مچھلی بازار!


آج سندھ کا نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تقریر شروع کی تو اپوزیشن نے ہلڑ بازی شروع کردی۔ پی ٹی آئی ارکان مراد علی شاہ کو بولنے سے روکنے کے لئے ان تک پہنچے تو پیپلز پارٹی والوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو حصار میں لے لیا۔ اپوزیشن نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ خوب نعرے بازی کی یہاں تک کہ اسمبلی ہال میں سیٹیاں تک بج گئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنا مائیک بھی بدلا اور تقریر جاری رکھی۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی ایسا ہی نظارہ دیکھنے کو ملا، جب قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تقریر شروع کی تو حکومتی بینچوں سے آوازیں لگنا شروع ہو گئیں، ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ حکومتی بینچوں کی جانب سے ہلڑ بازی کی گئی اور اپوزیشن لیڈر کو بولنے سے روکا گیا۔

یہ تو کچھ بھی نہیں اس سے پہلے جب قومی بجٹ پیش ہوا تھا تو وزیرخزانہ کو بولنے نہیں دیا گیا۔ اپوزیشن نے وہ ہنگامہ آرائی کی تھی کہ الامان الحفیظ۔ حکومتی ارکان بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ آوازیں کس رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے۔ ٹی وی پر تو اتنا زیادہ نہیں دکھایا گیا لیکن سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز گردش کرتی رہیں کہ دیکھ کر افسوس ہو رہا تھا، اور ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ یہ ہیں ہمارے لیڈرز؟

اسپیکر قومی اسمبلی کہتے ہیں کہ میرے بس کی بات نہیں مجھ سے حکومتی ارکان کنٹرول نہیں ہوتے۔ میری کوئی بات نہیں سنتا۔ یہی حال سندھ اسمبلی کے اسپیکر کا ہے۔ سوال یہ ہے جب لیڈر آف دا ہاؤس ہی کچھ نہ کر پائے تو کون ان ارکان کو سمجھائے؟

یہ شکایت تو وزیراعظم صاحب بھی کرتے ہیں کہ میں تقریر کرتا ہوں تو مجھے کوئی بولنے نہیں دیتا۔ اسی لیے شاید وہ اسمبلی کم کم آتے ہیں اور آتے ہیں تو اپنی بات کر کے فوراً چلے جاتے ہیں۔

چھوٹی کلاس کے بچوں کی طرح شور مچانا۔ ہلڑ بازی کرنا۔ بدتمیزی کرنا۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا۔ یہ ہمارے لیڈرز کا وتیرہ بن کے رہ گیا ہے۔ چاہے کوئی پریس کانفرنس ہو یا پھر ایوان میں خطاب۔ بس ایک دوسرے کو ننگا کرنے کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ سب ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولنے میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ کی تقریر یا آپ کی نازیبا زبان دنیا بھر میں دیکھی جا رہی ہے، وائرل ہو رہی ہے، ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو رہی ہے۔

کیا ان لیڈرز میں سے کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ چند سال بعد جب یہ ویڈیوز یا جملے کبھی اس کی نظر سے گزریں تو کیا آپ خود سے نظر ملا پائیں گے؟ چلیے اپنی بات تو نہ کیجیے، آپ کی اولادیں یا ان کی اولادیں ایسے مناظر دیکھ کر کیا سبق لیں گی؟

قومی اسمبلی کا ڈائس ہو یا پھر صوبائی اسمبلی ہال۔ اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو ہو یا پھر عدالت کے باہر گفتگو۔ ہر لیڈر یہی کہتا ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی۔ حکومت نے یہ کیا۔ اپوزیشن نے وہ کیا۔ لیکن جناب آپ نے کیا کیا؟ جہاں عوامی معاملات پر بات ہونی چاہیے۔ جہاں ملکی معاملات ڈسکس ہونا چاہئیں۔ وہاں آپ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے نظر آتے ہیں۔ یہ سیاسی رہنما جو سہولیات دینے کے جھوٹے وعدے کر کے عوام سے ووٹ لیتے ہیں لیکن اسی ووٹ کا تقدس پامال کر دیتے ہیں۔ اور بے چارے بے وقوف عوام بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اس سب میں ہم کہاں ہیں؟ ہمارے لئے کون بولے گا؟ ہمارے معاملات کون ٹھیک کرے گا؟

ایوان میں بجتی سیٹیاں۔ بینچوں پر کھڑے اراکین۔
شور مچاتی خواتین۔ مغلظات بکتے ارکان۔
یہ نیا نہیں اب بھی ہے پرانا پاکستان
یہ ہے ہمارا پیارا پاکستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments