کچھ دوسرے سوالات


میں ایک انسان ہوں بہ ظاہر یہ عام سا جملہ ہے، جو یہاں لکھا گیا ہے۔ ایک قاری اس سے کئی معنی مراد لیتا ہے مگر فلسفی کے ہاں اس کے معانی بدل جاتے ہیں، وہ اسے عقل و منطق کی خراد پر رگڑے، پرکھے گا، درست معانی سامع کو دے گا، یہی اس کا فرض ہے جو وہ پورا کرتا ہے ایسے ایک فلسفی کی کہانی سناتا ہوں، جو مجھے میرے نامعلوم بوڑھوں نے سنائی تھی۔ نامعلوم ان معنوں میں کہ میرے ارد گرد جو لوگ ہیں وہ بوڑھے نہیں ہوتے، قریب قریب جوانی میں مرحوم ہو رہے ہیں اگر آپ کو کوئی بوڑھا نظر آ جائے تو آپ کو آنکھوں والے ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج کروانے کی ضرورت ہے ممکن ہے آپ کی بینائی میں فرق آ گیا ہو، جو مناسب وقت اور احتیاط سے درست کیا جاسکتا ہے۔

بہت زمانہ نہیں گزرا اغلب ہے کہ سولہویں صدی میں جب بادشاہت کا دور تھا۔ ترکھان کے گھر میں مدتوں کے بعد ایک بچہ پیدا ہوتا ہے وقت بادشاہوں کو اقتدار کا مزہ دے رہا تھا۔ ابھی انفرادی حکومت دور دور کسی کے ذہن میں نہ تھی ہے۔ اس لیے کہ ذہن وہی سوچتا، جہاں اس کی حد ہوتی ہے حد یہ ہے کہ ذہن کو سوچنے کے تمام پیمانے انسان کے مادی فوائد سے متعلق ہیں۔

بچہ شعور کی منزل پر پہنچتا ہے۔ محسوس کرتا ہے کہ زندگی تبدیل نہیں ہو رہی، تمام دن ایک سے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے انسان مر جاتا ہے۔ انسان کو مرنے کے لئے ہی بنایا گیا ہے جس گاؤں میں وہ پیدا ہوا اور بڑھا، اتنے عرصے تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، ہوتی بھی کیسے ہر آدمی اپنی ہمت و ضرورت تک کا کام کرتا۔ یہی اس کی قسمت میں لکھا ہے اور کہتے ہیں قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔

شعوری عمر میں پہلا سوال بوڑھوں ترکھان سے بچے نے یہ کیا میں آپ کو کام کرتا دیکھتا ہوں، ہاتھ کے بال سفید ہو گئے ہیں۔ آپ نے لوگوں کے لئے کام کیا، ان کو سہولت دی۔ زندگی آپ کو کیا انعام دے گی جس سے آپ کی محنت کو آخری دن تک یاد رکھا جائے گا؟

بوڑھا، جو اس وقت خوشبودار لکڑی پر رندا لگا کر اسے ہموار کر رہا تھا کہا زندگی خود انعام ہے جو انسان کو دیا جاتا ہے میں نے اپنے باپ کو اسی طرح کام کرتے دیکھا، انہوں نے اپنا ہنر مجھے دیا، ہنر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں بدلتے رہتے ہیں، یہ ہنر میں تمہیں دوں گا تم اپنے بچوں کو، اس طرح یہ سلسلہ چلے گا یہی انعام ہے کہ زندہ رہے۔ زندہ رہنے میں ہی زندگی ہے۔

بچے نے دوسرا سوال پوچھا میں اس وقت اس زمین پر اس گاؤں میں اس صدی میں کیوں پیدا ہوا؟

بوڑھے نے غور کیا اور کہا جب جنم تقسیم ہو رہے تھے تب تمہاری باری تھی تم ہمارے حصے میں آئے پیدا ہونے کے لیے قطار بنوائی گئی ہے اور ترتیب سے کھڑا کیا گیا ہے جس کی باری ہوتی ہے اس کو تبھی پیدا کیا جاتا ہے۔ یہی نیم ہیں اس سے کسی کو اعتراض نہیں اور اعتراض وہ کرتے ہیں جو کچھ ہو۔ جو کچھ ہو نہیں ہوتے وہ تماشائی ہوتے ہیں میں تماشائی رہ چکا ہوں۔ تماشے سے مشاہدہ آتا ہے۔ مشاہدے سے انسان بالغ ہوتا ہے۔

تیسرا سوال کرنا اس وقت پورے ربط کے لئے ضروری ہے پوچھا انسان پر انسان کو حاکم کیوں بنایا گیا ہے انسان شعور رکھتا ہے اپنے اچھے برے کا۔ پھر دوسروں کے تابع ہے جس سے غربت پیدا ہوتی ہے غربت کو انسان کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے انسان، انسان کے لیے روٹی بند کر دیتا ہے دوسروں کی محنت پر عیش کرتا ہے طاقت ور وہ ہوتا ہے مگر دوسرے یوں ہی رہ جاتے ہیں اسے سے تقسیم ہوتی ہے تقسیم سے انسان آدھا رہ جاتا ہے یہاں کے نفی ہو جاتا ہے؟

بوڑھے نے کہا :خدا تخلیق کار ہے، تقسیم کار نہیں۔ وہ اپنی تخلیق میں تقسیم کیسے کر سکتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ارسطو نے کہا کہ بڑھئی نقل کرتا ہے اصل کی، میرے خیال میں ایک بڑھئی نقل کیسے کر سکتا ہے۔ کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تخلیق کرتا ہے۔ نقل تو نقال کرتے ہیں میں نقال نہیں۔ میرا ہنر مجھے تخلیق کرنے پر اکساتا ہے میں اپنی چیزوں کو جب تخلیق کر رہا ہوتا ہوں۔ تو ان میں تقسیم نہیں کر سکتا فلاں اچھی ہے فلاں میں نقص ہے۔

حیرت ہے کہ کسی نے اس بوڑھے فلسفی سے نہیں پوچھا کیا بڑھئی خدا کی چیزوں تک رسائی ہے۔ رسائی ہوتی تو خدا کے معنی ختم ہو جاتے۔ خدا کی تخلیق مکمل اس لیے کہ خدا خود مکمل ہے۔ انسان نے تقسیم کرنا سیکھا، وقت کی، رزق کی، ان چیزوں کی جس سے وہ زندہ رہ سکتا تھا۔ پھر اس تقسیم نے انسانوں کو تقسیم کیا، جمع نہیں کیا اسے جمع کرنا نہیں آتا، وہ ہر اگلتے سورج کے ساتھ تقسیم کرتا ہے حتی کہ خود تقسیم ہو جاتا ہے۔ جب لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے تو جواب نفی میں آتا ہے۔

انسان جنگل میں پیدا ہوا یہی انسان کی فطرت ہے مگر اس نے فطرت سے بغاوت کی، باہر نکل آیا۔ اس نے طاقت کو پہچانا اور کارآمد بنایا۔ پھر انسانوں کو فتح کرنا سیکھا کوئی انسان، انسان کو کیسے فتح کر سکتا ہے۔ فرشتے اس تقسیم پر حیرت زدہ تھے مگر انہوں نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ تم غربت کے بارے میں پوچھتے ہو، خدا غربت پیدا نہیں کرتا۔ غربت انسان کی پیدا کردہ ہے جس سے ہم دو چار ہیں آخر تک دو چار رہیں گے۔ بادشاہ بھی انسان ہے مگر وہ قابض ہوا ہے وہ کھیتی باڑی کے معنی نہیں جانتا، تلوار کے معنی جانتا ہے۔ یہی اس کی طاقت کا راز ہے وہ اس راز کو پا چکا ہے جس سے وہ صدیوں تک انسانوں پر مسلط رہے۔ غربت کو جنم دے گا۔ انسان ختم ہو رہا ہے غربت باقی رہے گی غربت میں طاقت ہے انسان کو ختم کر سکتی ہے۔

چوتھا سوال کرنے سے پہلے بچے نے بوڑھے کے جوابات کو غور سے سنا اور کہا خدا نے انسان کو پیدا کیا پھر اختیار دیا مگر حد سے بڑھنے نہ دیا وہ ساری باتوں میں خدا کا طلب گار ہے؟

بوڑھے نے کہا ایک مالی جب زمین کو نرم کرتا ہے کیاریاں بناتا ہے تو محسوس کرتا ہے فلاں جگہ پر فلاں پھول ہونا چاہیے جیسے وہ بڑی مہارت سے بڑی ہنرمندی اور سلیقے لگاتا ہے اور باغ کو خوش نگا بنا دیتا ہے یہی معاملہ خدا نے بھی کیا، خدا مالی نہیں خالق ہے اس نے سوچ سوچ کر زمین و آسمان بنائے پھر کائنات کو دیکھا انسان کی کمی محسوس کی اگر انسان کے علاوہ کوئی اور چیز بناتا کائنات میں درست رنگ نہ بھرے جاتے دیکھنے والے بدمزہ ہو جاتے اور ممکن ہے اور ممکن ہے جمالیات پیدا ہی نہ ہوتی۔

میں اکثر سوچتا ہوں خدا کس سے مشورہ کرتا ہوگا مگر مشورہ وہ کرتا ہے جو نا مکمل ہو۔ خدا مکمل ہے اسے کسی سے یا کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔ وہ جانتا ہے اس نے انسانوں کو اپنی شکل دی کو، کل کو جز جز کر دیا وہ پھر بھی کل رہا، اس نے اپنی تخلیق کو انسانوں پر آزمایا۔ بہت ساری مورتیں بنائی، ہر مورت دوسرے سے مختلف ہے میں اکثر سوچتا ہوں میں ایک مرد اور عورت سے جنم لیا مگر کسی دونوں کی شکل میرے جیسی نہیں۔ خدا آرٹسٹ ہے اس کے فن پارے نہایت لاجواب ہیں۔ کوئی بھی تخلیق کار اپنے شاہکار کو کھلا نہیں چھوڑتا، خدا نے بھی ایسا ہی کیا اس کے ذہن میں ان گنت فن پارے، جو ظاہر ہوئے۔ فن چھپتا نہیں ظاہر ہو کر رہتا ہے کسی صورت، رنگ، حالات میں بھی اس سے ظاہر ہونا ہے، ہوگا بھی کہ زندہ رہنے کا احساس ہوتا ہے اور احساس وہ کرتے ہیں جو زندہ رہنا جانتے ہوں۔

بچے نے بوڑھے کے چہرے کو تھکن زدہ پایا مگر وہ جاننا چاہتا تھا وہ سب جس سے وہ ہے۔ اس نے آخری سوال کا سوچا اور بوڑھے کی طرف دیکھا مسلسل کئی گھنٹے سے رندا چلا کر خوشبودار لکڑی کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہا تھا جیسے کوئی شکل دینا چاہتا تھا اور وہ دے گا، وہ مہارت رکھتا ہے۔ اس لئے وہ پوری توجہ اور تن دہی سے اپنا کام اتنی جلدی ہو مکمل کرنے کی کوشش کرتا اسے کچھ اور بھی بنانا ہے۔ بچے نے پوچھا جب میں کائنات کی ترتیب پر غور کرتا ہوں کسی قسم کا خلل محسوس نہیں کرتا۔

حتی کہ ہزاروں سالوں سے ایک لمحے کو غفلت محسوس نہیں کی، سورج کا وقت پر اگنا، وقت پر شام کا اترنا، موسم باری باری آتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بہار سے پہلے خزاں آ جائے یا خزاں کی باری پر بہار آ جائے، آسماں روز روشن ہوتا ہے ہے، تارے چمکتے ہیں۔ بارش برستی ہے۔ وقت کئی لمحوں میں منقسم ہے پھر بھی گڑبڑ نہیں ہوتی کبھی ٹھہرا نہیں فنا ہونے کے تصور کے ساتھ ساتھ وقت کبھی رکتا نہیں۔ لمحوں منٹوں اور گھنٹوں اور صدیوں کو ترتیب دیتا ہے اور حساب لگانے میں کبھی غلط اعداد و شمار نہیں دیتا۔

مگر میں محسوس کرتا ہوں انسان کے ہاں ترتیب نہیں ہے وہ تسلسل کے ساتھ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی نہیں گزارتا جبکہ روشنی ہوا اور پانی اور جو کچھ اس کائنات میں سب فائدہ پہچانے کے لئے انسان کے پھر بھی وہ بے نظم ہے بے ضبط ہے۔ اپنے ان گنت عقلی خلیوں کے ساتھ بے ہنگم ہے اور یہی بے ہنگمی کی وجہ سے دنیا کا یہ حال ہے ہم سبھی انسان ہیں۔ گرچہ چند ساعتوں کے لیے مذہب سے اٹھ کر دیکھا جائے تو برابری کہیں نہیں میرے خیال میں مذہب بھی برابری کا درس دیتے ہیں مگر وہ مطلق العنان ہوتے ہونے کے ساتھ ساتھ جاہل مطلق ہیں کیا وہ غور نہیں کرتا اس نے فنا ہونا ہے؟

بوڑھے نے کہا انسان نے خدا کے تمام اصول توڑ دیے مگر خدا خاموش رہا وہ صبر کرنے والا ہے انسان بار بار اس کی حکم عدولی کرتا ہے وہ اپنی تخلیق کو ایذا نہیں دیتا وہ کھلا چھوڑ دیتا ہے انسان آزاد رہنا چاہتا ہے مگر یہ آزادی اس کی انفرادی ہے وہ دوسروں کو اس میں شریک نہیں کرنا چاہتا جبکہ اوروں کو تابع دیکھنا چاہتا ہے۔ کچھ دیر پہلے میں خدا کے اصولوں کی بات کی۔ یہ اصول لا محالہ ایسے نہیں جو توڑے جا سکیں ایک خالق کی تخلیق اسے کیسے توڑ سکتی ہے میں نے انسانی اصولوں کی بات کی ہے جو انسانوں کے اپنے دائرے میں ہے اس نے وہ اصول توڑے جو انسانوں کو تہذیب میں رکھنے کے لئے بنائے گئے تھے جو خدا نے صرف انسانوں سے وابستہ کیے تھے۔

انسان خود کو خدا کے برابر نسبت ظاہر کرنے کا سوچتا ہے وہ تمام کائنات کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہے فائدے کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے مگر وہ تو خود کسی کی تخلیق ہے بھول جاتا ہے نہیں کر سکتا۔ یہ کائنات تو اس کی عقل سے ماورا ہے۔ میں کبھی کبھی اپنے بوڑھے دوستوں سے اس بات پر بحث کرتا ہوں، انسان کیا چیز ہے کہ ابھی تک خالق کو بھی اپنی عقل میں سما نہیں سکا۔ یہاں تک کہ مکمل خود کو دریافت نہیں کر سکا اور کائنات کو مسخر کرنا چاہتا ہے میرے اس سوال پر بوڑھے دوست مسکراتے ہیں مجھے ان کی مسکراہٹ پر تسلی ہوتی ہے جواب مل جاتا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو سنا جاسکتا ہے سمجھا نہیں۔ آپ تسلی کے لئے مسکرا سکتے ہیں اور بہترین جواب یہی ہو سکتا ہے۔

اب ہم خالص انسانوں کی بات کرتے ہیں جس طرح خدا کو شریک نہیں پسند اسی طرح یہ بات انسانوں میں بھی ہے۔ وہ کسی کو اپنے مقابل نہیں دیکھ سکتا۔ یہ عام زندگی سے لے کر رشتوں تک میں یہ بات صادق ہے۔ وہ تسلط جمانا چاہتا ہے ہر ممکن بات پر، کبھی زن، زر تو کبھی خون سے۔ اسے ہر دو طریقوں کا آزمانا پسند ہے۔ اس لیے تم دیکھتے ہو ہم سے اوپر تھوڑا اور زیادہ اوپر کس طرح کھینچا تانی ہے۔ ایک دوسرے کو پست ثابت کرنے کی کوشش ہے مگر کبھی ایک دوسرے کو برابر لانے کی کوشش نہیں کرتا۔

وہ مدد نہیں کرتا، خیرات کرتا ہے۔ وہ دوسروں کو اتنا دیتا ہے جسے وہ صرف زندہ رہے۔ سانس بھی گن لیتا ہے۔ اتنی ہی روشنی مہیا کرتا ہے جس سے وہ دن کا اندازہ لگا سکے۔ وہ اتنا سننے دیا ہے جو ان کے متعلق نیک ہو۔ وہ کتاب پڑھنے کو نہیں دیتے کتاب سمجھ بڑھاتی ہے کتاب لکھنے والوں کو خرید لیا گیا ہے وہ تحریر کو ان کے مطابق لکھنے پر مجبور کرتا ہے یہ سچ ہے انسان مجبور ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تم اور تمھاری نسل تاریخ سے نابلد ہے یہ سلسلہ روکے گا نہیں جاری رہے گا تم، تم سے بعد آخری انسان تک کوئی تاریخ نہیں سمجھ پائے گا۔

اب میں تمہیں آزمائش کا بتاتا ہوں خدا نے انسان کی آزمائش کے لئے پیٹ لگا دیا ہے۔ ایک لمحے کو الگ کر لیا جائے تو انسان کی ساری خواہشیں اگر یہی لفظ کہا جائے تو ختم ہو جائیں گی۔ تب انسانیت کی بات کرے گا، محبت پھیلائے گا اس کے بعد جنت اور دوزخ کا تصور یہی لالچ ہے جو انسان، انسان کو دے رہا ہے مگر پیٹ نے انسان کو مرتبہ فضیلت سے نیچے گرا دیا ہے وہ اپنے پیٹ کو بڑھا اور بھرنا چاہتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا یہ مسلسل اور بڑی غذا مانگتا ہے جو ایک طرح کی غذا سے پوری نہیں ہو سکتی اس لیے دوسرے طریقے ڈھونڈتا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے پیٹ پر نظر رکھتا ہے مانگتا نہیں چھین لیتا ہے وہ مارتا ہے قابض ہو جاتا ہے قتل کرنے سے باز نہیں آتا اسی طرح کی باتیں معمولی سمجھتا ہے سفید کپڑے پہن کر خود کو پارسا بنانے کی کوشش کرتا ہے انسانوں کے حق کی انسانوں پر خیرات کر کے دیالو بننے کی کوشش کرتا ہے یہ سلسلہ پہلے انسان سے جاری ہے۔ یہ عمل ایسا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہے گا تم دیکھو گے تو مشاہدہ کرو گے۔ آخیر بات میں بچے نے بوڑھے کو تھکن زدہ محسوس کیا۔ وہ اپنا کام مکمل کر چکا تھا وہ سخت خوشبودار لکڑی کو انسان کے کام میں لے آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments