وفاق نہیں عمران خان سندھ سے انتقام چاہتا ہے


زمانہ کرکٹ سے ہی جناب کی بغض اور انا بھری فطرت کے قصے عام ہیں اور اب تو ہر خاص و عام ان سے واقف بھی ہے۔ ذاتی انتقام ان کی شخصیت میں شامل ہے۔ بد قسمتی سے اللہ رب العزت نے شہرت اور مقام تو عطا کر دیا مگر سلیقے سے محروم رکھا۔ شروع سے ہی جس تھالی میں کھاتے آئے ہیں اسی میں چھید بھی کرتے آئے ہیں۔ کوئی ایسا سیاسی لیڈر یا اتحاد اس ملک میں نہیں ہے جس کی خان صاحب نے کبھی حمایت تو کبھی مخالفت نہ کی ہو۔

سیاستدانوں کو تو چھوڑ ہی دیں ریاستی اداروں پہ جو تنقید موصوف ملک چاہے ملک سے باہر کرتے پھرتے تھے اس کی مثال نہیں ملتی۔

حالیہ دور حکومت ہر طرح سے صرف اور اور صرف صاحب بہادر کی انا کی تسکین کی تسلی اور تشفی کے سوائے کچھ بھی کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے جتنی بار ان کو زندگی میں کبھی کسی کا بھی سہارا لینا پڑا یا کبھی کسی کی خوش آمد بھی کرنی پڑی تھی اب یہ ان سب سے حساب چکانے کا وقت ہے۔

جبکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ محترم کے پاس بائیس سال کی جدوجہد کے بعد بھی اپنی کابینہ تک نہیں ہے کیونکہ حکومت ہی کہیں اور سے بخشش میں ملی ہے۔ ہر طرف صرف سیاسی انتقام کی آگ ہے۔

ملک کے تین صوبے ان کے مکمل کنٹرول میں ہیں نہیں ہے تو بس ایک سندھ نہیں ہے اور یہی ان کی انا کو منظور نہیں ہے اس لیے آئے دن کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اور محاذ سندھ کھول دیا جاتا ہے۔

عمران اسماعیل، حلیم عادل شیخ، اسد عمر، خرم شیر زمان بمع اب فواد چوہدری پہلے بھی اپنا بغض گاہے بگاہے دکھاتے رہے ہیں اور فواد چوہدری کی حالیہ گفتگو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس طرح میں عمران خان کو سیاستدان اور تحریک انصاف کو سیاسی پارٹی نہیں مانتا اسی طرح میں فواد چوہدری کو بھی سیاستدان نہیں مانتا۔ فواد چوہدری کمپنی سرکار کا ایک سیاسی برسرروزگار پیادہ ہے جو وہاں پایا جاتا ہے جدھر کا رخ ہواؤں کا ہو۔

عمران خان اپنی شہرت کی بنا پہ ایک برانڈ بنا اور لوگوں سے کہا کہ آؤ مجھ پہ پیسا لگاو میں تمہیں منافع دوں گا۔ یہ سیاسی ڈبل شاہ بنا۔ دور اندیش کاروباری حضرات نے ہواؤں کے رخ کو سمجھا کہ ان ہواؤں کو دوام پیچھے سے حاصل ہے اس لیے تحریک انصاف نامی کمپنی پہ سرمایہ کاری شروع ہوئی۔ بدلے میں عمران خان نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھرپور نوازا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے تمام بڑے لیڈران جیلیں کاٹ کے آچکے کسی پہ کچھ بھی ثابت تو دور کارروائی تک آگے بڑھانے جتنے ثبوت بھی یہ حکومت پیش نہ کر سکی اور دوسری طرف عمران خان کے تمام ذاتی دوست تک ملک کو لوٹ کھسوٹ کر پر لوک بھی سدھار چکے۔ سندھ حکومت کے ناقدین میں سے ایک میں بھی ہوں اور تب تو شدید تھا جب سائیں کی سرکار تھی۔ پر مراد علی شاہ صاحب ایک پڑھے لکھے اور تند و تیز وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے واقعی اپنی صلاحیتوں سے صوبے بھر میں پارٹی کا امیج بہتر کیا اور اس کا اثر دوسرے صوبوں تک بھی پہنچا۔ پہلے ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی کے جس طرح دانت کھٹے وہ اسمبلی میں کر دیتے ہیں اور ہر معاملے پہ جس تیاری سے وہ ایوان میں آتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔

مراد علی شاہ صاحب کا کوئی قصور ہے تو وہ بس ایک یہ کہ وہ خان بہادر کے درباری نہیں ہیں اور اپنا صوبہ آزادی اور خودمختاری سے چلا رہے ہیں جبکہ وفاق کی صورت میں عمران خان ذاتی طور پہ اپنی اس نافرمانی کی سزا سندھ حکومت کے ساتھ ہر کچھ وقت کے بعد کسی نہ کسی ہتھکنڈے کی صورت میں دیتے آرہے ہیں ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن ہر آئے دن مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اس میں سب سے آگے کراچی ہے جہاں ایم کیو ایم کے بعد خان صاحب کو ہی چنا گیا۔

عوامی معاملات میں عدم دلچسپی، اقربا پروری، اداروں کی شمولیت کا یوں کھل کے پرچار اور کمر توڑتی مہنگائی عوام کی نظروں میں ان کا امیج اس قدر گرا چکی ہیں کہ اب تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ حکومت کیسے وجود میں آئی اور کیسے قائم ہے۔

فواد چوہدری جس کی شہرت عدالت کے باہر معاملات طے کرانا تھا۔ ایسا آدمی جو صدر زرداری کے قدموں میں پڑا رہا ہو اور آج وہ سندھ حکومت اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرے یہ آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments