کل، کل آئے گا


آخر کب تک ہم اس زندان کے اسیر رہیں گے جنہیں ہم زنداں ہی تصور نہیں کرتے۔ کب تک ایک عام آدمی کو یہ احساس ہو جائے گا کہ ہم ایک تاریخی دھوکے کی بنیاد پر جی رہے ہیں؟ اگر کوئی تھوڑا بہت سمجھانے کی کوشش کرے تو کس کس کو سمجھائے اور یقین دلائیں کہ ہم نا آشنا سمت جا رہے ہیں۔ اس زندان میں ہر شخص باشعور، با ضمیر، سمجھدار، پاکباز، ایمان دار اور پرہیز گار بھی ہے، لیکن بدقسمتی سے اپنے لئے نہیں، دوسروں کے لئے سب کچھ ہے اور دوسروں پر اپنی خدائی قائم رکھنے کی ناکام کوشش میں ہیں۔

جب تک زندان میں ہونے کا احساس نہ ہو تو آزادی کی طلب کیوں؟ اور کس سے؟ ہم نہ بول اور لکھ سکتے ہیں جو کہ ہم بولنا اور لکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ پھر اگر معاشرے کی سرعام برائی کے بارے میں لکھنے کی کوشش بھی کرے تو ہمیں مقدس الفاظ کا سہارا لینا ہو گا۔ کیا پتہ کہ ہم سے کئی مقدس مخلوق کی توہین نہ ہو جائے۔ پتہ ہے دقیانوسی خیالات کی سب سے بڑی خوش فہمی اور غلط فہمی کیا ہے کہ اس میں نئے خیالات کو قید رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ویسے تاریخ گواہ ہو گی اور زمانے یاد رکھے نگیں کہ ہم جیسے اچھوت اور ناپاک لوگوں نے ہمیشہ اس معیار کو چیلنج کیا ہے، جس کے بارے میں سوچنا کفر، بولنا غداری اور مخالف سمت پر انا قتل کے زمرے میں شامل ہے۔ وقت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ روکتا نہیں۔ زمانہ آئے گا کہ ہم اپنے کیے پر پشیمان ہونگے جیسا کہ ہم بہت کچھ کرنے پر ہیں۔ ایک دن یہ احساس چیخ چیخ کر بولے گا کہ بس بہت ہو گیا۔ اب ہمیں زندان سے رہائی چاہیے۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک نئی سوچ و فکر اور خیالات کا سورج طلوع ہو چکا ہے، جو رفتہ رفتہ اپنے ساتھ یہ پرانے مفروضے اپنے اندر سمٹ کر سارے زمانے کو روشن کر ان بے چارہ زندیانیوں کو شفاف آئینے کی طرح پیش پیش کرے گا کہ یہی آپ لوگوں کی زندان تھی، جس سے صدیوں سے آپ کو بے خبر رکھا گیا تھا۔ بہت سے فرضی خیالات کے مینار گر جائیں گے۔ بہت سے مفروضے ملیامیٹ ہو جائیں گے۔ ایک نیا معیار متعارف ہو جائے گا۔ روشنیاں چھا جائے گی۔

تاریکیاں ختم ہو جائے گی۔ محترم سے سوال کیا جائے کہ آپ کیوں محترم ہے اور اس کی دلیل و ثبوت کہاں سے آئی ہے؟ آپ مقدس کس بنا پر ہے اور ہم اچھوت کیوں؟ یہ معاشرتی معیار میں عدم انصاف کہاں سے آیا؟ انسان، انسان باقی رہے گا اور انسانیت اس کے مستقبل کا ضامن ہو گا۔ پھر اس دوران عام آدمی کو سوچنا ہو گا، اگر معاشرے کے لئے نہیں تو انھیں اپنی جان و مال کی حفاظت کی خاطر سوچنا ہو گا۔ جنون اور جذبے کو تحمل اور برداشت میں بدلنا ہوگا۔

یہ عام اور اتنا آساں عمل نہیں ہے۔ پہلے عام آدمی کو سوچنا ہو گا پھر کھول کے بولے گا۔ اور چیخ چیخ کے بولے گا۔ کیونکہ پھر اس سے اچھوت لوگوں کے برابری لانے کے تصور کا بھی سمجھ آ جائے گا۔ وہ پھر دوسرے کے محل سے زیادہ اپنی گھر کی فکر کرے گا۔ برابری عام ہو جائے گی۔ مقدس مخلوق کی دادا گیری اختتام کو ہیں۔ ذات اور تفریقیں ختم ہو جائے گی۔ عزت نفس کا بول بالا ہو جائے گا۔ مال مویشی کی طرح دوسروں کے نقش قدم پر نہیں چلنا پڑے گا۔

انسان کی شناخت اور تشخص اجاگر ہو جائے گا۔ مستقبل کا لالچ اور خوف کا خاتمہ ہو گا۔ حال پر یقین پیدا ہو جائے گا۔ عروج و زوال ہر شے کی ہوتی ہے۔ لہذا ابھی خیالاتی مفروضوں، معجزوں اور دقیانوسی خیالات کا زوال شروع ہو چکا ہے اور نئے تعلیمات تیزی سے اس کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بس تھوڑا وقت درکار ہے اور تھوڑا بہت صبر سے کام لینا ہے۔ عام آدمی کی کامیابی عنقریب ہے اور جلد ہی یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ ہم زنداں میں ہے۔

ایک بار احساس پیدا ہو جائے پھر آزادی کی جہدوجہد قابل قدر آساں رہے گا۔ بس ہم آگے روایتی جملے نہیں سننا چاہتے۔ جذبات کو ایک طرف رکھ کر سوچنے کا وقت ہے۔ بدقسمتی سے سوچنے کا دور بہت پہلے تھا، لیکن وہ جو کہتے ہیں نہ ”دیر آئے درست آئے“ ۔ امید کی ایک کرن نظر آئی ہے کہ چند قیدیوں نے زندان میں سرگوشی کرنے لگے ہیں۔ جس سے زندان کے رکھوالوں میں ایک خوف و ڈر اور بے چینی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ کہ نہ جانے یہ قیدی کیا کر بیٹھے؟

بہت ہی کم وقت میں یہ سرگوشیاں سمندر کی لہر کی طرح مقدس اور خیالاتی پاک مخلوق کے مد مقابل آئے گا۔ فضا میں ٹھنڈے ہوا کا جھونکا آیا ہے اور ایک پر کشش فضا بنتی جا رہی ہے۔ اس فضا میں بلبل یہ نغمے گا لیں گے۔ کہ تھوڑا آگے عام آدمی کے لئے خیر و عافیت ہیں۔ تھوڑا ہی سہی لیکن ہمارے اچھوت بھائیوں کو اس پر لطف اور سرور والی فضا کا دل کھول کر استقبال کرنا چاہیے۔ یقیناً آج کے اچھوت کل کے ہیروز ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments