ملکہ پکھراج کی آپ بیتی: بے زبانی زبان ہو جائے


یہ ملکہ پکھراج کی آپ بیتی ہے۔
ملکہ پکھراج، آواز کی ملکہ جس نے کئی زمانوں کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔
ویسے بھی آپ بیتیاں کھڑکیاں ہوتی ہیں جس سے آپ کسی اور کی زندگی ہی میں نہیں تاریخ کے ایک دریچے سے بیتا ہوا زمانہ دیکھتے ہیں
مگر اس کے ساتھ آپ اپنے اندر بھی ایک دنیا طے کر رہے ہوتے ہیں اپنے اندر کے تاریک اور روشن گوشوں کو دریافت کر رہے ہوتے ہیں
کون جانتا تھا تھا کہ ”بابا روٹی رام“ ریاست جموں کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے مجذوب، جو کہ سرد گرم موسم بھی تن پہ کچھ نہ اوڑھتا نہ پہنتا، یہاں تک کہ ریاست کے راجہ پرتاب سنگھ کے مخملی پشمینے کے نذرانے بھی مہاراجہ کی طرف سے پانچ آدمی اس کو پہنانے میں ناکام رہتے۔ گر ایک دن کے لیے وہ زبردستی پہنا بھی دیتے تو دوسرے دن کیا گرمی کا دن کیا برف پڑتی سردی۔ بابا روٹی رام وہی ننگ دھڑنگ۔

کون جانتا تھا کہ اس روٹی رام جس کی پیدائش کے لیے دیومالائی قصہ یہ مشہور تھا کہ وہ گھاس پھوس اور گوبر کے ڈھیر سے نکلا ہے اس مجذوب کی دعا سے جو اس نے گوبند (ملکہ پکھراج کے نانا) کو دی, ملکہ پکھراج پیدا ہو گی.

اور وہ جس کا آدھا نام بابا روٹی رام کا دیا ”ملکہ معظمہ“ اور آدھا خالہ نے پکھراج رکھا ہو وہ آگے چل کر ملکہ پکھراج کے نام سے نہ صرف پہچانی جائے گی مگر جوانی میں سر و ساز کے ذریعے دلوں پہ راج کرتی ہوئی اٹھارہ سال اپنی بیتی زندگی کو پنوں پہ اتارتی ہوئی ہو دلوں میں رہ جائے گی کہ وہ نہیں ہوگی مگر اس کی کہانی سدا حیات رہے گی۔

ملکہ پکھراج کی پوتی فرازے سید کے مطابق اس نے کوئی کوئی اٹھارہ سال میں اپنی زندگی کے بکھرے تمام حصوں کو جوڑ کر ایک داستان کی شکل دینے میں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہوئے لگائے۔ اور اس کے بھی کوئی سات آٹھ مسودے لکھ ڈالے۔ ہر ایک مسودہ اٹھ دس کاپیوں پہ مشتمل جب اختتام کو پہنچا تو وہ شدت جذبات سے مغلوب ہوئی۔ وہ چاہتی تھی کہ ان کی کہانی ان کی زندگی میں دنیا والوں کے سامنے آئے۔ اب جب اس کی یہ اتم کتھا کوئی پڑھے گا تو وہ جان لے گا کہ ملکہ پکھراج کیوں چاہتی تھیں کہ دنیا اس کی داستان پڑھے۔

وہ ریاست جموں کے چھوٹ سے شہر میں میں پیدا ہوئی جہاں جون میں بھی ایسا جاڑا ہوتا کہ دانت رضائی کے اندر بھی کپکپاتے رہتے۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ وہ صرف اپنے فن میں یکتا نہ تھیں مگر اس نے غیر معمولی زندگی گزاری۔ معمولی سے گاؤں سے نکل کر غیر معمولی زندگی کو پڑھ کر اسے یقین تھا کہ جو اس کے آواز کے دیوانے ہیں وہ اس کی زندگی سے بھی ضرور مرعوب ہوں گے۔ وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی کے حصے کا سچ لوگوں کو بتانا چاہتی تھیں

مگر عجب ہوا کہ اس کی زندگی میں اس کی کہانی اردو کے بجائے انگریزی ترجمے میں پہلے چھپ گئی۔

وہ برصغیر کی موسیقی میں دلچسپی لینے والے تاریخ دانوں کا مرکز تو بننی تھی مگر سچی بات تو یہ ہے کہ مجھ جیسے عام لوگ بھی اس کی اپنے الفاظ میں لکھی ہوئی ایک نڈر اور انا پرست عورت سے یوں مرعوب ہوں گے کہ اس کی اتم کتھا کو اردو میں پڑھ کر میں تو اس کے عشق میں مبتلا ہو گئی۔

سائیں حسین بخش کی سندھی بھیرویں ”سائیں اللہ جانے مولا جانے“ کے ساتھ میں کئی دن تک اپنے بلیو ٹوتھ اسپیکر پہ ملکہ کی بھیرویں اور ٹھمری کے علاوہ علامہ اقبال کی ”تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں“ گھنٹوں تک سنتی رہی۔ یہ بلاشبہ ایک غیر معمولی خاتون کی غیر معمولی زندگی تھی۔

کچھ سال پہلے دوست اس آٹو بائیو گرافی کا انگریزی والا ایڈیشن کراچی کے لٹریچر فیسٹیول سے لے آئی تھی۔ جس کو سرسری طور پہ دیکھا ضرور مگر پوری داستان پڑھنے کا کبھی وقت نہیں ملا یا کبھی دھیان میں نہیں رہا۔

انگریزی ترجمہ رضا کاظم کی کوششوں اور ذاتی دلچسپی لینے سے سلیم قدوائی نے کیا جو 2003 میں بھارت سے شایع ہوا۔

یہ نوٹ کرنے کی بات ہے کہ انگریزی کی یہ کتاب اصل مسودے کے ساتھ ترجمہ نگار سلیم قدوائی کی مصنفہ سے ذاتی گفتگو کے بعد ایڈیٹنگ سے گزری اور ان کی ہی زندگی میں شایع ہوئی۔ جس کو بعد ازاں ہندستان کی فیمینسٹ پبلشر اروشی بٹالیہ نے بھی چھاپا۔

اس کے بعد یہ تھا ہمارے اجمل کمال کا کمال کہ اس نے فرازے شاہ سے مسودہ لے کر اردو قارئین کے شایع کیا۔ چونکہ ملکہ پکھراج نے یہ اردو میں لکھا تو میں سمجھتی ہوں اس یہ ملکہ کے جذبات سے نہ صرف زیادہ قریب ہوگا مگر اس میں اظہار کی وہ روانی بھی ہو جو شاید انگریزی ایڈیشن میں نہ ہو۔ کل ڈان میں تبصرہ چھپا تو میں نے کوشش کی کہ مجھے انگریزی والا ایڈیشن مل جائے تاکہ میں دونوں کا موازنہ کر سکوں مگر میرے پاس لائبریری کی سی ترتیب کہاں تو نہیں میرے پاس اور نہ ہی کتابوں کی کوئی خاص ترتیب۔ بس خریدا پڑھا اور بھلا دیا۔ اس لیے مجھے وہ انگریزی والا ایڈیشن مل نہ سکا۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ میں نے اردو والا ایڈیشن صرف ایک نشست میں پڑھا مگر۔ کئی دن اس کے خمار میں رہی اس خاتون کے خمار میں جو اپنے حصے کا سچ بیان کرنے میں نہ صرف حوصلہ مند ہے مگر وہ غیر معمولی شہرت رکھنے کے علاوہ غیر معمولی زندگی گزارنے والی بہادر عورت ہے۔

بہرحال ملکہ پکھراج نے اپنی داستان میں شاید ہی کسی کردار کے ساتھ رعایت بخشی ہو حتی کہ خود کو بھی معاف نہیں کیا۔

زندگی کی کئی انتہائیں اس نے دیکھیں۔ غربت، شہرت پھر مہاراجہ ہری سنگھ کے دربار میں اعلی مقام کی مغنیہ کے عہدے کی نوکری۔ کشمیر کے نشیب و فراز، محلاتی سازشیں اور ان کا خودسر طبیعت کے ساتھ مقابلہ۔ دربار کو چھوڑنا۔ پاکستان میں لاہور آنے کا فیصلہ اور زندگی میں سید شبیر حسین سے رشتہ ازدواج میں آنا۔ عشق کا اظہار تو ہو سکتا ہے ملکہ سے کئی مردوں نے کیا ہو اور کئی ایک شادی کے خواہشمند بھی تھے مگر ان سب میں سے بازی لے جانے والا سید شبیر حسین تھا۔ کسی زمانے میں پی ٹی وی پہ چلنے والی ڈرامہ سیریز جھوک سیال کا رائٹر سید شبیر حسن ملکہ پکھراج کا کمال کا عاشق تھا۔ اتم کتھا کا آخری حصہ تو اسی پہ فوکسڈ ہے مگر دنیائے موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے ضرور اس کی فنی زندگی کی تربیت والے ابواب کو زیادہ دلچسپ مانیں گے۔

برصغیر کے مایہ ناز گائیک استاد بڑے غلام علی کے والد سے راگ کی تعلیم حاصل کی۔ ملکہ نے ان کو سندھی بھیرویں کا ماسٹر قرار دیا ہے

”سائیں اللہ جانے مولا جانے“ والی سندھی بھیرویں کا ذکر خاص ہے۔

اس اتم کتھا کی کو بات دل کو چھوتی ہے وہ ہے ملکہ پکھراج کا وہ نفیس دل جو بظاہر دوسرے لوگوں کے لیے عام مگر معمولی کرداروں کو اس کا طرح ذکر خاص کے ساتھ اپنی زندگی کی داستان میں شامل ذکر کیا وہ عام نہیں مثلاً استاد بڑے غلام علی کے والد علی بخش (کہ ان کے استاد تھے ) کے ایک رشتہ دار اللہ بخش کا ذکر کیا کہ وہ گانے میں علی بخش سے کہیں بہتر تھا مگر جموں چھوڑ نہ سکا اور پاگل ہو گیا۔

اس کے پاگل ہونے کی پیچھے جو کہانی ہے وہ کسی گویے کی نہیں جو دربار میں گانے گیا تھا۔ مگر ہندستانی روایت کے اندر موجود گرو اور چیلے کے مابین اس روحانی رشتے کے احترام کی ہے کہ گرو نے کہا ”پاگل چپ ہو جاؤ“ تو چیلا نہ صرف چپ ہوا مگر پاگل بھی ہو گیا۔

میں نے مختلف آوازوں میں یہ کافی ڈھونڈنے کی کوشش کی جو لا الہ بخش نے بیٹھے بیٹھے گائی کہ وہ کبھی کبھی اپنی مرضی سے گاتا تو ملکہ سنتیں۔

” واہ وے سجن تینڈی بے پرواہی تیں کو ساڈی یاد نہ آئی“
ملکہ نے کیا خوب لکھا کہ۔ ”اچھا گانا سننا بھی تعلیم ہوتی ہے“
پھر لکھا کہ گانے کا بادشاہ تھا۔ خدا نے گانا تو دیا مگر ہوش و حواس چھین لیے۔
استاد گلزار حسین، استاد ممن خان کے علاوہ ان استادوں کا بھی ذکر جن سے کچھ بھی سیکھا ہو۔

کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کا پروفائل: ملکہ کی کہانی اس پروفائل سے بالکل مختلف ہے جو ہماری درسی کتابوں میں دیا گیا ہے۔ بلکہ عین اس کے برعکس ملکہ نے ان کو بہت سراہا ہے۔ وہ چھوت چھات یا پوجا پاٹھ کے قائل نہ تھے اور دربار میں ہندو و مسلم دونوں ہی ملازم رکھے جاتے۔ شاہی ہیڈ باورچی، شاہی بیرا اور اردلی مسلمان تھے۔ مطالعہ پاکستان کے ولن مہاراجہ کے لیے ملکہ لکھتی ہیں کہ مہاراجہ کہتے کہ ”مذہب اتنا کچا نہیں کہ ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جائے“ ۔

محل کے شاہی باورچی خانے میں حلال کھانا پکتا تاکہ سب کھا سکیں۔ جبکہ راجپوت حلال گوشت نہ کھاتے مگر سرکار ان کی پرواہ نہ کرتے۔ رسم تاجپوشی والا باب خاصا دلچسپ ہے کہ مہاراجہ جو کہ ولایت سے پڑھ کر آیا اس کی تاجپوشی کس روایتی شان و شوکت کی تاریخی مثال تھی۔

البتہ ہندو مسلم فساد میں بھی ملکہ کے حصے کے سچ کا بیان یہ تھا کہ یہ شرارت مسلمانوں کے اخبار کی لگائی ہوئی پھلجھڑیوں اور آگ سے کھیلنے کی عادت کی وجہ سے ہوئی جس نے سرکار کو بالآخر مسلمانوں سے متنفر کر دیا۔

یہی مسلمانوں کا ریاست اخبار تھا جس نے ملکہ پکھراج کے لیے پروپیگنڈا شروع کیا کہ وہ راجہ ہری سنگھ کو دینے کے لیے محل میں زہر لے کر گئی۔ اور وہ پروپگنڈہ اتنا چلا کہ خود جموں کے لوگ اس سے پوچھنے لگے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ سرکار تو اخبار کی اس خبر پہ اخبار کے لیے کہتے کہ ”پہلے بھونکتا تھا اب پاگل ہو گیا ہے“ ۔

دیومالائی قصوں کہانیوں کی طرح نشیب و فراز سے بھری ملکہ پکھراج کی زندگی کا تیسرا دور اس کی لاہور میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے جو بھی ہچکولے کھاتی بیل گاڑی کی طرح کبھی سست و کبھی تیز رہا۔

پیسا جتنا کمایا اتنا لٹایا بھی۔ کئی کاروبار شروع کیے اور لگ بھگ سب میں مال ڈبویا۔ کاروباری زندگی کے دھوکوں اور محل سے فٹ ہاتھ پہ آنے کے بعد بھی شاہانہ مزاج والی خودسری ملکہ کی خوبی رہی۔

ٹوٹنے، بکھرنے کا احساس ان کو اپنے سدا بہار عاشق اور ہمسفر سید شبیر حسین کے جانے کے بعد ہوا۔ جن کو پہلے تو اس نے بڑی بردباری سے یوں خدا حافظ کہا کہ آنکھ گیلی تک نہ ہوئی۔ مگر یہ بردباری عارضی ثابت ہوئی اور پھر اس غم کو یوں کلیجے سے لگایا کہ تر آنکھ کبھی خشک نہ ہوئی۔ دن رات روتے روتے بینائی کھو دی۔ مگر شبیر حسین کا گیلی آنکھ والا گریہ ختم نہ کیا۔ عزت، شہرت اور دولت میں کوئی بھی نشہ اس کی خودداری کو ٹھیس نہیں پہنچا سکا۔

سو یوں ریاست جموں کے چھوٹے گاؤں ہمیر پور ادھر میں ایک مجذوب روٹی رام کی دوا سے جنم لینے والی ملکہ پکھراج اپنی آواز، سر سنگیت کے ساتھ اپنے چھوٹے گاؤں میں محرم کے جلوس میں مرثیے گاتی، ریاست جموں کے بادشاہ محل سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی اور کئی چھوٹے شہروں میں رہتی ملکہ پکھراج دلوں پہ حکمرانی کرتی رہی۔ خود داری سے جیتی رہی۔ اس نے جاتے وقت صرف اپنے فن کا خزانہ ہی نہیں چھوڑا مگر اپنی زندگی کے بہتے لمحے لمحے سے تجربے کا نچوڑ بھی اپنی آپ بیتی، اپنے ہی لکھے ہوئے لفظوں میں دنیا کے حوالے کیا۔

مبارکباد کے مستحق ہیں اجمل کمال کہ سٹی پریس سے اسی مسودے کو جسے ملکہ پکھراج نے اٹھارہ سال نور نچوڑ کر لکھا اسے ملکہ کی ہی نہیں تاریخ کی ایک امانت سمجھتے ہوئے شایع کیا اور ہمارے ہاتھوں تک پہنچایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments