اسلاموفوبیا کے جن کو قابو کیجئے


مغرب میں حالیہ کچھ دورانیے سے اسلاموفوبیا کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے، مختلف ممالک میں مذہب اور بالخصوص اسلام کے خلاف نفرت و تعصب پر مبنی مہم بڑے زور و شور سے جاری ہے۔

فرانس ہو یا امریکا، برطانیہ ہو یا کینیڈا ہر طرف اسلاموفوبیا اپنی زہریلی جڑیں گاڑ چکا ہے۔

فرانس اور امریکا میں اسلاموفوبیا کے تناظر میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد ، کچھ ایام قبل پاکستانی نژاد ایک مسلم خاندان کے ساتھ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک المناک حادثہ پیش آیا، اس واقعے کی روداد قلم کی نوک سے سپرد اوراق کرتے ہوئے میرے قلب و چشم آبدیدہ ہو گئے اور آنسوؤں کا سیل رواں قرطاس کے اوراق پر ٹپکنے لگا، جو کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، بڑے ضبط و تحمل کے بعد اپنی نوک قلم سے کچھ سطور ہی قرطاس میں درج کر پایا۔

کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک 20 سالہ مقامی شخص نے نفرت اور تعصب کا رویہ اپناتے ہوئے اپنی گاڑی نکالی اور محض اسلام سے تعلق کی بنیاد پر ایک ہی مسلم خاندان کے بے قصور افراد پر بغیر کسی تردد کے چڑھا دی اور کہا کہ انہیں جینے کا حق حاصل نہیں تھا۔

اسے حادثہ کہا جائے یا دہشتگردانہ حملہ بہر حال ایک حقیقت تو واضح ہے کہ اس حملے نے مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے رجحانات سے پردے اٹھا دیے ہیں، جس کے باعث وہاں کی مسلم کمیونٹی عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ جینے پر مجبور ہے۔

اگر بات کی جائے متاثرہ خاندان کی تو یہ ایک پڑھا لکھا، تواضع کی اعلی مثال رکھنے والا اور کافی عرصے سے کینیڈا کے متعلقہ صوبے میں مقیم تھا، وہ خاندان کہ پڑوس میں رہنے والی بھی ان سے سکون اور راحت حاصل کرتے تھے، جن کے حق میں ان کے لبوں سے کچھ ایسے کلمات سننے کو ملے :

”بہت خوش اخلاق اور ہر دم مدد پر تیار رہنے والے، کوئی کچھ کہہ دیتا تو بھی یہ ناراض نہیں ہوتے تھے، ہر دم ہنستے مسکراتے، پر امن یہ لوگ سب پھر بھی نفرت کا شکار ہو گئے جس کا انہیں یقین نہیں آتا۔“

اس دہشتگردانہ حملے کے بعد جان سے بازی ہارنے والوں میں 46 سالہ سلمان افضل، ان کی 44 برس کی زوجہ مدیحہ، 15 سالہ بیٹی یمنیٰ اور 74 برس کی دادی تھیں۔

متاثرہ خاندان کی تعلیمی قابلیت:

متاثرہ افراد کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا، سلمان فزیو تھراپسٹ، زوجہ ویسٹرن یونیورسٹی لندن سے سول انجنئیرنگ پی ایچ ڈی کی طالبہ، جبکہ بیٹی یمنی نویں جماعت کی تعلیم مکمل کر چکی تھی۔

چھوٹی یمنی نے اپنے ملک و ملت (پاکستان) اور مستقبل کے لیے بہت بڑے بڑے خواب دیکھ رکھے تھے، وہ کینیڈا میں سبز ہلالی پرچم کے وقار کو اعلی و ارفع کرنے کا عزم مصمم رکھتی تھی، آنے والے تعلیمی سال میں اسے اپنے ادارے کی نمائندگی کرنی تھی، لیکن معاشرے میں پنپتے نفرت و تعصب پر مبنی رویوں اور اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ان کے خوابوں کو ملیا میٹ کر دیا اور یوں یہ چھوٹی معصوم سی پری اپنے خوابوں کے ہمراہ اللہ تعالی کے حضور پیش ہو گئی اور ایک چھوٹے شہزادے سے زندگی کے ہوتے ہوئے سکون، راحت اور اس کے خواب سلب کر لیے گئے۔

اس المناک اور دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے حادثے نے کینیڈا سمیت مغربی ممالک میں مقیم مسلم کمیونٹی کے اندر ایک طرح کی تشویش پیدا کردی ہے اور بہت سی یمناؤں کے خوابوں کی تکمیل میں رکاوٹیں حائل کردی ہیں، جس کے حل کے لیے مغربی ممالک کے امتحان کی اب ابتدا ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments