اسلام آباد میں اسلام کب آباد ہو گا؟


چالیس سال ہو گئے اس شہر میں آئے، اس کا کونہ کونہ دیکھ چھوڑا نہ اس میں کبھی اسلام نظر آیا اور نہ ہی کبھی یہ آباد نظر آیا، اگر اسلام کی بات کریں تو مساجد کو کمانڈوز سے خالی کروانا پڑتا ہے اور پھر خود کش حملے شروع، مساجد کا بہترین استعمال بھی یہیں پر دیکھا اکثر نکاح اب فیصل مسجد میں ہوتے ہیں مقصد شاید ہی سنت کو زندہ کرنا ہوتا ہو، لیکن فوٹو شوٹ کی اجازت مل جاتی ہے اور پھر قربت بھرے پوز اس مسجد کے اندر فلمائے اور فوٹوگراف کیے جاتے ہیں جن دنوں میں شہر آباد ہوتے ہیں الحمدللہ اسلام آباد ویران ہوتا ہے وہ عید ہو الیکشن ہو یا کوئی اور خوشی غمی کی تقریب، کرونا تو اچھا آیا اس شہر میں کم از کم مرنے والے کو چار لوگ تو نصیب ہو جاتے ہیں بے شک وہ گھسیٹ کر ہی قبر میں اتارتے ہیں۔

میری کوشش ہوتی ہے ہر جنازے میں جایا جائے خاص طور پر جو اسلام آباد کے قبرستانوں کی اپنی جناز گاہوں میں ہوتے ہیں کیونکہ کئی دفعہ تو چار کندھے بھی موجود نہیں ہوتے، جو جنازہ اٹھایا مجھے یاد ہے جب کسی دوست کا فون آیا، بھائی کچھ دوستوں کو لے کر ایچ الیون قبرستان آ جائیں میت کے ساتھ میں اکیلا ہوں جنازہ کیسے اٹھاوں گا اور دفناؤں گا کیسے، بہت تلخ تجربے ہیں اس شہر کے ساتھ، مالک سب ہی ہیں۔ دفتری سے لے کر وزیراعظم تک، سپاہی سے آرمی چیف تک، وکیل سے چیف جسٹس تک، پر مقامی کوئی بھی نہیں ہے۔

سب ہی دوسرے شہروں سے اس کے مالک بننے آئے ہیں اور ضروریات زندگی کماتے ہیں اور واپس اپنے شہر اور گاؤں کو چلے جاتے ہیں۔ ہسپتال، تھانہ، کچہری، سکول، کالج اور تمام دفاتر جہاں بھی چلے جاو، بس یہی سوال ہوتا ہے آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے شاید اسلام آباد کو زیادہ تر لوگ تو علاقہ بھی نہیں سمجھتے، اسلام آباد کا پکا رہائشی کوئی مشکل سے ہی بن پاتا ہے۔ اگر کوئی کوشش کرے تو کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کرے، یہاں پر ہر کھانے پینے کی چیز دوسرے شہروں سے آتی ہے خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں بھی دوسرے شہر کے ہی ہوتے ہیں۔

بس یہاں کا نالہ لئی ایک مقامی باشندہ ہے جو ہر سال جولائی میں اپنا مقامی ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور ہر طرف تباہی مچا دیتا ہے۔ فرزند راولپنڈی بھی امپورٹڈ ہے اور ہر الیکشن پر نالہ لئی کے کنارے سڑک بنانے کے جھوٹے خواب اور صفائی کے وعدے کرتا ہے اور پھر نیا الیکشن آ جاتا ہے پھر نئی پارٹی پر وعدے وہی پرانے، ہر چیئرمین کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی جب آتا ہے آتے ہی فٹ پاتھ، اور چوک بنوانا شروع کر دیتا ہے۔ شاید اسلام آباد کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

اسلام آباد کے تھانوں میں ایف آئی آر اتنی مشکل سے ہی ہوتی ہے جتنی دور دراز کے کسی گاؤں میں، سفارش رشوت ہر محکمے میں ضروری ہے۔ وہ چاہے ون ونڈو محکمہ ہو یا ونڈوز سے چلتا ہو، ڈاکو، چور، رشوت خور یہاں عام ہیں۔ کہوٹہ روڈ کو آج تک کوئی ادارہ ڈاکوؤں سے پاک نہیں کر سکا، پانی یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور روز نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو اجازت دی جا رہی ہے۔ ائرپورٹ والا علاقہ ریتلا ہے اور زیر زمین پانی بہت کم ہے سینکڑوں ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں ان کو پانی کہاں سے میسر ہو گا۔

کون سوچے گا کون اس پر کام کرے گا۔ کوئی تو ادارہ ہو، جو اس پر کام کرے، کیا کسی ہاؤسنگ سوسائٹی سے پوچھا جاتا ہے کہ پانی کا انتظام کیا ہو گا کیونکہ مقامی ڈیم تو ائرپورٹ کے لئے مختص ہیں۔ قانون ایک ہونا چاہیے یہ کون لوگ ہیں جن کی گاڑیوں کے شیشے کالے ہیں اور عوام کو اجازت نہیں ہے۔ اتنے خاص لوگ کہاں سے لائے جاتے ہیں۔ کون بتائے گا۔ اس شہر کو اگر تجرباتی طور پر محفوظ بنایا جائے تو بہت سے پیسے کی بچت کی جا سکتی ہے۔

یہ جو گاڑیوں کے پیچھے حفاظتی گاڑیاں یہ تو کم از کم کم ہوجائیں گی اور شاید اس شہر کو محفوظ بنانے پر اتنا خرچ نہیں ہو گا جتنا ہم چند فضول لوگوں کو محفوظ بنانے پر لگا دیتے ہیں۔ نئے وزیراعظم جن کا تعلق میانوالی سے ہے پڑھے لاہور میں ہیں جوانی مغرب میں گزاری اور پھر بڑھاپے میں اسلام آباد میں گھر بنا لیا، وہ دنیا کے واحد شخص ہیں جن کو سب پتہ ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے۔ حالانکہ ان کا اپنا گھر سرکار مدینہ ﷺ کے گھر سے کئی ہزار گنا بڑا ہے۔ ان سے درخواست ہے اگر وہ اسلام آباد کو ہی اسلام آباد بنا دیں تو کافی ہو گا جس میں اسلام بھی ہو اور وہ آباد بھی ہو، یہی بہت بڑی کاوش ہوگی، جزاک اللہ خیر، بے شک بناتے وقت تصویر ضرور بنوا لیں۔ شکریہ۔

 

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments