فواد چوہدری پاکستان کو کورونا سے بچا سکتے ہیں

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں گھر میں گھس کر کچھ نامعلوم افراد نے ایک صحافی پر تشدد کیا۔ جب اس واقعے پر خبر بنانے کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک صحافی نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ردِعمل حاصل کرنا چاہا تو انھوں نے فرمایا کہ پہلے پاکستانی حکومت کی کورونا کے خلاف کامیابی پر ایک پروگرام کرو، پھر صحافیوں کے رونے دھونے پر بھی ردِ عمل دوں گا۔

نہ اسلام آباد کبھی رہا ہوں نہ ہی وہاں پر میرے کوئی ذرائع ہیں، لیکن ہزار میل دور سے بیٹھا بھی بتا سکتا ہوں کہ صحافیوں پر تشدد کروانے میں فواد چوہدری کا کم از کم کوئی ہاتھ نہیں ہو سکتا۔ جب انھیں کسی صحافی کو سبق سکھانا ہوتا ہے تو وہ بھری محفل میں اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں، رات کی تاریکی میں نامعلوم افراد نہیں بھیجتے۔

کچھ صحافی، جنھیں چوہدری صاحب صحافی نہیں مانتے، یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ چوہدری صاحب نے انھیں نوکری سے نکلوایا ہے، شاید نکلوایا ہو لیکن میرے صحافی بھائیوں کو اپنے چہیتے سیٹھوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اتنی آسانی سے چوہدری صاحب کی بات کیوں مان لیتے ہیں۔

معلوم نہیں کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے فواد چوہدری کی فرمائش پر پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابی پر کوئی پروگرام کیا کہ نہیں لیکن ایک صحافی کے طور پر میرا فرض بنتا ہے کہ اس کامیابی کی بابت کچھ عرض کرتا چلوں۔

ملک میں سیاسی تقسیم اتنی شدید اور گالم گلوچ سے بھری ہے کہ ہم زمینی حقائق بھی نہیں مانتے۔ کورونا کی وبا نے ایک پرانا مغالطہ دور کر دیا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں نظام ہی کوئی نہیں۔

حکومت نے لاک ڈاؤن کروائے اور زیادہ تر عوام کے شکوے شکایتوں کے باوجود کامیاب کروائے۔ کبھی سمارٹ اور کبھی بدھو لاک ڈاؤن، لیکن ان سے وبا کے پھیلاؤ میں کافی کمی آئی۔

حکومت نے طالب علموں کی بد دعائیں لیں، تاجروں کی دھمکیاں سنیں، کچھ جیب خرچ غریبوں کی جیب میں ڈالا، کچھ سیٹھوں کی تجوریاں بھریں لیکن بیماری اور معاشی بدحالی کو اس نہج پر نہیں جانے دیا جو ہمسایہ ملک میں نظر آئی۔

فواد چوہدری مانیں یا نہ مانیں ہمارے صحافی یا غیر صحافی بہنوں اور بھائیوں نے بھی وبا کی رپورٹنگ زیادہ تر ذمہ دارانہ انداز میں کی، جھوٹی اور سنسنی خیز خبریں کم سے کم پھیلائیں لیکن حکومت کی اصل کامیابی اس وقت نظر آئی جب پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا۔

یہ عمل تھوڑا تاخیر سے شروع ہوا اور شروع میں تھوڑا کنفیوژن رہا، لیکن اب جس بڑے پیمانے پر اور جس نظم و ضبط سے لوگوں کو وبا کے ٹیکے لگ رہے ہیں میں نے اپنی زندگی میں اس طریقے سے پاکستان میں کوئی کام ہوتے نہیں دیکھا۔

اپنی تاریخ کی وجہ سے ہم حکومت اور اس کے کارندوں پر اعتبار کم ہی کرتے ہیں، چاہے حکومت کو ہم نے خود منتخب کیا ہو۔ ہم نے تو گاڑی کو پنکچر بھی لگوانا ہو تو کوئی واقف ڈھونڈتے ہیں، کسی سرکاری محکمے میں کام پڑ جائے تو سب سے پہلے سفارش ڈھونڈ لیتے ہیں، ہسپتال جانا ہو تو کسی انکل کے دوست ڈاکٹر سے فون کرواؤ، عدالت میں کلرک کے کزن کا دوست ڈھونڈو، تھانے میں تو کوئی واقف مل بھی جائے تو بھی نہ جاؤ۔

میں تقریباً سو سے زیادہ لوگوں سے پوچھ چکا ہوں کہ ویکسین کہاں سے اور کیسے لگوائی۔ کسی کو سفارش کی ضرورت نہیں پڑی، کسی کا چاچا ماما کام نہیں آیا۔ ان لوگوں میں گھریلو ملازم، سینیئر فنکار اور سیٹھ بھی شامل ہیں اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صبح اٹھتے ہی یہ ’حکومت نالائق ہے، اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں ہے‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں، لیکن کسی ایک کے منھ سے بھی ویکسین لگوانے کے عمل کے بارے میں شکایت نہیں سُنی۔

میں نے خود بھی کراچی میں ویکسین کی پہلی خوراک لگوائی اور دوسری پنجاب میں اپنے آبائی شہر میں۔ صرف اتنا پوچھا گیا کہ آپ نے پہلی سندھ میں لگوائی تھی؟ میں نے کہا جی ہاں اور انھوں نے بغیر دوسرا سوال پوچھے مجھے دوسری خوراک لگا دی۔

زندگی میں پہلی دفعہ یہ خوشگوار احساس ہوا کہ یہ تو ہماری حکومت ہے اور اس کے کارندے کتنے مہذب لہجے میں ہم سے بات کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے ویکسین لگائی ہے تو چند لمحوں کے لیے وہ حکومت کے ساتھ ایک پیج پر آ گئے تھے۔

یہ نظام اس لیے بھی قابل تعریف ہے کہ حکومت نے ابھی تک پرائیویٹ سیکٹر میں ویکسین کی فراہمی کو مؤخر کر کے سیٹھ اور مزدوروں کو چند لمحوں کے لیے سہی مگر ایک صف میں ضرور کھڑا کر دیا۔

چوہدری صاحب جانتے ہوں گے کہ جو حکومت کا قصیدہ پڑھتا ہے وہ اس کے بعد کوئی فرمائش بھی کرتا ہے تو عرض ہے کہ پاکستان میں 30 لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ وہ آپ کے اور ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، ساتھ کام کرتے ہیں، اگر ان کو ویکسین نہیں لگے گی، جو کہ اب تک نہیں لگ رہی، تو کورونا کے بڑھنے کا خدشہ موجود رہے گا۔

چوہدری صاحب کو یہ کام اگر مشکل لگے تو وہ اپنی سائنسی سوچ پر انحصار کریں۔ ابھی ایک سال پہلے تک پوری قوم سمجھتی تھی کہ اگر مفتی منیب اپنی آنکھوں سے چاند نہیں دیکھیں گے تو عید نہیں ہوگی۔ چوہدری صاحب نے مفتی صاحب کو سائنس کی مار مار دی اور اب پوری قوم آرام سے عید مناتی ہے۔

چوہدری صاحب کے ساتھ ساتھ نادرا کے نئے چیئرمین طارق ملک اور مشیر صحت فیصل سلطان صاحب بھی سائنسی سوچ کے لوگ ہیں۔ اگر وہ اپنے رہنما عمران خان کو بھی قائل کر لیں اور وہ بغیر شناختی کارڈ والے شہریوں کے لیے ویکسین کھول لیں تو پوری دنیا میں ہماری غریب پروری اور سائنسی سوچ کے چرچے ہوں گے اور پھر برطانوی کیا ہر غیر ملکی نشریاتی ادارے کو کورونا کے خلاف ہماری کامیابی پر پروگرام کرنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).