شرفو


سہ پہر کے وقت میں اپنے گھر کے صحن میں پودوں کو پانی دے رہا تھا کہ مجھے کسی کے گنگنانے کی آواز آئی، میں نے پانی کیاری میں ڈال کر مٹکا اسی کیاری کے ایک سرے پر لگی اینٹوں کے سہارے ٹکا دیا اور خود اس آواز کی طرف لپکا جو ابھی تک مسلسل سنائی دے رہی تھی۔

اس آواز کا تعاقب کرتے ہوئے جب میں گاؤں سے باہر نکلا تو پاس ہی ایک کھیت کی منڈیر پر بیٹھا شرفو اپنی ذات میں مگن اونچی اونچی آواز میں کہہ رہا تھا ”کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں لوگ“ ۔ ”آپ بھی صاحب اولاد ہیں“ ۔ جب میں شرفو کے پاس پہنچا تو پہلے مجھے شدید غصہ آیا کہ نہ جانے یہ پاگل ہے جو یہ دو جملے ہی بار بار پڑھ کر گلہ پھاڑ رہا ہے۔ لیکن پھر مجھے چچا کرم دین کی وہ بات یاد آ گئی کہ کبھی کبھی شرفو کا ذہنی توازن قائم نہیں رہتا۔

انھوں نے ایک دن مجھے بتایا کہ جب بھی شرفو کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے تو وہ کچی مٹی کے روڑے اپنی جھولی میں بھر لیتا ہے اور اسی منڈیر پر بیٹھ کر ایک روڑے کو سامنے رکھتا ہے اور پھر اس پہ دوسرا روڑہ دے مارتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی بے سری آواز میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر ان الفاظ کی تکرار کرتا ہے ’کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں لوگ‘ ۔ ”آپ بھی صاحب اولاد ہیں“ ۔

یہ صورت حال دیکھنے کے بعد میں اسی وقت واپس گھر کی طرف لوٹ آیا اور پانی کا مٹکا اٹھا کر پھر سے پودوں کی آبیاری کرنے لگا۔ مگر بار بار شرفو کے دونوں جملے مجھے اصل معنی کی تلاش پر مجبور کرتے رہے۔

چچا کرم دین نے بھی آج تک اصل بات کی تلاش نہیں کی تھی کہ کیا شرفو کے ذہنی خلل کی اصل وجہ کیا ہے۔ انھیں محض یہ پتہ تھا کہ شرفو کی جب یہ حالت ہوتی تو وہ تین چار دن تک مسلسل وہاں بیٹھا اپنے آپ سے وہ ہی دو باتیں کرتا رہتا۔ پھر جس دن اس کے دونوں بیٹے سکندر اور فیضی شہر سے گاؤں آتے تو وہ اسے وہاں سے اٹھا کر گھر لے جاتے۔ اور جب کوئی اس معاملے سے متعلق دریافت کرتا کہ شرفو تو اچھا خاصا صحت مند شخص تھا، یہ آج کل اسے کیا ہو گیا ہے؟ تو ایسے سوالات پر فیضی اور سکندر دونوں کا یہ ہی جواب ہوتا کہ عمر زیادہ ہونے کے سبب کبھی کبھی ذہنی حالت بگڑ جاتی ہے۔

شرفو کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ جیسے کبھی کسی نے براہ راست اس سے حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اسی دن میں نے دل ہی دل میں ٹھان لی کہ کسی نہ کسی حوالے سے اصل بات تک پہنچنا ہے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کے گھر اگر کوئی بندہ اس سے ملنے جاتا تو گھر کے نوکر چاکر یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ شرفو کسی سے بھی ملنا نہیں چاہتا۔

دراصل جب سے میں نے شرفو کو اس حالت میں دیکھا تھا تو وہ جملے جو شرفو بار بار دہراتا تھا میرے لیے ذہنی کوفت کا سبب تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ میں گاؤں کے بہت کم لوگوں کو جانتا تھا کیوں کہ میں جب سات سال کا تھا تو گھر والوں نے مجھے ایسے سکول میں داخل کروایا جو گاؤں سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ زیادہ مسافت کی وجہ سے روزانہ گھر سے آنا جانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے مجھے وہاں ہی سکول کے ہاسٹل میں کمرہ لے کر دیا گیا۔ اس بات کو آج تقریباً چودہ سال گزر چکے تھے اور میں مسلسل چودہ سال سے ہاسٹلوں میں رہنے والا گاؤں کے لوگوں کو چند دن کی چھٹی میں زیادہ نہیں جان سکتا تھا۔

لہذا شرفو کے خاندان کے ساتھ میرا کوئی اتنا گہرا تعلق نہیں تھا کہ میں بلا جھجھک ان کے گھر جاکر شرفو سے بات کر سکتا۔ میں تو شرفو کو بھی اتنا ہی جانتا تھا کہ ہمارے گھر کے صحن کی دائیں طرف ایک بیٹھک نما کمرہ تھا جہاں ابا حضور بیٹھا کرتے تھے، تو میں بھی بڑے شوق سے بیٹھک میں جایا کرتا تھا تاکہ بڑوں کی باتیں سن سکوں۔

گاؤں کے جنوب مشرقی کونے میں ہمارا گھر تھا۔ ہمارے گھر کے ساتھ دو گھر چھوڑ کر آگے کھیت شروع ہو جاتے تھے۔ ان دو گھروں کے ساتھ پہلے کھیت شرفو کی ملکیت تھے۔ وہ کھیتوں میں سارا دن کام کرتا رہتا تھا۔ جب تھک جاتا تو حقے کے کش لگانے کے لیے ہماری بیٹھک میں آ جاتا تو وہاں کبھی کبھار اس سے میری ملاقات بھی ہو جاتی۔

شرفو کی ایک ہی بہن تھی جو ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ ایک دن وہ ہمارے گھر آئی تو مجھ سے کہنے لگی کہ بیٹا کافی دن ہو گئے ہیں میں اپنے بھائی کے گھر نہیں گئی اور آج میرا بیٹا گھر پر نہیں ہے، اس لیے تمہارے پاس آئی ہوں۔ کیا تم مجھے میرے بھائی کے گھر چھوڑ دو گے۔ ؟ میں نے پوچھا کہ آپ کے بھائی کہاں رہتے ہیں تو کہنے لگی کہ دوسری طرف جہاں گاؤں کی حد بندی ہے یعنی شمال مشرقی کونے میں ان کا گھر ہے۔ میں بوڑھی عورت ہوں میں زیادہ چل نہیں سکتی اس لیے تمہیں کہہ رہی ہوں کہ مجھے وہاں چھوڑ آؤ۔

جب میں اس بڑھیا کو لے کر اس کے بھائی کے گھر پہنچا تو بڑھیا نے مجھے بھی اندر آنے کو کہا اور جب میں گھر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک شخص اپنی ٹانگیں سمیٹے ململ کی چادر اوڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹا ہوا تھا۔

گھر میں اور کوئی نہیں تھا اور سارے گھر میں سکتہ طاری تھا۔ سارے کا سارا گھر گرد میں اٹا ہوا تھا۔ بڑھیا نے گھر میں داخل ہوتے ہی آواز لگائی ’کرموں بیٹا کدھر ہو۔ تو کہیں سے غیبی آواز آئی کہ بے بے جی میں ادھر ہوں۔

کرموں چھت پر مٹی کا لیپ کر رہا تھا۔ بڑھیا نے اسے نیچے آنے کو کہا اور جب وہ نیچے آیا تو اس نے مجھے اور بڑھیا کو انتہائی ادب کے ساتھ سلام کیا اور جلدی سے ہاتھ دھو کر کمرے سے بان کی چارپائی نکال لایا اور صحن میں بچھا کر اس کے اوپر ایک صاف ستھری چادر ڈال کر ایک کورا سا تکیہ لگایا اور ہمیں بیٹھنے کو کہا اور خود پڑوس سے ہمارے لیے کچی لسی بنوا کر لے آیا۔

کرموں بائیس تئیس سال کا نوجوان لڑکا تھا۔ وہ پچھلے چار برس سے اسی گھر کی دیکھ بھال پر معمور تھا۔ میں صحن میں بیٹھا مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ آخر بڑھیا کا بھائی کدھر ہے جس سے یہ ملنے آئی تھی اور دوسری تشویشناک بات یہ تھی کہ یہ برآمدے میں چادر اوڑھے پڑا شخص کون ہے اور اس نے ہمارے ساتھ بات کیوں نہیں کی؟

کرموں ہمیں کچی لسی پلا کر صحن میں ہماری چارپائی کے ساتھ نیچے مٹی پر بیٹھ گیا اور بڑھیا سے اس کے اہل خانہ کا حال احوال پوچھنے لگا۔ بڑھیا نے حال احوال کی باتوں کے بعد کرموں سے پوچھا کہ تم ہر وقت کیا کرتے رہتے ہو، کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ ہر طرف گرد ہی گرد ہے اور برتن بھی بکھرے پڑے ہیں۔ میں جب کچھ دن پہلے آئی تھی تب بھی یہ ہی صورت حال تھی تم کہاں رہتے ہو؟

کرموں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ بے بے جی میں ایک ماہ کے بعد آج یہاں آیا ہو ،فیضی بابو نے نئے گھر کی تعمیر شروع کی ہے تو انھوں نے کام کاج کے لیے مجھے شہر بلا لیا تھا۔ بڑھیا اس بات پر چونک اٹھی اور کہنے لگی کہ شرفو کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے تھے؟ تو کرموں نے کہا کہ سکندر بابو نے مالک کے کھانے دانے کا انتظام پڑوس میں تنور والی مائی کے سپرد کیا تھا اور خود بھی ہر ہفتے ان کی دیکھ بھال کے لیے آتے تھے۔ اس پر بڑھیا نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ”ہائے شرفو تیری قسمت!“

جب میں نے شرفو کا نام سنا تو میرے ذہن کی بے چینی کو ہوا مل گئی۔ جب میں نے بڑھیا سے دریافت کیا کہ یہ برآمدے میں پڑا شخص کون ہے اور یہ ایسے کیوں لیٹا ہوا ہے اور اس نے ہماری طرف کوئی توجہ کیوں نہیں کی۔ اس بات پر بڑھیا کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور اس نے کہا کہ یہ ہی میرا بھائی، شرفو ہے۔

ماں جی آپ اپنے آنسو پونچھیے اللہ سب بہتر کرے گا۔ میں نے رٹے رٹائے جملے کہتے ہوئے بڑھیا کو سہارا دینا چاہا۔ بیٹا یہ آنکھیں چھلک چھلک کر اتنی گہری ہو گئی ہیں کہ بے شمار آنسو ذخیرہ کر سکتی ہیں۔ بڑھیا نے درد بھرے لہجے میں کہا۔

آپ تو یہاں ان سے ملنے آئی تھی مگر آپ نے اپنے بھائی سے حال احوال کیوں نہیں دریافت کیا۔ میں نے بڑھیا سے بے جھجک سوال کیا۔ بیٹا شرفو اب نیند کی گولیاں کھا کر سویا ہوا ہے۔ اس لیے میں نے اسے بیدار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ بیدار ہوتا بھی تو حواس باختہ ہوتا اور دو باتیں ہی دوہرا رہا ہوتا کہ ”کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے لوگ“ ۔ اور ”آپ بھی صاحب اولاد ہیں“ ۔ بڑھیا نے آنکھوں کو اوڑھنی سے پونچھتے ہوئے جواب دیا۔

دونوں باتیں (شرفو جنھیں منڈیر پر بیٹھ کر دہراتا تھا) میرے لیے ذہنی بے چینی کا باعث تھیں اور حقیقت کی تلاش کا مسلسل تقاضا کر رہی تھیں۔

اب تم گھر واپس چلے جاؤ بیٹا تاکہ تمہارے اہل خانہ پریشان نہ ہو جائیں۔ بڑھیا نے میرے شانے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ میں نے بڑھیا کو سلام کیا اور واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ ابھی میں شرفو کے گھر کے دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ مجھے آواز آئی ”آپ بھی صاحب اولاد ہیں“ ۔ میں رک گیا اور پلٹ کر دیکھا تو شرفو اسی طرح چادر اوڑھے لیٹا ہو تھا۔ میں نے پھر گھر کی راہ لی۔

شدید گرمی کے موسم میں چھت پر چارپائی بچھائے لیٹا میں یہ سوچ رہا تھا کہ رات کی تاریکی میں روشن ستارے شاید میری امید بڑھا رہے ہیں کہ اندھیرے میں بھی کہیں نہ کہیں اجالے کا سراغ مل ہی جاتا ہے۔ اس منظر نے میری دلی تشفی کی اور میں مطمئن ہوا کہ کہیں نہ کہیں تو ان سوالوں کا جواب موجود ہے جن کی وجہ سے میرے ذہن میں محشر برپا تھا۔

میری چھٹیوں کے صرف دو دن باقی تھے پھر میں نے شہر واپس چلے جانا تھا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شرفو تو کوئی بات بھی بتانے کے قابل نہیں ہے اور میرے پاس اس معاملے کو نبٹانے کے لیے صرف دو دن ہیں۔ آخر کیا کیا جائے۔ ایک دم سے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس بڑھیا سے اس معاملے کے بارے میں دریافت کیا جائے۔

صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد ہوا خوری کے لیے میں گھر سے باہر نکلنے لگا تو بڑھیا ہمارے گھر کے دروازے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ماں جی آپ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہیں؟ اندر آ جائیے۔ میں نے نہایت ادب سے کہا۔ بیٹا میں تو تمہارا پتہ لینے آئی تھی کہ خیر و عافیت سے گھر پہنچ گئے تھے؟ بڑھیا نے دریافت کیا۔ جی جی ماں جی میں بہ عافیت گھر پہنچ گیا تھا۔ میں نے بڑھیا کو اپنے ہاتھ کے سہارے گھر میں داخل کرتے ہوئے کہا۔

ارے بسم اللہ آج بڑے دنوں بعد رابعہ پھوپھی ہمارے گھر تشریف لائی ہیں۔ میری بڑی بہن نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ جیتی رہو بیٹی۔ بڑھیا نے کہا۔

اس دن مجھے پتہ چلا کہ بڑھیا کا نام رابعہ ہے۔ اسی وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ موقع کو غنیمت جان کر کیوں نہ آج ہی بڑھیا سے شرفو کے بارے میں دریافت کر لیا جائے۔ میری بہن بڑھیا کے لیے ستو کا پانی لینے چلی گئی تو بڑھیا نے مجھے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ میں چارپائی پہ بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ماں جی اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ بتائیں گی۔ جی بیٹا پوچھیں جو پوچھنا ہے میں ضرور بتاؤں گی۔ بڑھیا نے شگفتہ مزاجی سے کہا۔

شرفو کا اصل نام کیا ہے اور اس کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ میں نے پہلا سوال ہی یہ کیا۔ بیٹا شرفو کا اصل نام تو محمد اشرف ہے لیکن آپ نے اس سے متعلق پوچھ کر کیا کرنا ہے۔ بڑھیا نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے اپنی بے چینی کا سارا معاملہ بڑھیا کو کہہ سنایا۔

بیٹا اگر یہ بات ہے تو سنو پھر۔ بڑھیا نے اپنی ڈوبتی آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ شرفو سب سے بڑا ہے۔ ہمارا باپ کسان تھا اور زمین بھی بہت کم تھی کہ جہاں کھیتی باڑی کر کے مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی۔ شرفو جب تیسری جماعت میں تھا تو ماں نے ایک دن شرفو سے کہا کہ تمہارا باپ سارا دن کھیتوں میں اور مال مویشیوں کے ساتھ اکیلا خوار ہوتا رہتا ہے تم بھی کھیتوں میں جا کر اس کا ہاتھ بٹایا کرو۔ شرفو نے ماں کے حکم کو رب کا حکم سمجھتے ہوئے تعمیل کا عزم کیا۔

پانچویں جماعت تک شرفو باپ کے ساتھ کھیتوں میں جایا کرتا اور سکول سے چھٹی کے بعد شام تک کھیتوں میں ہی رہتا۔ جب اسے کام کاج کی سمجھ آ گئی تو اس نے ماں سے یہ کہہ کر سکول جانے سے انکار کر دیا کہ میرا باپ کھیتوں میں سارا دن اکیلا ذلیل ہوتا ہے میں اس کا ہاتھ بٹاؤں گا۔ اس نے سکول جانا تو چھوڑ دیا مگر کھیتی باڑی اور مال مویشی کے کام میں خوب دلچسپی لینے لگا۔ شرفو جب اپنے کام میں ماہر ہو گیا تو وہ سارا کام خود کرتا اور باپ کو کہتا کہ آپ نے اب کوئی کام نہیں کرنا۔

شرفو کے علاوہ باقی تین بھائی اور میں سکول جایا کرتے تھے۔ ہمارا سب سے چھوٹا بھائی بھی سکول کے اوقات کے بعد شرفو کے ساتھ کھیتوں میں چلا جاتا تھا۔ اس کا نام اکرم تھا۔ اکرم نے بھی چھٹی جماعت میں پہنچ کر مزید پڑھنے سے انکار کر دیا اور شرفو کا ہاتھ بٹانے لگ پڑا۔ میں آٹھویں کلاس کا امتحان پاس کر چکی تو ماں باپ نے مزید پڑھانے سے انکار کر دیا اور میں بھی گھر کے کام میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔

شرفو سے چھوٹے دونوں بھائیوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت اختیار کر لی۔ ان کے تمام تر تعلیمی اور ذاتی اخراجات شرفو اور اکرم کی محنت سے ہی پورے ہوتے رہے۔

کچھ ماہ بعد امان نے ملازمت چھوڑ دی اور سیر و سیاحت کے چکر میں پڑ گیا۔ بس وہ دن رات دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح میں ہی گزار دیتا اور ایک یا دو ماہ بعد جب جیب خرچ ختم ہو جاتا تو پھر گھر واپس آ جاتا۔ دو تین دن تک گھر ہی رہتا پھر جیب خرچ لے کر چلا جاتا۔ کریم بھی ہفتے میں دو دن چھٹی کے با وجود مہینے میں دو دن ہی گھر آتا اور باقی چھٹیاں دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے میں گزار دیتا۔ کریم کی تنخواہ گھر والے نہیں لیتے تھے بلکہ اس کی ماں نے کہہ رکھا تھا کہ تم اسے جمع کرتے رہو تاکہ تمہاری شادی کے وقت یہ پیسے ہمارے کام آ سکیں۔

ایک دن امان اور کریم دونوں بھائی گھر آئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے انھیں کہا کہ تم دونوں بھی کھیتوں میں جاکر شرفو کا ہاتھ بٹاؤ کیوں کہ اکرم ابھی چھوٹا ہے تو شرفو کے لیے کام زیادہ ہوتا ہے۔ جب وہ دونوں کھیتوں میں پہنچے تو شرفو نے انھیں خوب ڈانٹا کہ تم اتنی گرمی میں یہاں کیوں آئے ہو؟ ہمیں والد صاحب نے آپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھیجا ہے۔ دونوں بھائیوں نے شرفو کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔

شام کو جب شرفو گھر آیا تو چھوٹے بھائیوں کے لیے کھیتوں سے گنے توڑ لایا اور ان کی گنڈیریاں بنا کر دونوں بھائیوں کو پیش کر دیں۔ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی شرفو بھائی۔ کریم نے کنڈیری اٹھاتے ہوئے کہا۔ شہر میں خالص چیزیں بہت کم ملتی ہیں اس لیے سوچا کہ آپ کو یہ سوغات پیش کروں۔ شرفو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

کچھ دن بعد امان گھر آیا اور ماں سے کہنے لگا کہ ماں جی گھر میں کھیتی کے جو پیسے پڑے ہوئے ہیں اور گھر میں جو زیورات موجود ہیں وہ مجھے دیں۔ کیوں بیٹا ایسی کیا ضرورت پڑ گئی۔ ماں نے دریافت کیا۔ ماں جی ہماری زمین کے ساتھ تقریباً پندرہ ایکڑ زمین برائے فروخت ہے۔ امان نے ماں کی بات کا جواب دیا۔

امان کھیتی کی تمام تر جمع پونجی اور زیورات لے کر گیا اور زمین کا سودا طے کر آیا۔ اب وہ زمین بھی آپ دونوں بھائی کاشت کریں تاکہ ہم مزید آگے بڑھ سکیں۔ امان نے مسرت بھرے لہجے میں شرفو سے کہا۔ شرفو نے بھی خوشی خوشی اس کی بات کو تسلیم کر لیا۔

تین سال شرفو نے کھیتوں میں خوب محنت کی اور کافی دولت جمع کر لی۔ اب والدین نے فیصلہ کیا کہ شرفو اور امان کی شادی کر دی جائے۔ دھوم دھام سے شرفو اور امان کی شادی کی گئی۔ شادی کے تین ماہ بعد ابا جی کا انتقال ہو گیا۔ آہستہ آہستہ گھر کے معاملات بدلنے شروع ہو گئے۔ مگر ماں کی موجودگی میں بھائیوں میں کوئی دراڑ پیدا نہ ہوئی۔ ابا کی رحلت کے 2 ماہ بعد ماں جی بھی دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔

ماں کی وفات کے دسویں روز بھائیوں میں معمولی سی تلخ کلامی ہوئی جس پر شرفو کو گاؤں کے شمال مغربی کونے میں ایک مکان دیا گیا جو کہ شرفو کے دادا کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ بعد میں میری شادی گاؤں میں ہی برادری کے ایک لڑکے کے ساتھ طے کر دی گئی۔

میری شادی کے چھ ماہ بعد کریم اور اکرم کو بھی بیاہ دیا گیا۔ میرا شروع سے ہی شرفو کے ساتھ دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ لگاؤ تھا تو میں شادی کے بعد زیادہ شرفو کے گھر ہی آتی جاتی تھی۔ مجھے اس کی یہ سزا ملی کہ مجھے خاندانی ورثے سے محروم کر دیا گیا۔

ہمارے باپ کی کل ملکیت پانچ ایکڑ زمین تھی اور ہم پانچ بہن بھائی اس کے وارث تھے۔ مگر بعد میں مشترکہ طور پر جو پندرہ ایکڑ زمین خریدی گئی وہ بھی شرفو اور اکرم کی کمائی سے خریدی گئی تھی۔ مگر ان پڑھ ہونے کی وجہ سے شرفو اور میں دونوں اپنے حق سے محروم رہ گئے۔ شرفو کو بھی فقط ایک ایکڑ زمین دی گئی۔ جب اس نے مشترکہ طور پر خریدی گئی زمین کا حصہ طلب کیا تو امان نے یہ کہتے ہوئے حصہ دینے سے انکار کر دیا کہ جو زمین باپ کے نام تھی اس میں سے باپ کے مرنے کے بعد جو زمین تمہارے نام ہوئی ہے وہ ہی تمہیں ملے گی۔ مگر جو پندرہ ایکڑ بعد میں خریدی گئی وہ بھی تو میری کمائی سے ہی خریدی گئی تھی۔ شرفو نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔ اس میں سے ایک ذرہ بھی ہم نے تمہارے نام نہیں کروایا تھا۔ امان نے سخت لہجے میں کہا۔

اتنے بڑے دھوکے سے شرفو کو شدید صدمہ پہنچا اور اس نے چند الفاظ کہہ کر گھر کی راہ لی واہ ”کیا خوب وفاؤں کا صلہ ہیں لوگ“ ۔ اس واقعہ کے بعد جب میں شرفو سے ملنے گئی تو اس نے مجھے سارا قصہ سنایا۔ رابعہ دراصل دکھ اس بات کا نہیں کہ مجھ سے میری زمین کا حصہ چھین لیا گیا، بلکہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں نے بڑا بھائی ہونے کے ناتے انہیں بچوں کی طرح پالا اور پڑھایا لکھایا اور انہوں نے میری وفاؤں کا یہ صلہ دیا۔ واہ قدرت کے فیصلے۔ شرفو نے نمناک آنکھوں سے کہا۔

بعد میں جب میں شرفو سے ملنے جاتی تو کبھی کبھار وہ وفا اور جفا کا یہ قصہ پھر شروع کر دیتا۔ میں اکتا کر کہتی کہ اب تو تم اپنے گھر خوش ہو ، ماشا اللہ دو بیٹے بھی ہیں اور گھر میں بھی اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اب اور کیا چاہیے؟ ہاں الحمدللہ سب کچھ ہے مگر جب تمہیں دیکھتا ہوں تو ماضی کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے اور تمہارے ساتھ یہ باتیں کر کے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں۔ شرفو نے اپنائیت کا احساس جتاتے ہوئے کہا۔

شرفو کے دونوں بیٹوں فیضی اور سکندر کی عمر میں لگ بھگ پانچ سال کا فرق تھا۔ سکندر فیضی سے پانچ سال بڑا تھا۔ سکندر نے جب سکول جانا شروع کیا تو شرفو نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ اب اس نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا کم کر دیا تھا۔ مگر میں جب بھی اس سے ملنے جاتی تو اس کے زخم پھر تازہ ہو جاتے۔

شرفو نے جاگیرداروں کے ہاں مزارع کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اس کے مالی حالات بہتر ہونے لگے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے مزارع کا کام چھوڑ کر ٹھیکے پہ زمینیں لینی شروع کر دیں۔

سکندر جب آٹھویں جماعت مکمل کر چکا تو اس نے مزید پڑھنے سے انکار کر دیا۔ شرفو نے اس کی بہت منت سماجت کی مگر اس نے یکسر انکار کر دیا۔ وہ سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا اور شام کو گھر آ جاتا۔ شرفو بھی شام کو اسے تھوڑا سا ڈانٹ ڈپٹ دیتا مگر کام کاج کے لیے پھر بھی نہ کہتا۔

سکندر کو جب سکول چھوڑے 2 سال گزر گئے تو اس کے چال چلن بدلنے لگے۔ شرفو نے معاملے کو بھانپ کر سکندر کی شادی کا فیصلہ کر لیا۔ چند ماہ بعد سکندر کی شادی کر دی گئی۔ شرفو کا خیال یہ تھا کہ اب تو سکندر آوارہ گردی نہیں کرے گا مگر یہ اس کی خام خیالی تھی کیوں کہ حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ سکندر کے چال چلن تو کچھ درست ہوئے مگر آوارہ گردی کی لت سے وہ مکمل طور پر چھٹکارا نہ پا سکا۔

فیضی اس وقت چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا۔ وہ اپنی پڑھائی نہایت توجہ سے کر رہا تھا۔ مگر دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ آگے نہ بڑھ سکا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت شرفو کے حالات تنزلی کا شکار تھے کیوں کہ سکندر اور اس کے بیوی بچوں کی ذمہ داری بھی شرفو کے کندھوں پر تھی۔ دس جماعتیں پاس کرنے کے بعد فیضی کو شہر میں ایک سرکاری دفتر میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ شرفو کو بھی اس معاملے پہ فیضی پر فخر محسوس ہوا۔

فیضی کی ملازمت کے چھ ماہ بعد فیضی کی بھی شادی کر دی گئی اور وہ اپنی بیوی کو لے کر شہر چلا گیا۔ اس کے شہر جانے کے بعد شرفو کو اس کی جدائی کا شدید احساس ہوتا تھا۔ وہ گاؤں کے ایک خواندہ نوجوان سے فیضی کو خط لکھا کرتا۔ کچھ عرصہ بعد عمر کی زیادتی کی وجہ سے شرفو کا جسم کمزور ہونا شروع ہو گیا اور وہ کھیتی باڑی کا کام چھوڑ کر گھر میں گوشہ نشین ہو گیا۔ سکندر کو مجبوراً کھیتی باڑی کا کاروبار سنبھالنا پڑا۔

فیضی ایک ماہ کے بعد شرفو سے ملنے کے لیے آتا اور اسی دن شام تک واپس شہر کی طرف لوٹ جاتا۔ بیٹا تم اتنے دنوں بعد آتے ہو تو تین چار دن کی چھٹی لے کر آیا کرو۔ شرفو نے فیضی سے کہا۔ ابا جی کام کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ دنوں کے لیے چھٹی نہیں ملتی۔ فیضی نے جواب دیا۔ آپ اگر میرے ساتھ چلیں تو میں وہاں آپ کے لیے اچھی رہائش کا بندو بست کرتا ہوں۔ فیضی نے باپ سے دریافت کیا۔ فیضی بیٹا اپنی مٹی کی خوشبو شہر میں نہیں ملتی اور میں اپنی مٹی چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ شرفو نے وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا۔

سکندر کی بیوی کو گھر میں فارغ بیٹھا شرفو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اس لیے سکندر نے فیضی کو کہہ کر شرفو کے لیے ایک ملازم رکھوا لیا جو شرفو کی دیکھ بھال پر معمور تھا۔

ایک دن سکندر شرفو کے کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ ابا جان ہم گاؤں سے شہر منتقل ہو رہے ہیں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ میں اپنے باپ دادا کا گاؤں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا اور تم شہر جا رہے ہو تو کھیتی باڑی کا کام کون سنبھالے گا؟ شرفو نے سخت لہجے میں کہا۔ ابا جی یہ باتیں آہستہ بھی ہو سکتی ہیں، لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے؟ سکندر نے ملتمس ہو کر کہا۔ کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ اپنے باپ دادا کا کام چھوڑ کر فیکٹریوں میں دھکے کھا رہے ہو۔ شرفو نے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔ ابا جی وہ ہماری اپنی فیکٹری ہے ہمارا اس میں آدھا حصہ ہے۔ ہم اسے نہیں سنبھالیں گے تو ہمیں کچھ حاصل بھی نہیں ہوگا۔ سکندر نے بات سمجھانے کی کوشش کی۔

سکندر میں پہلے بھی سوال کر چکا ہوں کے آپ سب لوگ شہر جا رہے ہیں تو ہمارے کھیتوں کی ذمہ داری کون لے گا؟ شرفو نے اپنا سوال دہرایا۔ ابا جی کھیتوں والی زمین ہم نے ہمسائیوں کو فروخت کر کے ہی تو فیکٹری میں حصہ ڈالا تھا۔ سکندر نے جواب دیا۔ تم نے میری زندگی کی جمع پونجی نیلام کر دی اور مجھے آگاہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ابا جی آپ نے بھی تو یہ اثاثہ ہمارے لیے ہی بنایا تھا اور ہم نے مناسب موقع جان کر فیصلہ کر لیا۔ سکندر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

شرفو کے کمرے سے نکل کر سکندر نے برآمدے میں کھڑے ہو کر ملازم کو آواز دی اور اسے کچھ نصیحت کر کے چلا گیا۔ ملازم جب کمرے میں داخل ہوا تو شرفو دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے گھٹنوں پر جھکا ہوا تھا۔ یہ گولی کھا لیجیے مالک تاکہ آپ کچھ آرام حاصل کر سکیں۔ ملازم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ شرفو نے گولی کھائی اور اسی طرح سر گھٹنوں پر جھکائے کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر چارپائی پر لیٹ گیا۔

کچھ دنوں بعد فیضی شرفو سے ملنے کے لیے آیا تو کمرے میں داخل ہوتے ہی شرفو نے فیضی کو سینے سے لگا کر کچھ دیر کے لیے جکڑے رکھا اور چند آنسو رخسار پر جم گئے۔ فیضی شرفو کے پاس ہی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ فیضی تم دونوں نے میرے ساتھ یہ دھوکا کیوں کیا؟ تم نے مجھے کسی مشورے میں شامل کیے بغیر کیسے اتنے بڑے فیصلے کر لیے؟ اس سے پہلے کہ فیضی کوئی بات کرتا ، شرفو نے کہا۔ ابا جان اس عمر میں اب آپ اللہ کی عبادت کریں۔ دنیا کے کام ہمارے ذمہ ہیں تو ہم خوش اسلوبی سے نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیضی نے معاملہ سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ بیٹا ”آپ بھی صاحب اولاد ہیں“ اس لیے ذرا ایک باپ کی حیثیت سے سوچ کر تو دیکھو پھر تمہیں میرے دکھ کا اندازہ ہو گا۔ شرفو نے کہا۔

بیٹا فیضی یہ دنیا مکافات کی جگہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کی اولادیں بھی وقت آنے پر آپ کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں جیسا آپ نے میرے ساتھ کیا۔ شرفو نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

ابا جی کوئی خیر کی دعا کیا کریں۔ فیضی نے چارپائی سے اوپر اٹھتے ہوئے کہا۔ شرفو نے ایک سرد آہ بھری اور پھر سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بیٹھ گیا۔ میں کرموں کو اپنے ساتھ لایا ہوں آج کے بعد وہ آپ کی دیکھ بھال کرے گا اور یہ ملازم میرے ساتھ شہر جائے گا۔ فیضی نے باپ کی طرف مڑ کر کہا اور چلا گیا۔ شرفو نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دی اور سر تھامے بیٹھا رہا۔

دوسرے روز جب کرموں دوپہر کا کھانا لے کر شرفو کے کمرے میں داخل ہوا تو شرفو وہا موجود نہیں تھا۔ وہ ٹھٹھک گیا اور کھانا چارپائی پر رکھ کر شرفو کو تلاش کرنے نکل پڑا۔ جب وہ شرفو کی تلاش میں گھومتا پھرتا گاؤں کے جنوب مشرقی کونے میں پہنچا تو وہا کھیت کی منڈیر پر بیٹھا شرفو کچی مٹی کے روڑوں سے جھولی بھرے نشانے بازی کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان دونوں باتوں کا ورد کر رہا تھا ”کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں لوگ“ ۔ ”تم بھی صاحب اولاد ہو“ دوسری بات قدرے دھیمی آواز میں کہتا۔

اس واقعہ کے بعد شرفو نے بس یہ ہی دو باتیں زبان پر جاری رکھیں۔ میں بھی کبھی کبھی شرفو کو ملنے جاتی تھی۔ اکثر اوقات تو وہ غنودگی کی حالت میں ہوتا اور میں اسے دیکھ کر ہی اس کی قسمت پر ملال کرتی رہتی اور اگر وہ غنودگی میں نہ بھی ہوتا تو مجھے دیکھ کر دو باتیں ہی دوہراتا رہتا ”کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں لوگ“ ۔ اور ”آپ بھی صاحب اولاد ہیں“ ۔

شرفو کی اس حالت کے بعد سکندر اور فیضی ہر ہفتے اس سے ملنے آتے۔ مگر وہ ہر دفعہ اسے اسی منڈیر پر سے اٹھا کر گھر لے جاتے جہاں وہ کچی مٹی سے کھیلتا خود کلامی میں مبتلا ہوتا تھا۔

بڑھیا کی زبانی شرفو کی زندگی کا تمام تر احوال سننے کے بعد میرے ذہن میں ابھی تک کوئی الجھن باقی تھی۔ وہ الجھن یہ تھی کہ آخر شرفو اس منڈیر پر ہی جا کر کیوں بیٹھتا تھا۔ اگر وہ ذہنی مریض تھا تو بھی وہ عین اسی جگہ پر کیوں بیٹھتا جہاں وہ پہلے دن بیٹھا تھا اور کیوں وہ صرف کچی مٹی کے روڑوں سے ہی کھیلتا تھا؟

میں نے یہ تمام سوالات بڑھیا کے سامنے رکھے تو اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”بیٹا یہ اسی کھیت کی منڈیر ہے جو شرفو کی ملکیت تھے اور اس کے بیٹوں نے فروخت کر دیے اور وہ مٹی کے روڑوں کا کھیل مٹی سے محبت کا اظہار تھا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments