غیرت کے نام پر قتل


پاکستان میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے وہاں غیرت کے نام پر قتل ( آنر کلنگ ) سر فہرست ہے۔ دنیا میں غیرت کے نام پر ہو نے والے قتل کے کیسز کا پانچواں حصہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1000 خواتین کا غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعداد غیر متعین ہے، کیونکہ بہت سے معاملات کبھی بھی رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر جن وجوہات کو بہانہ بنا کے یہ قتل کیے جاتے ہیں ان میں نا قابل قبول تعلقات، غیر موزوں لباس، زبان درازی، پسند کی شادی یا گھر والوں کی مرضی سے شادی سے انکار، طلاق کا مطالبہ، یا دیگر ”نا زیبا“ حرکات شامل ہیں۔ جب کہ بہت سی ایسی نوعیت کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب ایک لڑکی نے پسند کی شادی کر لی اور اسے بعد میں خاندان کے افراد کی طرف سے قتل کر دیا گیا۔ غیرت کے نام پر قتل کے یہ واقعات اکثر اپنا جرم چھپانے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں

ایک سماجی ترقی کی تنظیم کے مطابق 2020 میں پاکستان میں آنر کلنگ کے 2256 واقعات پیش آئے۔

شاید ہی کوئی دن ہو جب ایسا کوئی واقعہ سننے یا پڑھنے کو نا ملتا ہو۔ ”پسند کی شادی کرنے پر باپ اور بھائیوں نے لڑکی کو قتل کر دیا“ ، ”موبائل پر غیر لڑکے سے بات کرنے پر بھائی نے اکلوتی بہن کو قتل کر دیا“ یا ”خاوند نے بیوی کو کسی سے تعلقات کے شعبے میں قتل کر دیا۔

ایک حالیہ واقعے کے مطابق ہری پور کی بار یونین کونسل کے سربراہ نے 17 سالہ لڑکی سنگسار کر کے اپنے علاقے کی عزت بچالی جب کہ وہ قتل ہونے والی نا بالغ لڑکی ان کی اپنی ہی پوتی تھی جس کی جان انہوں نے کسی لڑکے کے ساتھ تعلقات بتا کر لے لی۔

ایک بات جو ہمارے پدر شاہی معاشرے میں تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ گھر اور خاندان کی عزت لڑکی کے ہاتھ میں ہے اور خاندان کی عزت کو ہمیشہ لڑکی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے کسی بھی عمل یا فیصلے کی وجہ سے ان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کے جرگے کے فیصلے ہوں یا خاندانی لڑائی ( جو کے مردوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ) ان کا خمیازہ ان کی خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے جب کہ انکار کی صورت میں اس لڑکی کو بد کردار تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی شادی شدہ زندگی سے تنگ ہو، یا اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تب بھی اسے ہی بد چلن ثابت کیا جاتا ہے۔ بچپن سے ایک ہی بات لڑکیوں کو بتائی جاتی ہے کے وہی گھر کی عزت ہیں اور ہر حال میں انہوں نے گھر والوں مرضی اور فیصلوں کے مطابق زندگی گزارنی ہے، پھر چاہے ان کی اپنی زندگی جہنم کیوں نا بن جائے۔

ہمارے ملک میں غیرت کا دوہرا معیار ہونے کی وجہ سے غیرت کو بیٹی کے ساتھ ہی جوڑا جاتا ہے۔ پہلے باپ اور بھائی کی عزت، پھر شوہر کی اور پھر بیٹے کی۔ چاہے وہ خود جو مرضی کریں۔

گھر جسے ایک جائے امان سمجھا جاتا ہے، بہت سی خواتین کے لیے یہ ایک قید خانے سے بد تر بھی ہو سکتا ہے اور حالیہ وبا کے دنوں میں گھریلو تشدد اور ایسے دیگر واقعات کی تعداد دو گناہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔

اگر چہ ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے این جی اوز اور انسانی حقوق کی بحالی تنظیمیں بھی متحرک ہیں اور ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہیں لیکن عمومی طور پر ایسی تنظیموں پر بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے اور معاشرے کو گمراہ کرنے کا الزام لگا کے تنقید کی جاتی ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تعلیم، سماجی شعور، قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments