۔

ویسے نارتھ کی امت کا اجماع ہے کہ یہ ”سلیپنگ پارٹنرشپ“ کا ہی معاملہ ہے۔ افسوس اس بات پر کہ ہر ایک ناجائز تعمیر پر جانے کتنے سرکاری کارندوں کو لینڈ مافیا کے ساتھ ”سلیپنگ“ کرنی پڑتی ہو گی۔ شرم ان کو مگر نہیں آتی!

انگریزی کی ایک اصطلاح ہے riff۔ raff۔ آج ہماری بستی میں riff۔ raff مثل سگ آزاد گھومتے ہیں۔ اور یہاں کے اصل مکین نظر چرا کے اور جسم و جان بچا کے چلتے ہیں۔

یہ اصل مکین اپنی شرمندگی کے پسینے میں تر ہیں۔ یاد ہیں نا وہ دن جب صبح سویرے ان فاشسٹوں کے کہنے پر ہاکر کو جنگ اخبار ڈالنے سے منع کرتے تھے، یا راتوں کو گھر کی دیواروں پر الیکشن میں کسی کھمبے کے جیتنے کی خوشی میں دیے جلاتے تھے، یا حیدری مارکیٹ میں نام نہاد بھائی کے جلسوں میں 1، 2، 3 کہنے پر ایسے خاموش ہوتے تھے جیسے اس آدم خور پر نعوذ باللہ کوئی وحی اترنے والی ہو۔ دیکھو ان بے حیا، احسان فراموشوں نے تمھیں کتنا اچھا تحفہ دیا ہے۔ آج پرانے نارتھ ناظم آبادیوں کے چاروں طرف ابلتے ہوئے گٹر ہیں، نہیں ہے تو چلو بھر صاف پانی جس میں ڈوب کر مرا جا سکے۔

صاحبو، پاکستان کا ریپ بھی ایسے ہی اپنوں نے کیا۔ کسی نے باہر سے آ کر اس ملک کو نہیں ڈسا۔ سب مقامی گدھ ہیں جو ملک کو نوچتے ہیں۔ جو باہر سے آتے ہیں انھیں بھی راستہ مقامی گدھ ہی دکھاتے ہیں۔ ان مردار خوروں کے منہ کو جو بوٹی لگتی ہے ادھیڑ لیتے ہیں۔ نارتھ ناظم آباد اور وطن کی گلیوں پر نثار ہونے والوں کے نصیب میں riff۔ raff کا پھیلایا ہوا وحشت انگیز شور رہ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments