ابلیس ثانی
یوں تو زندگی میں بے عزتی کروانے کے لاتعداد طریقے رائج ہیں لیکن ایک طریقہ ایسا ہے جسے آپ ناگہانی بے عزتی کہہ سکتے ہیں۔ مطلب بیٹھے بٹھائے، بغیر کچھ کہے یا کسی کو چھیڑے آپ کو رگڑ دیا جائے گا۔ باتوں کے تھپیڑے آپ کے گال لال کردیں گے۔ سامنے والا باقاعدہ آپ کو غلیظ ترین گالیاں دے گا، تو تڑاق سے گفتگو کرے، بھنویں سکیڑ کے تیوری چڑھائے گا اور اس خبیث الاخبث کا روپ دھار لے گا کہ اگر یزید بھی اس کو دیکھ لے تو اس کو سجدے کرے اور ابلیس دیکھ لے تو خدا کا شکر ادا کرے کہ تو نے مجھے شیطان بنایا مگر یہ نہ بنایا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ ہے کون؟
بس میرے عزیزو، میرے دوستو یہ وہ ہر ملعون ورکشاپ والا ہے جس کے پاس آپ اپنی گاڑی بیچنے یا فقط اس کا ریٹ لگوانے چلے جاتے ہیں۔
اب ہوتا کیا ہے بھلا؟
ایک کریہہ الصوت و غلیظ صورت مینیجر ائر کنڈیشنر آفس میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے موبائل میں مصروف ہوگا کہ اس کا اسسٹنٹ اسے خبر سنائے گا ”سر یہ صاحب گاڑی بیچنا چاہتے ہیں ( یا اس کی قیمت لگوانے آئے ہیں۔ )“ ۔
بس یہ خبر اس کے لئے جہنم کی وعید ہوگی اور یہ فرعون و ہامان کے تکبر کو اپنے پیروں میں روندتا، بسی ہوئی آلو کی بھجیا سا منہ بنائے موبائل کو جیب میں اس غیض و غضب کے عالم میں ڈالے گا جیسے فحش فلمیں دیکھتے کسی ٹین ایجر کو ڈسٹرب کر کے کسی کام کا کہہ دیا جائے۔
خیر بادل ناخواستہ یہ نہایت سرعت اور پھر قدرے رسان سے گاڑی کے اردگرد یوں منڈلانا شروع کردے گا جیسے گدھ مردار کے گرد اسے نوچنے سے قبل چکر لگاتا ہے۔
باری باری تمام دروازے مار مار کر ان کی آواز سنے گا۔ ڈکی کی سمت جا کر ایک آنکھ میچ کر سیدھ ایسے چیک کرے گا جیسے سنوکر کی شاٹ کھیل رہا ہو۔ پھر چھت پر ٹھونگ مارے گا۔ اور یک لخت پان کی نصف رال سنبھالتے اور نصف ٹپکاتے ہوئے کہے گا
”گائی کی شت ینگ ہوئی اے“
(گاڑی کی چھت رنگ ہوئی ہے ) ۔
پان کی پیک ٹھوڑی پر بہنے کے باعث فوراً پانی کا گلاس منگا کلی کرے گا۔ پان تھوک کر دوبارہ گاڑی کا معائنہ کرنے میں جٹ جائے گا اور معائنہ کیا کسی سراغ رساں کتے کی طرح نتھنے سکیڑ اور پھیلا کر اس کی بو سونگھنے کی سعی کرے گا۔ بونٹ پر پہنچ کر دفعتاً رک جائے گا۔
”اوئے اشرف! بونٹ کھول ذرا۔“
”بونٹ مارا تھا کہیں؟
یہ بونٹ پٹی بھی جینوئن نہیں ہے۔
اس کے سکریو کھل چکے ہیں ایک بار۔
اور یہ انجن دھلوایا نہیں کبھی؟
یہ رائٹ سائڈ کسی دیوار میں ٹھکی ہے۔
کیوں اوئے جہانگیرے؟
ادھر آ۔ یہ دیکھ ذرا۔ سٹیرنگ وہیل اور فرنٹ وہیل دونوں کی الائنمنٹ گڑ بڑ ہے۔
اور یہ ونڈ سکرین پٹی بھی کٹی ہوئی ہے۔ ”
یہ سارا فضلہ اس کے دریدہ دہن اور آلودہ ذہن سے اس ایک ہی سانس میں خارج ہوگا جس کے اختتام پر آپ یہ بتانے کی ناکام کوشش کرتے ہوں گے کہ ابے او نابکار انسان میں نے کہیں بونٹ نہیں مارا۔
اتنے میں وہ صاحب جن کا نام غالباً ”جہانگیرے“ ہوگا نہ چاہتے ہوئے کہہ دیں گے یا کور کرنے کے لئے یا خدا جانے ان کے منہ سے نکل جائے گا کہ سٹیرنگ وہیل تو ٹھیک ہے استاد جی۔
بس پھر کیا تھا۔ جیسے کسی نے تلوار اس مردود کے مار دی ہو۔ ایک طوفان دشنام و بدتمیزی کا لاوہ اگلنا شروع ہو جائے گا۔
”کیا کہا؟
او۔ ۔۔۔ کے بچے مجھے سکھا ریا ہے؟
یہ ۔۔۔ ڈنٹ پڑا ہوا ہے۔ نظر نہیں آ رہا تجھے۔ ۔۔۔کی اولاد ”
اور اس دوران وہ کن انکھیوں سے اس انداز میں آپ کی طرف دیکھے گا کہ جہانگیرا فقط بہانہ اور آپ ہیں اصل نشانہ۔
”یہ اے سی کمپریسر کی ماں۔ ۔ ہوئی پڑی ہے۔
یہ دروازہ بھی لگا ہوا ہے۔ الخ ”
آپ اس دوران سراسیمگی کی حالت میں یہ سوچتے ہوں گے کہ گاڑی کا تو آج تک کوئی ایکسیڈنٹ بھی نہیں ہوا پھر یہ سب کچھ بقول اس کے کون ٹھونک گیا؟
الغرض آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ اگر اس راون کا بس چلے تو آپ سے دست و گریباں ہو جائے اور اگر آپ نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو یہاں گاڑی کی قیمت تو گئی بھاڑ میں، خدشہ ہے کہ لپا ڈگی ہونے لگے گی۔
خوب ٹھونک بجا کر، بار بار چھت سے اور بونٹ سے انگشت شہادت کی مدد سے مٹی کی لیئر اتار کر اور اس کے ایک ایک مالیکیول، ایٹم و الیکٹران پروٹان وغیرہ کا بغور معائنہ کرنے کے بعد یہ ”دلال“ دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں پھنسا کر نہایت تحکمانہ انداز میں آپ سے مخاطب ہوگا
”کتنے میں دینی ہے؟“
آپ ٹھہرے سفید پوش، ڈر کر اور اس کی ممکنہ فحش گفتاری کے مدنظر پہلے تو دل میں سوچیں گے کہ اگر قیمت مجھے ہی لگانی تھی تو تم ایسے لعنتی کے پاس کیوں آتا؟
خیر غصہ پی کر آپ اسی سے الٹا پوچھیں گے کہ آپ بتائیں تو یہ دس منٹ یہ راگ الاپنے میں برباد کرے گا کہ چیز تمہاری ہے لہذا قیمت تم بتاؤ۔ اور آپ اس ڈر سے قیمت نہیں بتائیں گے کہ قیمت سن کر کہیں یہ خونخوار بھیڑیا آپ کو قتل ہی نہ کر ڈالے۔
خیر خوب رد و کد کے بعد ، پہلے آپ، پہلے آپ والے مراحل طے کر کے آخر میں ایک دو منٹ کے لئے یہ اپنی تھوتھنی کو نیچے لٹکا کر نگاہیں زمین پر گاڑ دے گا۔ دو تین لمبے لمبے گہرے سانس لے گا۔ ”ہوں ں ں ں ں ں“ کرے گا۔
اور پھر کھنگار کر بولے گا
” دیکھ یار، تیری چیز ہے۔ ریٹ میں فرق نہیں ہوگا انشا اللہ۔ باہر سے بھی تو بے شک پتہ کر لے۔“
(سکتہ)
”ہاں مگر وہ تو ٹھیک ہے آپ قیمت تو لگائیے“
اس کے بعد یہ سگریٹ سلگاتے ہوئے آپ کی ہونڈا سوک کے فقط دو سال پرانے ماڈل کی قیمت بھلا کیا لگائے گا؟
بارہ لاکھ روپے۔
- آخری جمعہ - 06/04/2024
- مادری زبان اور اللہ کی حکمت کا بیان - 24/02/2024
- آج کیا پکائیں؟ - 26/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).