طارق فتح اور دیسی لبرل ….
یکم فروری کو طارق فتح نے پاکستانی پرچم نذر آتش کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ یہ سب کچھ انہوں نے بلوچستان کی آزادی اور ڈاکٹر منان کی ہلاکت کے ردعمل میں کیا۔ اس سے پہلے موصوف اپنی تقاریر میں قیام پاکستان یعنی تقسیم ہندوستان کی مخالفت کر چکے ہیں یوں خود کو ایک کینڈین اور بھارتی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک عجیب ذہنی تضاد ہے کہ ایک طرف آپ جغرافیائی وحدت کے علمبردار ہو کر تقسیم کے مخالف ہو جب کہ دوسری طرف آپ جغرافیائی وحدت کی مخالفت میں بلوچ قومیت کا تصور سامنے لا کر علیحدہ ملک کے مطالبہ (یعنی تقسیم) کی حمایت کرتے ہو۔
کسی بھی ملک کا پرچم محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ اس قومی ریاست کی عوام ،اس کا کلچر ، اس کی تاریخ ، روایات ، انسان دوست اقدار ، اور اداروں کا ترجمان ہوتا ہے۔ بلوچستان ایک پاکستانی صوبہ ہے جہاں بلوچ اور پختون شناخت کے لوگ بستے ہیں۔ پاکستان کے ہر ترقی پسند، روشن خیال، لبرل اور سوشلسٹ نے تسلیم کیا ہے کہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ بنیادی حقوق کی مد میں ریاستی سطح پر بہت زیادتی ہوئی ہے۔ اس بات کو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بلوچوں کے دکھوں کا مداوا ضروری ہے۔
پاکستانی ریاست کا قانون صوبائی حقوق کے باب میں مساوات پر مبنی ہے۔ اس قانون میں پنجابی کو سندھی پر اور سندھی کو بلوچ پر برتری نہیں۔ پورے ملک کے وسائل پر پورے ملک کا حق ہے۔ مگر حقوق کی اس تقسیم میں اس صوبہ کا حق پہلے تسلیم کیا گیا ہے جہاں سے قدرتی وسائل ریاستی انتظام کے تحت حاصل کئے جا رہے ہوں۔ پاکستان کے ہر جمہوریت پسند شہری نے بلوچوں کے وسائل پر بلوچوں کا حق تسلیم کیا ہے۔
بلوچستان مسئلہ کی وجہ پاکستانی عوام ، قانون ، اور جمہوری اقدار نہیں ہیں بلکہ ہیئت مقتدرہ کی مہم جو نفسیات اور عزائم ہیں۔ یہ ایک مخصوص ادارہ ہے جس نے پوری ریاستی پالیسی کو قبضہ میں کر رکھا ہے۔ اس ادارہ کا تسلط محض بلوچستان پر نہیں کم و بیش پورے ملک پر ہے۔ انسانی آزادیوں ، مسرت ، خوشحالی ، اور تخلیقی اقدار کے جملہ امکانات اس کی وجہ سے ہی محدود و اور مقید ہیں۔ اس ادارے سے لڑائی بندوق سے نہیں بلکہ گاندھی اور باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد (جس کے بقول طارق فتح وہ پیروکار ہیں ) اور محمد علی جناح کی جمہوریت پسند حکمت عملی سے ہی جیتی جا سکتی ہے۔
طارق فتح نے پاکستانی پرچم کو نذر آتش کر کے پاکستانی شہریوں ، اس کے آئین ، تاریخ ، ثقافت اور یہاں کے جمہوریت پسندوں کی توہین کی ہے۔ دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ تمام دیسی لبرلز نے (جنہیں میں جانتا ہوں یا سوشل میڈیا کے مخصوص گروپس کا مشاہدہ کیا ہے ) طارق فتح کی اس عمل پر شدید مذمت کی ہے۔ یہ مذمت از حد ضروری تھی۔ شدت پسند کسی بھی فکر میں پائے جا سکتے ہیں مگر اس فکر کا اصل امتحان تب ہوتا ہے جب وہ فکر اور اس کے ماننے والے اس شدت پسندی کے خلاف ردعمل دیتے ہیں۔ پاکستانی دیسی لبرلز اس امتحان میں سرخرو ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس مذموم فعل کے جواز نہیں پیش کئے۔ اگر مگر چونکہ چنانچہ کا ابہام کہیں بھی نہیں نظر آیا۔ سب نے اسے پاکستانی قومیت کی توہین قرار دیا ہے۔ یہ اس فکر و عمل کا کھلم کھلا اظہار ہے کہ پاکستانی لبرلز اپنے جملہ مسائل کے حل میں جمہوریت ، آئین ، انسان دوستی ، عدم تشدد ، اور روشن خیالی کو رہنما مانتے ہیں۔
دیسی لبرلز مجھے آپ پر فخر ہے۔
- حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات - 19/05/2021
- مولانا طارق جمیل سے اختلاف کس بات کا ہے؟ - 03/05/2021
- کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟ - 28/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).