جی سیون اور نیٹو سربراہ برسلز کانفرنس چین کی اقتصادی و عسکری طاقت سے خائف


جی سیون کانفرنس و نیٹو ممالک کی برسلز کانفرنس میں چین مخالفین صف آرا ہوچکے ہیں، گو کہ کھلے عام چین کو 30 ممالک سمیت جی سیون نے اپنا دشمن تو قرار نہیں دیا لیکن چینی کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور عسکری طاقت و عالمی سطح پر اثر نفوذ کے مقابل ہونے والی صف بندیوں سے عالمی طاقت کا نظام تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ’بلقان ریاستوں سے لے کر افریقہ تک چین کی عسکری موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کو تیار رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ چین ہمارے قریب آتا جا رہا ہے، چاہے وہ سائبر سپیس ہو یا افریقہ، اور اس کے ساتھ ساتھ چین ہمارے اہم انفراسٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ ۔ اس سے قبل امریکہ، چین کے عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے مقابل نیا منصوبہ لانے پر کی منصوبہ بندی کرچکا تھا، چین کے عظیم راہدری منصوبے میں پاکستان ایک کلیدی شراکت دار کی حیثیت رکھتا ہے، سی پیک منصوبے کے باقاعدہ آغاز کے ساتھ ہی سازشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، امریکہ کی نمایندہ خصوصی ایلس ویلز نے تو نومبر 2019 میں کہہ دیا تھا کہ ’سی پیک منصوبے سے پاکستان کو نقصان ہوگا جبکہ 2017 میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈانفورڈن نے سی پیک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ متنازعہ علاقے سے گزر رہا ہے نیز امریکہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں چینی‘ اثر رسوخ ’پر تحفظات ہیں۔

پاک۔ چین دوستی میں دراڑ ڈالنے اور عظیم اقتصادی راہدری منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک میں ایک ایسا جال بنا، جو ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی میں حائل ہوتا، تاہم سیکورٹی فورسز نے تمام سازشوں کو ناکامی سے دوچار کیا اور دہشت گردوں کی جانب سے چینی سرمایہ کار، سفارت خانے سمیت پاک فضائیہ کے ہمراہ مصروف چینی انجنیئرز و ٹیکنیشن کو نشانہ بنانے کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ لندن میں چین کے سفارت خانے کے ترجمان نے کانفرنس پر ردعمل سات ممالک کے گروپ (جی سیون) کو واضح طور پر متنبہ کیا کہ ”وہ دن ختم ہو چکے ہیں جب ’چھوٹے‘ ممالک کے گروپ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔

چین نے اپنے اس بیان کے ذریعے امیر ترین ممالک کو نشانہ بنایا، جنہوں نے بیجنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ چینی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’واحد جائز عالمی نظام اقوام متحدہ کے اصولوں پر مبنی بین الاقوامی آرڈر ہے، نہ کہ چھوٹے ممالک کے وضع کیے نام نہاد اصول۔ چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ ممالک کے بڑے یا چھوٹے، مضبوط یا کمزور اور غریب یا امیر ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔

تمام ممالک برابر ہیں اور دنیا کے معاملات مٹھی بھر ممالک کے بجائے تمام ممالک کی مشاورت سے چلانے چاہیے۔‘ یہ بیان ایک ایسے وقت آیا جب رکن ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور بھارت کو بطور مہمان شریک کیا گیا لیکن چین اس کانفرنس میں شامل نہیں، اس کی بنیادی وجہ امریکی اہداف بتائے جاتے ہیں، جس کے مطابق صدر بائیڈن کے واضح اہداف میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سفارتی اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے مغرب کو تیار کرنا، روس کو یورپی سرحدوں کے اندر مبینہ مداخلت اور انٹرنیٹ پر ہیکنگ سے باز رکھنا اور جمہوریت کے فروغ کے ساتھ آمریت کا مقابلہ کرنا شامل ہیں۔

امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے ایسے منصوبے لائے گا جو چین کے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کا مقابلہ کرسکیں۔ اس منصوبے کا نام ’بلڈ بیک بیٹر فار دا ورلڈ‘ (بہتر دنیا کی دوبارہ تعمیر) رکھا گیا ہے۔ امریکی انتظامیہ ’B 3 W‘ ̃ منصوبے میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کرچکی ہے، تاہم اس کی لاگت اور آغاز کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن امریکی عزائم واضح ہوچکے کہ وہ چین کے اقتصادی منصوبے سے خائف ہے اور معاشی طور مضبوط جی سیون ممالک کے ساتھ مل کر ان ترقی پذیر ممالک میں دخل اندازی کرے گا جہاں چین پہلے ہی کھربوں ڈالرز کے منصوبے کے مکمل و دوسرے فیز پر کام شروع کرچکا۔

مغربی دنیا اور امریکہ بخوبی آگاہ ہیں کہ رواں صدی میں دنیا میں وہی ملک سپر پاور ہوگا جو معاشی طور پر مضبوط ہونے کے علاوہ، دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی معاشی مصنوعات کو نئی مارکیٹ و ممالک کو پرکشش مراعات دے کر مہنگی مصنوعات کا کڑا مقابلہ کرسکے چونکہ چین کے ساتھ ابتدائی طور پر پاک چائنہ اقتصادی راہدری (سی پیک) پر کام شروع ہو چکا تھا، مخالفین نے کلبھوشن یادیو جیسے را کے ایجنٹوں کے ذریعے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشیں کیں، ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں کی شراکت سے ایسے کئی نیٹ ورک بنائے گئے جنہوں نے ملک کے شمال مغربی سرحدی علاقوں کے علاوہ سندھ کے شہری و دیہی آبادیوں بالخصوص پورے بلوچستان میں دہشت گردی کا دائرہ بڑھایا۔

امریکہ کا چینی منصوبے کے مقابل اپنا منصوبہ لانے کا اعلان غیر معمولی ہے، اس اعلان پر پاکستان کو مزید چاق و چوبند رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سب بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی سطح پر جاسکتا ہے، دنیا میں طاقت کا محور ہتھیاروں کا جمع کرنا اور جنگ یا شورش کروا کر دولت کمانے تک محدود نہیں رہا، دنیا اب ایک نئی سمت کی جانب رواں دواں ہے۔ صنعتی ترقی نے جہاں زراعت پر انحصار کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی معاشی سمت کو بدل دیا، وہیں پرانے دشمن، نئے دوست کی شکل میں عالمی سطح پر با اثر اتحادی گروپ بنا رہے ہیں۔

واضح طور پر دنیا معاشی ضروریات کے حوالے سے کئی بلاکوں میں منقسم ہو چکی، یہ حقیقت ہے کہ جب بھی پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو اسے عالمی قوتیں علاقائی تنازعات میں الجھا دیتی ہیں، ملک میں سیاسی عدم استحکام و ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کر کے معیشت کا پہیہ روکنے کی عالمی منصوبہ بندی پر بعض عناصر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔

عالمی مفادات کی جنگ میں ترقی پذیر و غریب ممالک کو معاشی غلام بنانے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے ایسے تمام منصوبوں کو گروی رکھ لیتے ہیں تاکہ یہ ممالک اپنے پیروں پر کبھی کھڑے نہ ہو سکیں۔ پاکستان بھی اسی نازک دور سے ایک بار پھر گزر رہا ہے، مملکت کو دباؤ لانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی و سخت شرائط، خطے میں سیاسی عدم استحکام، ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم سے دباؤ بڑھانا، تجارت کے بجائے بھاری شرح سود پر امداد کے نام پر قرضے اور عالمی قوتوں کے ڈومور کے مطالبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ عالمی طاقتوں کے مفادات و منصوبوں کے اثرات سے پاکستان براہ راست متاثر ہو سکتا ہے، مضبوط معیشت کے لئے مضبوط سیاسی استحکام و حزب اقتدار و اختلاف میں اہم ایشوز پر متفق و اتفاق رائے یکساں ہونا ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments