آم، پھلوں کا بادشاہ


آم انتہائی لذیذ اور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جو کہ اپنی مخصوص خوشبو اور منفرد ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ آم رس دار، صحت بخش، سستا اور سہل الحصول پھل ہے۔ آم چار ہزار سال پہلے انڈیا میں پیدا ہوا تھا اور رفتہ رفتہ دنیا جہاں میں پھیل گیا۔ اس کی سب سے زیادہ پیداوار برصغیر میں ہوتی ہے۔ آم بیک وقت پاکستان، بھارت اور فلپائن کا قومی پھل ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا قومی درخت بھی ہے۔

آم کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام ہیں۔ پاکستان میں آم کی تین سو سے زیادہ اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں دسہری، چونسہ، سندھڑی، انور رٹول، اور لنگڑا وغیرہ سر فہرست ہیں۔ آم کی ہر نسل اپنا الگ اور منفرد رنگ و ذائقہ رکھتی ہے۔ آم کی زیادہ تر اقسام میٹھی اور رس دار ہیں جبکہ کچھ ترش بھی ہیں۔ پکے آم کا رس کھایا جاتا ہے جبکہ کچے آم کو اچار اور مربعہ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آم کا اچار مشہور ہے اور بہت لذیز ہوتا ہے۔ آم کا رس نکال کر بھی پیا جاتا ہے۔ آم کا ملک شیک گرمیوں میں ہوٹلوں کی زینت بنتا ہے اور بڑے عوام بڑے شوق سے نوش فرماتے ہیں۔ دور جدید میں آم کو آئسکریم، سویٹ ڈشز، جوس، جیم کے علاوہ پیزا اور پلاؤ میں بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔

آم لذیذ اور خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بخش بھی ہے۔ آم میں موجود فائبرز قبض اور ہیضے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ آم میں انزائم ایمیلیز موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے نظام انہضام میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس میں موجود وٹامن اے بینائی کے لئے موثر ہے، وٹامن سی خون میں کولیسٹرول لیول کو کنٹرول کرتا ہے، وٹامن ای ہمیں چاق و چوبند رکھتا ہے اور جلد کو ترو تازہ بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور اینٹی آکسیڈنٹ آنتوں، خون اور گلے کے کینسر سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آم میں انرجی (کیلوریز) ، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، چکنائی، کاپر، فولیٹ، وٹامن بی 6، وٹامن بی 5، پوٹاشیم، میگنیشیم، تھایامائن، میگنیز وغیرہ کی مناسب مقدار بھی موجود ہوتی ہے جو کہ ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔

آم کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً چار لاکھ بارہ ہزار ایکڑ رقبے پر آم کی کاشت کی جا رہی ہے جس سے مجموعی طور پر تقریباً اٹھارہ لاکھ ٹن پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک تہائی آم صوبہ پنجاب میں پیدا ہوتے ہیں جس میں سب سے زیادہ ملتان اور اس کے گردونواح میں پیدا ہوتے ہیں۔ ملتان کے آم غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان کی مٹھاس دنیا بھر کے آم سے منفرد ہے اسی لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

ملتان سے آم پاکستان اور دنیا کے کونے کونے تک بھیجے جاتے ہیں۔ ملتان کا چونسہ جنوبی پنجاب کی سوغات میں سے ہے اور دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں ملتان کے علاوہ مظفر گڑھ، شجاع آباد، خان پور، رحیم یار خان، خانیوال اور کبیر والا میں بھی آم کی بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے۔ سندھ میں حیدرآباد، میرپور خاص، ٹنڈو اللہ یار، خیرپور اور سانگھڑ میں کاشت کیے جاتے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت پاکستانی آم تاثیر، رنگ اور ذائقے کے اعتبار سے سب سے منفرد ہیں اور دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی آم سعودی عرب، مسقط، عمان، کویت، بحرین، فرانس، جرمنی، ناروے، ہالینڈ، سنگا پور، ہانگ کانگ ملائیشیا، چین، ایران، آسٹریلیا، دبئی اور بہت سارے ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیں۔ تقریباً 50 فیصد پاکستانی آم مشرق وسطیٰ، سعودی عرب اور فار ایسٹ کے ممالک میں جاتا ہے جبکہ 20 فیصد ایران، افغانستان اور 25 فیصد کے قریب یورپ اور امریکہ بھیجا جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں یہ بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں پاکستانی آموں پر پاکستان کا ٹیگ لگا ہوتا ہے اور مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔

آم کی ملک کی معیشت میں اہم کردار ہے۔ اس کو بیرون ملک برآمد ملک میں کثیر زرمبادلہ لانے کا سبب بنتی ہے اور بہت سے لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دو برس میں کرونا وائرس کی وجہ سے اس کی برآمد میں کمی واقع ہوئی۔ آم کی درآمد میں کمی کی ایک اور وجہ بین اقوامی قوانین پر عمل درآمد نا کرنا ہے۔ ان میں غیر معیاری پیکنگ اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ نا کرنا شامل ہیں چند سالوں سے ضرر رساں کیڑے فروٹ بورر، اور آم کی مکھی نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جس سے پیدا وار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت سے کسان کچے آم کو پکانے کے لئے کیلشیم کاربائیڈ استعمال کرتے ہیں جو کہ مضر صحت ہے۔ آم کو پکانے کے لئے ایتھین استعمال کرنی چاہیے۔ رواں سال ملتان میں آم کے باغات کی بے دھڑک کٹائی جاری ہے اور اس پے کالونیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ جو کہ انتہائی اندوہ ناک عمل ہے۔ اس وقت فوڈ سیکیورٹی کے مسائل لاحق ہیں اور کم رقبے پر زیادہ پیداوار درکار ہے وہی اس امر کا ہونا کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آم کے باغات کی کٹائی اسی طرح جاری رہی تو آنے والے چند سالوں میں ہم پھلوں کے بادشاہ آم جیسی نعمت سے مرحوم ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments