بنیامن نیتن یاہو: موقع پرست اور ہوشیار رہنما جو نئے اسرائیل کی پہچان بنے
یولانڈ نیل - بی بی سی نیوز، یروشلم
بنیامن نیتن یاہو کو کبھی ’اسرائیل کا بادشاہ‘ کہا گیا تو کبھی ان کے لیے ’جوڑ توڑ کے عظیم ماہر‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے۔ ایک پوری نسل کے لیے نیتن یاہو، جنھیں پیار سے ’بی بی‘ بھی کہتے ہیں، اسرائیل کی سیاست پر غالب رہے۔
وہ اپنی لڑاکا طرزِ حکمرانی کے لیے معروف رہے اور ملک میں سب سے لمبے عرصے تک حکمرانی کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کا کردار ملک میں قوم پرستی اور دائیں بازوں کی سیاست کو ایک قدم آگے لے جانے میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر بھی وہ اتنے ہی عرصے تک اسرائیل کا چہرہ تصور کیے جانے لگے۔ وہ بڑے آرام سے اپنے امریکی لہجے میں انگریزی زبان بولتے اور ایک چھوٹے سے ملک کی نمائندگی کرنے کے باوجود وہ کئی بڑوں کو للکار دیتے۔
نیتن یاہو کی زندگی پر ایک کتاب لکھنے والی مصنفہ کے مطابق ان کی میراث میں ایک مرکزی بات یہ رہی ہے کہ ان کی کوشش تھی کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ جاری لڑائی کے زاویے کے علاوہ ایک الگ پہچان دی جا سکے۔
’بی بی: دی ٹربولینٹ لائف اینڈ ٹائمز آف بنیامن نیتن یاہو‘ نامی اس کتاب میں مصنفہ انشل پفیفر کہتی ہیں کہ ’اسے مشرق وسطیٰ میں تمام مشکلات کا حل سمجھا گیا۔ مگر اس نظریہ سے بالکل الٹ نتائج حاصل ہوئے۔‘
’(نیتن یاہو) اس مسئلے کو حل کرنے سے اب زیادہ دور محسوس ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود انھوں نے چار عرب ممالک سے سفارتی معاہدے کیے ہیں۔ اسرائیل کے دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوئے ہیں اور کووڈ سے قبل ایک دہائی تک بلا تعطل معاشی پیداوار جاری رہی۔‘
نوجوان رہنما
قریب 25 سال قبل نیتن یاہو اسرائیل کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنے تھے۔ وہ لیبر رہنما شیمون پیرس کے خلاف بڑی مشکل سے جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اس وقت دونوں کے ووٹوں میں مارجن انتہائی معمولی تھا۔
یہ انتخاب اسرائیلی وزیر اعظم یٹزیاک رابین کے قتل کے کچھ ہی مہینوں بعد ہوا تھا۔ ایک بڑی پیشرفت میں انھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدے کی شکل میں امن پر اتفاق کیا تھا۔
نیتن یاہو نے بڑی مہارت سے ووٹرز کو رضامند کیا کہ امن معاہدے کی ہر صورت مخالفت ہونی چاہیے جس سے اسرائیلی سکیورٹی متاثر ہو سکتی ہے۔
لیکن اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن نے ان پر دباؤ ڈال کر فلسطینی رہنماؤں سے مزید معاہدوں پر دستخط کروائے۔ اس سے بالآخر ان کی پہلی دائیں بازوں کی حکومت گِر گئی۔
بعد ازاں وزیر اعظم کے دفتر کے باہر بھی وہ لیکوڈ پارٹی میں ایک نمایاں رہنما کے طور پر ابھرے۔ اور سنہ 2000 سے 2005 کے درمیان دوسرے فلسطینی انتفادا یا اسرائیلی بدعنوانی کے خلاف بغاوت کے دور میں بطور وزیر کام کرتے رہے۔
وہ اسرائیلی سکیورٹی کی حمایت میں ایک اہم آواز بنتے چلے گئے۔ وہ فلسطینیوں کے مظاہروں پر تنقید کیا کرتے تھے اور انھوں نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے (ویسٹ بینک) سے اسرائیلی انخلا کی بھی مخالفت کی تھی۔
امن کے لیے بات چیت روک دی گئی
نیتن یاہو ایک بار پھر سنہ 2009 میں اقتدار میں واپس آئے اور انھوں نے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کی مگر اس پر ایک شرط رکھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اس میں فوجی سرگرمیوں کا عمل دخل نہ ہو اور اسے باقاعدہ طور پر اسرائیل کو یہودیوں کی ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔
فلسطینی رہنماؤں نے ان شرائط کو رد کیا اور اس طرح نیتن یاہو کی حکمرانی میں اسرائیلی مقبوضہ علاقے غربِ اردن میں سکیورٹی فورسز کا اضافہ ہوتا رہا۔
اس سے اسرائیلی قیادت اور فلسطینی رہنماؤں کے درمیان بات چیت کے دروازے بند ہو گئے۔
نیتن یاہو سمجھتے تھے کہ غیر حل شدہ اس تنازع کو سکیورٹی مسئلہ تصور کر کے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان کی حمایت میں لوگ کہتے رہے کہ امن کے لیے کوئی شراکت دار نہیں ہے۔
لیکن اس سے غزہ میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینی جنگجوؤں کے درمیان خطرناک جھڑپیں بڑھتی چلی گئیں۔ سنہ 2014 میں جنوبی اسرائیل میں راکٹ حملے روکنے کے لیے اسرائیل نے بڑے پیمانے پر ایک فوجی آپریشن کیا جس میں کافی زیادہ فلسطینی ہلاکتیں ہوئی۔ اس پر نیتن یاہو کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس طرح امریکہ میں اوباما انتظامیہ پر بھی دباؤ بڑھنے لگا جو پہلے ہی ایران پر اپنی پالیسی تشکیل دے رہی تھی۔
سنہ 2015 کے اوائل میں امریکہ نے اس بات چیت کا آغاز کیا جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا۔ مگر نیتن یاہو نے براہ راست امریکی کانگرس سے خطاب کیا اور یہ بات امریکی صدر کو اچھی نہ لگی۔
نیتن یاہو نے امریکی قانون ساز اسمبلی کو بتایا کہ ممکنہ معاہدے سے ’نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے‘ بڑے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ شراکت
مگر عنقریب اسرائیل کے اپنے سب سے بڑے اتحادی کے ساتھ تعلقات ڈرامائی انداز میں تبدیل ہونے والے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو اپنے ملک کا ’سب سے عظیم دوست‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے نئے سربراہ کون ہیں؟
آپریشن اوپرا: جب اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عراق کا جوہری ری ایکٹر تباہ کیا
غزہ پر راج کرنے والا فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کیسے وجود میں آیا؟
ایلیٹ کمانڈو سے وزارت عظمیٰ تک کا سفر
امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا اور اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یہاں منتقل کر دیا۔ اس نے امریکی پالیسی اور بین الاقوامی اتفاق رائے کا رُخ موڑ دیا۔
اس اقدام نے فلسطینیوں کو کافی مایوس کیا جو مشرقی یروشلم کو اپنی امید کردہ ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح انھوں نے واشنگٹن سے اپنے ناطے توڑ دیے۔
امریکہ سنہ 2015 میں کیے گئے ایران جوہری معاہدے سے بھی دستبردار ہو گیا اور اسے نیتن یاہو نے سراہا۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کے حل کے لیے ایک طویل عرصے تک ٹرمپ کے امن معاہدے کا انتظار کیا گیا۔ ان کے حمایتیوں نے اسے ’صدی کی بہترین ڈیل‘ قرار دیا مگر درحقیقت اس کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف تھا۔ تاہم اس پر کبھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔
نیتن یاہو نے اس سفارتی پیشرفت پر اپنے ذاتی کردار کو نمایاں کیا اور امریکی ثالثی میں تاریخی معاہدے کیے جن کے مدد سے اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش جیسے عرب لیگ کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے۔
بدعنوانی پر مقدمہ
عالمی سطح پر اپنی کامیابیوں کے باوجود اپنے ملک میں نیتن یاہو مشکلات سے گھرے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم کی جانب سے مبینہ طور پر کاروباری شخصیات سے رشوت لینے اور مثبت پریس کوریج کے لیے اقدامات کے خلاف پولیس نے تحقیقات کی۔ ان کا مقدمہ اب بھی زیر سماعت ہے لیکن وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔
اسرائیل میں سیاسی ماحول دو حلقوں میں بٹ گیا ہے، جیسے ایک گذشتہ عدالتی سماعت کے باہر دو قسم کے مخالف مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
نیتن یاہو مخالف مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ ’وہ انصاف سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے ساتھ 90 لاکھ شہریوں کو بھی نیچے لے گئے ہیں تاکہ قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔‘
جبکہ نیتن یاہو کے حامی کا کہنا تھا کہ ’وہ حکومتی سطح پر بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیتن یاہو واحد رہنما ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے بہترین نہیں مگر انھوں نے وہ سب نہیں کیا جس کا ان پر الزام ہے۔‘
کئی اسرائیلی شہری سمجھتے ہیں کہ قانونی نظام میں طویل دورانیے کی تاخیر کی وجہ سیاسی تعطل ہے۔ اسی لیے گذشتہ دو برسوں میں چار مرتبہ عام انتخابات منعقد کیے گئے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کے سیاسی نامہ نگار ٹال شنائڈر نے حالیہ انتخابات کے بعد مجھے بتایا کہ ’یہ احمقانہ ہے۔۔۔ سنہ 1948 میں ملک کے قیام سے اب تک ہم نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔‘
’یہ کچھ لوگوں کے لیے شدید تھکن کا باعث بنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک فعال حکومت نہ ہو تو آپ بجٹ بنا سکتے ہیں نہ خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔‘
اپوزیشن متحد
یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ آیا اسرائیل کی نئی اتحادی حکومت ملک میں نیتن یاہو کے متبادل کے طور پر معاملات ٹریک لا سکے گی یا نہیں۔ نفتالی بینیٹ نے اس کا وعدہ کیا ہے۔
سیاسی منظر نامے میں موجود مختلف جماعتیں ایک ساتھ ملی ہیں تاکہ ملک پر چھائے نیتن یاہو کے گھنے سائے کو مٹایا جا سکے۔تاہم ان جماعتوں کے الگ نظریے ہونے کی وجہ سے یہ مرحلہ مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ کئی حساس پالیسیوں پر فیصلے ہونا باقی ہیں۔
نیتن یاہو جن کی عمر اب 71 برس ہے نے واضح کیا ہے کہ وہ لیکوڈ پارٹی کے رہنما برقرار رہیں گے۔ اس جماعت کو پارلیمان میں قریب 25 فیصد سیٹیں حاصل ہیں۔
سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر کی حیثیت سے حزب اختلاف میں وہ اتحادی حکومت کی کمزوریاں تلاش کرتے رہیں گے۔
انھوں نے ابھی سے نفتالی بینیٹ پر تنقید شروع کر دی ہے۔ وہ ایک وقت میں ان کے چیف آف سٹاف ہوا کرتے تھے۔ نیتن یاہو نے الزام لگایا ہے کہ وہ بائیں بازوں کی حکومت بنا کر ’صدی کا سب سے بڑا فراڈ‘ کرنے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے اسرائیل تباہ و برباد ہو جائے گا۔
مگر ان سب خدشات کے باوجود یہ سابق بادشاہ اپنا تاج واپس لینے کے لیے پُرامید ہے اور اس نے ہار نہیں مانی۔
- سمارٹ فون، جاسوسی کے سافٹ ویئر اور ’ایم کامل‘: اسرائیل کیسے لبنان میں گاڑیوں یا عمارت کے اندر موجود اپنے ہدف کی بھی نشاندہی کر لیتا ہے؟ - 29/03/2024
- اپنی تصویر، آواز اور نام دیں ’50 پاؤنڈ‘ لیں۔۔۔ چینی کمپنی کی انوکھی آفر سے بچنا ’مشکل‘ - 29/03/2024
- کینیڈا کا وہ جزیرہ جو دو ہزار زلزلوں کے باوجود محفوظ رہا - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).