اسرائیل کا بن گوریان اور پاکستان کے یوسف رضا گیلانی


کسی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے ٹریک ریکارڈ اور ان کے افکار بہترین ذرائع ہوتے ہیں۔ بھت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں پایا جاتا۔ جبکہ یہ انسان کی خوبیاں ہی ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اخلاق، بہترین عادات، کوپریشن، مغروپن سے دوری، مثبت سوچ، ملک کے بہتر سے بہتر عہدوں پر کام کرنے کے باوجود کرپشن کے لعنت سے پاک موٹیویشنل شخصیت سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان اور سابق اکاؤنٹنٹ جنرل جناب محفوظ علی خان صاحب کی زندگی جو کہ نوجوان نسل اور سرکاری ملازمتوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لئے ان کے کے ہوئے الفاظ مستعار لیتے ہیں۔

غریب کی جورو، ہر ایک کی بھا بھی

بجٹ ایک ایسی دستاویز ہے جسے سمجھنے کے لئے اقتصادیات کی کچھ سمجھ بوجھ درکار ہوتی ہے۔ اختلاف ہو یا اتفاق، کسی اصول ضابطہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ چونکہ میزانیہ پورے ملک کے مختلف طبقات پر مختلف انداز سے اثر کرتا ہے اس لئے کوئی ایک رائے حتمی نہیں ہو سکتی۔ اب تو فیشن کے طور پر ہر ایک رائے زنی کر رہا ہے، اور کچھ نے تو دیکھے پڑھے بغیر اس کا مکمل تجزیہ پیش کر دیا ہے۔ بہر حال میڈیا ہر ایک کے گھر کی لونڈی ہے، جیسا چاہیں استعمال کریں۔

آئیے دوستوں کو وفاقی سرکردہ شخصیات کی بلوچستان سے دلچسپی کا ایک اور واقعہ سناؤں۔ وزیر خزانہ بلوچستان، وزیر خزانہ وفاقی حکومت، سیکریٹری خزانہ پاکستان اور راقم بلوچستان کے Rs 15.7 Billion کے بارے میں ہونے والے مذاکرات کی تفصیل بتانے، یوسف رضا گیلانی، سابقہ وزیراعظم کے دفتر گئے۔ جب بات چیت شروع ہوئی اتنی دیر میں پرنسپل انفارمیشن افسر وزیراعظم کی فریم شدہ ایک تصویر لے کر آیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی خوش پوش تو ہمیشہ سے تھے، اس تصویر میں زیادہ بہتر لگ رہے تھے۔

تصویر لے کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، ہماری بات ادھوری رہ گئی۔ ہم سب کو مخاطب کر کے کہنے لگے دیکھیں اس میں میں کتنا Imposing لگ رہا ہوں۔ کیسا لگے گا اگر اگلے سال کے سرکاری کیلنڈر اور سرکاری سطح پر یہ تصویر لگائی جائے۔ حسب معمول مصاحبوں نے بھی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے، بلکہ کہا کہ انہیں صوبوں میں بھی دفاتر میں لگانے کو بھیجا جائے۔ ہم نے بیس منٹ کے بعد پھر اپنی بات شروع کی اور انہوں نے کہا ٹھیک ہے فائل بھجوا دیں۔ صوبے کی بات تین منٹ میں ختم باقی وقت نرگسیت کی نذر ہو گیا۔

کسی کو جانچنے کے لئے اپنی ذات کو ہر گز معیار نہ بنائیں۔ جو خوبیاں آپ دوسروں میں تلاش کرتے ہیں، کیا آپ ان خوبیوں کے مالک ہیں؟

ہر انسان اپنی ذات میں ایک لائبریری ہے، کوئی پڑھنے والا تو ملے، ہم سر ورق سے آگے نہیں بڑھتے
عمل سے خالی لوگ

ایک روز اسرائیل کے سابقہ وزیراعظم بن گوریان، صبح تیزی سے کہیں جانے کے لئے تیار ہوئے، ان کی بیٹی نے یاد دلایا کہ وہ دیوار گریہ پر سالانہ عبادت اور دعا کا دن تھا اور وہ کہیں اور جا رہے ہیں۔ بن گوریان نے جواب دیا کہ وہ کچھ ضروری ریاستی امور نمٹانے جا رہے ہیں اور واپسی پر فیملی کو دیوار گریہ پر جوائن کر لیں گے۔ بن گوریان نے مزید کہا کہ اگر عمل کے بغیر دعائیں کارگر ہوتیں تو دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان کعبہ میں جمع ہو کر اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اسرائیل دن دوگنی ترقی کر رہا ہے اور مسلمان اندرونی ریشہ دوانیوں میں مبتلا ہیں، کیونکہ وہ عمل سے بہت دور ہیں۔ ہم مذہبی امور کے ساتھ عملی کام کو بھی اسی انداز میں چلاتے ہیں۔ اس لئے وہ ہماری ترقی کا مقابلہ کرنے سے عاری ہیں۔

، ایسے مردہ ضمیر شخص سے کبھی تعلقات استوار نہ کرو جس نے آپ کے کردار پر کیچڑ اچھالا ہو۔ اس کا پچھتاوا کوئی معنی نہیں رکھتا، سانپ کینچلی اتارتا ضرور ہے لیکن اپنی زہریلی فطرت نہیں بدلتا نہیں۔

ہم عجب کنفیوز اور طبقوں میں بٹے لوگ ہیں، افغانستان، فلسطین، کشمیر کے مظالم ہوں یا گمشدہ بیٹوں کی ماؤں کا درد، ہمارا رویہ یکساں نہیں ہوتا، صرف اس پر روتے یا ماتم کناں ہوتے ہیں جن سے سیاسی، مذہبی یاemotional لگاؤ یا تعلق ہو، انسانیت، اسلامی یا قومی تعلق اور جذبات بھی Selective ہیں۔ کیا خون ناحق یکساں نہیں ہوتا؟

اللہ کے عذاب مختلف شکلوں کے ہیں ایک مستقل عذاب قوم پر عامر لیاقت کی شکل میں نازل ہوا ہے،

پاکستان بھر میں (صوبوں سمیت) سال 21۔ 22 میں کتنی رقم ترقی پر خرچ ہوگی؟ اور اس صوبہ بلوچستان پر کتنی رقم لگے گی؟ یہ دھیان میں رہے کہ بلوچستان ملک کے رقبہ کا 44 % ہے۔ یعنی 56 % پر کتنا خرچ ہوگا اور یہاں کیا ترقیاتی فنڈ مختص ہوں گے ؟

جب میں کسی ذہنی معذور (لیڈر) کی لا یعنی، لغو اور بے سروپا گفتگو سنتا ہوں، تو میں ان لوگوں کے ذہنی دیوالیہ پن پر حیران ہوتا ہوں جو انہیں رہبر اور رہنما مانتے یا جانتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سرکردگی میں دنیا میں کوئی مقام حاصل کر پائیں گے۔ اس سے قابل رحم وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں، جو ان لوگوں کی میڈیا میں دن رات وکالت کرتے ہیں، صرف اس لالچ میں کہ کل کو ایک نوکری، ایک وزارت، ایک لائسنس مل جائے گا۔ یہ ذہنی غلامی کی بد ترین قسم ہے

غور کریں اس دھرتی کو اشرافیہ، جس کا مذہب، مسلک طاقت کا حصول تھا اور رہے گا، بھنبھوڑ رہی ہے؟ ہم سب اس گھناونے عمل میں ان کے معاون ہیں!

کتاب مجھے ماضی، مستقبل سے ہی نہیں، مختلف تہذیبوں، ثقافتوں سے بھی جوڑتی ہے۔ یہ جہالت کے اندھیروں سے روشنی کا سفر ہے۔

کیا محبت کا اظہار توڑ پھوڑ اور املاک کی تباہی سے کرنا محبت اور عقیدت کی نفی نہیں؟ اسلام دشمن حرکات دشمن کا ساتھ دینے کے مترادف ہی۔

دی سزا کافر کو میں نے
جلا کر راکھ کر دیا گھر اپنا

ٹی وی چینلز اگر احترام رمضان نہیں کر سکتے تو اس کی بے حرمتی بھی نہ کریں۔ ایکٹرز کو ایکٹنگ تک محدود رکھیں

اس معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ ہر شخص، ہر کام جاننے کا دعویدار ہے، سوائے اپنے کام کے۔ احساس زندگی کی دلیل ہے، احساس اگر مر جائے تو انسان زندہ لاش رہ جاتا ہے۔ (میک) معاشرہ کی بد قسمتی ہے کہ سب سے زیادہ بدعنوانی میں حلف اٹھانے والے اور تعلیم یافتہ ملوث ہیں۔ معاشرہ کی بد قسمتی ہے کہ سب سے زیادہ بدعنوانی میں حلف اٹھانے والے اور تعلیم یافتہ ملوث ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل اور حکومتیں اس بیش بھا ہیرے کو مزید تراش کر کے اس کے تجربے سے استفادہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments