فلسطینی سیاست، چند حقائق اور ممکنات


اپنے گزشتہ بلاگ میں اسرائیل اور فلسطینی کے درمیان عرصے سے سلگتی لڑائی میں حالیہ تیزی کے ممکنہ پس منظر بالخصوص فلسطینی عوامل پر بات کی تھی، آج ہم فلسطینی سیاست کے مختلف پہلووں کو زیر بحث لائیں گے۔ روایتی طور پر جب اس موضوع پر بات ہو تو یہ صرف مغربی کنارے میں موجود فلسطینی تنظیم پی ایل او (PLO) سے شروع ہو کر غزہ میں حماس تک جاتی ہے اور ان کے درمیان جاری چپقلش پر ختم ہو جاتی ہے، لیکن آج ہم اپنی بات اسرائیل میں موجود ان فلسطینیوں کے ذکر سے شروع کرتے ہیں جو کہ اسرائیل کی کل آبادی کا اکیس فیصد ہیں یعنی ہر پانچ اسرائیلی شہریوں میں سے ایک فلسطینی عرب ہے اور میڈیا میں حالیہ لڑائی تک ان کا ذکر تک نہیں ہوتا تھا، علاوہ ازیں بیت المقدس (Jerusalem ) بالخصوص اس کے مشرقی حصہ میں آباد فلسطینی عربوں کی آئینی حیثیت اور فلسطینی سیاسی تصویر میں ان کے حصے کو بھی اجاگر کریں گے۔

اسرائیل کی نوے لاکھ کی آبادی میں انیس لاکھ افراد کی شناخت عرب ہے جن میں سے تقریباً 83فیصد مسلمان اور باقی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسرائیلی کنیسٹ میں ان کی پندرہ نشستیں ہیں اور پچھلے تین الیکشن (جن میں کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ملی) آہستہ آہستہ ان پندرہ نشستوں کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ مارچ کے الیکشن کے بعد کوئی پارٹی بھی ان کے بغیر حکومت نہ بنا سکتی اور ”یونائٹیڈ عرب لسٹ“ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اور اس بلاگ کی اشاعت تک عین ممکن ہے کہ نئی اسرائیلی مخلوط حکومت کا حصہ بن چکی ہو۔

اس الیکشن سے ہٹ کر اگر اسرائیلی عرب کمیونٹی کا مطالعہ کیا جائے اور بالخصوص سوشل میڈیا پر تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اسرائیل کی مسلسل ایسی پالیسیوں کے بعد ، جن کے ذریعے اس کمیونٹی کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دی گئی، صورت حال اس تک پہنچ گئی کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی شہروں میں اس کے یہودی اور عرب شہریوں میں پر تشدد جھڑپیں پھوٹ پڑیں جو جنگل کی آگ کی سی تیزی سے شہروں اور قصبوں میں پھیل گیں اور اسرائیلی سوسائٹی کی بظاہر پرامن سطح کے نیچے بے چینی کی لہریں موج زن ہیں۔

سوسائٹی میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ کیوں شہری ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ سوال کسی عرب سے کر رہیں ہیں کہ یہودی شہری سے۔ بیت المقدس میں حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات سے یک جہتی کا اظہار دوسرے فلسطینی آبادیوں میں پھیل گیا اور اس پھیلاؤ میں اصل کردار نوجوانوں کا ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے خود بخود آرگنائز ہو گئے۔ احتجاج کی اس لہر کی ایک سب سے اہم بات سیاسی پارٹیوں کی لاتعلقی ہے۔

اسرائیلی عربوں کے مظاہرے دراصل اس کمیونٹی میں مایوسی کی ایک طویل تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر بڑے تناظر میں دیکھیں تو اسرائیلی عرب اپنے آپ کو امریکی سیاہ فام لوگوں جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ دونوں گروپس اپنی اپنی قوم سے شناخت میں مشکل پاتے ہیں اور سماجی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر پسماندگی کا شکار ہونے کہ ساتھ ساتھ اس احساس کا بھی شکار ہیں کہ قومی سطح پر ان کی آواز کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن اس اقتصادی اور سماجی پسماندگی کی بڑی وجہ ان کی سیاسی بے بسی ہے۔

(Israel Democracy institute) کی 2015 کی رپورٹ (Anti۔ Democratic Legislation in the 18 th Knesset 2009۔ 2013 ) کے مطابق پچھلے کچھ عرصے میں ایسے قوانین پاس ہوئے جن کا اثر اسرائیلی عرب اقلیت پر برا راست پڑا، اور قانون سازی کے اس عمل کی انتہا سنہ 2018 کا ”nation state law“ تھا جس کے مطابق اسرائیل میں حق خود ارادیت ”self determination“ کا اختیار صرف یہودیوں کے پاس ہے۔ اس قانون کا ایک براہ راست اثر عرب اسرائیلی قضیہ کے دو ریاستی حل ”two۔

state solution“ پر پڑا۔ اس قانون کی بین الاقوامی سطح پر مذمت بھی ہوئی اور اس کو ”Aparthied“ سے بھی تشبیہ دی گئی، لیکن اسرائیلی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسرائیل میں یہودی شہریوں اور فلسطینی شہریوں میں شدت اختیار کرتی حالیہ جھڑپوں پر ملکی اور بین الاقوامی تجزیہ نگاروں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی شہریوں میں موجود بقائے باہمی (coexistence) کے اصولوں کو بکھرنے پر دکھ کا اظہار کیا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی پرامن فضا تو کبھی موجود ہی نہیں تھی۔

سوسائٹی میں شہریوں میں باہمی امن و محبت کی فضا کے لیے ضروری ہے کہ وہاں مساوی حقوق، آزادی اور باہمی احترام کے اصول رائج ہوں۔ اسرائیل کی حد تک (coexistance) تو صرف ایک افسانے کی حیثیت رکھتی جس نے علیحدہ اور غیر مساوی زندگی کو اپنی سطح کے نیچے چھپایا ہوا ہے۔ اسرائیلی یہودی اور عرب شہریوں میں موجود تفریق زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے، اسرائیل کا سیاسی اور قانونی نظام بنیادی طور پر غیر مساوی ہے، جو کہ بنیادی انسانی حقوق پر ہی اپنے شہریوں میں تفریق کرتا ہے اور جہاں کی عدالتیں ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے یہودی شہریوں کو فلسطینیوں پر ترجیح دیتی ہیں اور کئی دہائیوں پر محیط عرصے میں، جب آہستہ آہستہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ ہو یا ان کے گھر گرانے ہوں، ان کو قید کی سزا سنانی ہو یہ تعلیم، ملازمت اور دوسرے مواقع کی غیر فراہمی ہو، فلسطینی آبادیوں کی حیثیت ہمارے ہاں کی کچی آبادیوں جیسی بن چکی ہے۔

اور آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر چہ فلسطینی اسرائیل کی آبادی کا بیس فیصد ہیں لیکن جیلوں میں ان کا تناسب پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ فلسطینی استحصال کی یہ کہانی طویل ہے اور اس کے خلاف ان کا احتجاج بھی اتنا ہی پرانا ہے لیکن یاد رہے کہ ہر ایسا احتجاج ریاستی جبر کی نئی کہانی بھی رقم کرتا ہے جو کہ آج سے پہلے انٹرنیشنل میڈیا پر نہیں آتی تھا لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں اسرائیلی شہروں سے ایسی بہت سی وڈیوز منظر عام پر آ گئی ہیں جو حکومتی پروپیگنڈا سے بالکل مختلف تصویر دکھاتی ہیں۔

ان میں پولیس اور یہودی آباد کاروں کا دن دھاڑے تشدد صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فلسطینی شہریوں کے لیے ان آباد کاروں کے ”عربوں کے لیے موت“ کا نعرہ کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ یہ تو اسرائیلی فٹبال اسٹیڈیمز میں ایک عام حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس تناظر میں مشرقی یروشلم کے علا قے شیخ جارہ میں اسرائیلی پالیسیوں اور غزہ میں اس کی وحشیانہ بمباری پر اسرائیلی فلسطینی شہریوں کا احتجاج دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ وہ فلسطینیوں پر مسلط استعماری نظام کی مختلف شکلوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے لیکن یاد رہے کہ پی ایل لو (PLO) جو کسی زمانے میں تمام فلسطینیوں کی نمائندگی کا دعوی کرتی تھی اب ان فلسطینیوں کی حالت زار سے بالکل لاتعلق ہوچکی ہے لیکن اس پر بات ذرا ٹھر کے۔

اب ہم آتے ہیں مغربی کنارے میں آباد فلسطینی عوام اور ان کی جدوجہد اور سیاسی اداروں کی جانب، یہ علاقہ 1948 کی لڑائی میں اردن آ گیا تھا جس نے اس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا لیکن 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1990 کی دہائی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان ہونے والے اوسلو معاہدے کے تحت اس علاقے کو ایسے گنجلک انتظامی اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ علاقے پر اسرائیل کا براہ راست انتظامی اور فوجی کنٹرول تسلیم کیا گیا (اس علاقے کو ایریا سی بھی کہتے ہیں ) ۔

مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی آبادی چھبیس اور ستائیس لاکھ کے آس پاس تسلیم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ چار لاکھ سے زائد یہودی آباد کار نئی آباد کردہ بستیوں میں رہتے ہیں اگرچہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ بستیاں غیر قانونی ہیں۔ اس علاقے کے زیادہ حصے پر اسرائیل کا براہ راست کنٹرول ہے اور صرف 42 فیصد پر کچھ حد تک الفتح کے زیر اثر فلسطینی اتھارٹی، کا اختیار ہے جو کہ اپنے علاقے میں امن اور دوسری شیری سہولیات کی ذمہ دار ہے۔

اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کی رٹ مغربی کنارے کے علاوہ غزہ تک پھیل گئی جب اسرائیل نے 2005 میں وہاں سے اپنے فوجی واپس بلا لیے۔ اوسلو معاہدے کا بنیادی نقطہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام تھا لیکن موجودہ صورت حال میں تو اب یہ ایک خواب ہی نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام ایک عبوری عمل تھا لیکن پچھلے تیس سال کے عرصے میں پی ایل او (PLO) ، جو کبھی تمام فلسطینی عوام کی ترجمان سمجھی جاتی تھی، اب مغربی کنارے کے چند شہروں اور قصبوں پر اسرائیلی سرپرستی میں ایک مقامی حکومت بن کر رہ گئی ہے جس کی ایک بڑی ذمہ داری اپنے زیر انتظام علاقوں میں امن و اماں قائم رکھنا ہے جبکہ اس دوران بتدریج اسرائیلی شکنجہ آہستہ آہستہ اس کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پی ایل او اور فلسطینی عوام کے درمیان تعلق، جو کبھی انتہائی گہرا اور قریبی تھا، اب اس میں ایک خلیج نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔

پی ایل او کے قومی چارٹر کے آرٹیکل 11 کے مطابق فلسطین کے تین نعرے تھے، 1) قومی وحدت (national unity) ، 2) قومی تحریک (national mobilisation) ، 3) آزادی (libration) لیکن ان بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے 1988 میں پالیسی کا رخ ”دو ریاست“ کے قیام (two nation solution) کی طرف ہو گیا۔ پالیسی میں اس تبدیلی کے تحت توجہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی مرکوز ہو گئی اور اس کا تعلق فلسطینی مہاجرین اور دوسرے ممالک میں آباد فلسطینیوں سے کمزور پڑنا شروع ہو گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ اگرچہ فلسطینی اتھارٹی کی ملکیت بھی اس کو مل گئی لیکن اس کے اندر فیصلہ سازی کا طریقہ کار وہی پرانا رہا اور پی ایل او میں پہلے سے حاوی الفتح اور دوسری تنظیموں میں اختیارات کے لیے رساکشی شروع ہو گئی، اس صورت حال کو 2005 میں قاہرہ میں بارہ دھڑوں میں ہونے والے سمجھوتے کو ”اعلان قاہرہ“ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پالیسی میں تبدیلی کا تیسرا بڑا اثر یہ ہوا کہ قومی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے لیے فلسطینی عوام کو متحرک رکھنے کی کوششیں ترک کر کے ریاست کے فیاض پر توجہ مرکوز کر دی گئی۔

اب آتے ہیں فلسطینی انتخابات کی غیر معینہ مدت کے لیے معطلی کا اعلان جو 29 اپریل کو 85 سالہ فلسطینی صدر محمود عباس نے کیا۔ یہ الیکشن 22 مئی کو ہونا تھے۔ یاد رہے کہ آخری بار الیکشن سنہ 2006 میں کرائے گئے تھے جس کہ نتیجے میں حماس غزہ میں برسر اقتدار آ گئی تھی۔ اس دوران فلسطینی اتھارٹی کے کسی ادارے یا فلسطینی قومی تحریک کی دعویدار تنظیموں میں پچھلے 15 سال سے کوئی الیکشن نہیں ہوئے۔ اس کہ نتیجے میں یہ ادارے شخصیات کی باہمی رسہ کشی (اس کی تفصیل کا یہ بلاگ متحمل نہیں ) اور دھڑا بلندیوں کے نتیجے میں زمینی حقائق دور اور عوام بالخصوص نوجوان نسل کے لیے بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔ معطلی کی بظاہر وجہ اسرائیل کا مشرقی یروشلم میں الیکشن کی اجازت دینے سے انکار بیان کیا گیا ہے ، لیکن اندرونی عوامل بھی کچھ کم نہیں۔

اب ہم آتے ہیں غزہ کی پٹی کی طرف جس کو دنیا میں سب سے بڑی کھلی جیل (open prison) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پہلے غزہ کے بارے میں چند بنیادی معلومات تاکہ قارئین کو موجودہ صورت حال سمجھنے میں آسانی ہو۔ تاریخ کی تفصیل میں جائے بغیر یہ سمجھ لیں کہ غزہ کی پٹی کے نام سے جانے والا یہ علاقہ درحقیقت بھی ایک زمینی پٹی ہی ہے جو تقریباً 40 کلومیٹر لمبی اور 4۔ 6 کلومیٹر چوڑی ہے اور اس کی موجودہ حد بندی 24جنوری 1948 کو مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے میں طے پائی اور 1967 کی عرب اسرائیل جنگ تک مصر کے فوجی کنٹرول میں رہی (سوائے کچھ عرصہ1956 میں جب اسرائیل نے قبضہ کر لیا) ۔

اگرچہ زیادہ تر آبادی ان فلسطینی مہاجرین پر مشتمل تھی جنہیں 1948 میں اسرائیل کے قیام پر اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا لیکن نا تو مصری حکومت نے ان کو اپنی شہریت کے قابل سمجھا اور نہ ہی ان کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ کسی اور عرب ملک میں پناہ لے سکیں۔ اسرائیل نے بھی ان کو واپس اپنے گھر آنے کی اجازت سے انکار کر دیا اور نہ ان کو اس سلسلے میں کوئی معاوضہ ملا کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں۔ 1957 کی عرب اسرائیل جنگ میں اس علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا جو کے اگلی ایک چوتھائی صدی تک جاری رہا اور صرف 1994 میں اوسلو معاہدے کے تحت اس کا انتظام قائم ہونے والی فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کیا اگرچہ فوجی موجودگی برقرار رکھی اور صرف 2005 میں اسرائیل نے اس علاقے سے اپنا فوجی انخلاء مکمل کیا لیکن سرحدی اور فضائی کنٹرول اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔

اس دوران انتہائی خراب معیشت، اسرائیل سے مذاکرات میں کسی پیش رفت میں ناکامی نے مقامی آبادی ہی میں سے نئی مزاحمت کار تنظیمیں پیدا کیں جو حماس اور اسلامک جہاد کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے جہاں ایک طرف اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی پالیسی اپنائی، وہیں متحدہ فلسطینی جدوجہد کے حوالے سے پی ایل او کے دعوے کو شدید نقصان پہنچایا، 2006 میں ہونے والے پہلے ہی فلسطینی انتخابات میں غزہ کے علاقے میں اکثریت حاصل کر لی۔

بجائے اس کہ الیکشن میں کے نتائج کو مانتے ہوئے صورت حال کا کوئی سیاسی حل نکالا جاتا، اسرائیل، امریکہ اور یورپین یونین نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اس طرح ایک متحدہ فلسطینی قیادت جو اب تک سارے علاقے اور عوام کی نمائندگی کرتی تھی اب تقسیم ہو گئی، الفتح مغربی کنارے تک محدود ہو کر رہ گئی اور غزہ پر حماس کا کنٹرول مستحکم ہو گیا، اس صورت حال کو بہتر بنانے کی مسلسل فلسطینی کوششیں ابھی تک بار آور نہ ہو سکیں۔

اس ساری کشمکش کی قیمت غزہ میں رہنے والے ادا کر رہے ہیں کیونکہ سنہ 2007 سے اب تک جہاں ایک طرف اسرائیل نے سرحدی محاصرہ انتہائی سخت کر دیا وہیں مصر نے بھی اپنی تقریباً گیارہ کلومیٹر طویل سر حد بند کر دی، جو کی کبھی کبھار عوامی دباو کے تحت کبھی کھلتی اور بند ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل زمینی، فضائی اور بحری ناکابندی نے شہریوں کی بنیادی انسانی ضرورتوں تاک رسائی انتہائی مشکل بنا دی ہے مثلاً 95 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں، بجلی کی سپلائی جس پر اسرائیل کا کنٹرول ہے اور تقریباً 5000 سے زائد آبادی فی کلومیٹر کے حساب سے دنیا کے اس گنجان ترین علاقہ میں بے روزگاری کی شرح انتہائی زیادہ ہونے کی وجہ سے تقریباً اسی فیصد سے زیادہ آبادی کی بنیادی ضروریات کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔ اب آپ غزہ کی جیل سے تشبیہ کی حقیقت سے واقف ہو گئے ہوں گے۔

اس سارے تناظر میں ایک اور اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا ہو گا اور وہ فلسطینی علاقوں میں قدرتی وسائل بالخصوص پانی اور تیل اور گیس کی فراوانی۔ مغربی کنارے میں کی گئی علاقائی تقسیم میں پانی کی فراہمی ایک بنیادی عنصر ہے اور غزہ کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہی کہ اس کی ساحلی پٹی اور پانیوں میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جن پر اسرائیلی قبضہ تو ہے ہی لیکن حالیہ رپورٹوں کے مطابق علاقائی عرب ممالک اس میں حصہ وصول کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ان ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس اور تیل کو یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے پائپ لائن بچھانے کے لیے پات کے ادوار پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں۔

اگرچہ فلسطینی سیاست اور اس پر اثرانداز ہو نے والے اندرونی اور بیرونی عوامل، موجودہ منقسم فلسطینی قیادت کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں لیکن اپنی بہتر سالہ جدوجہد میں فلسطین لوگوں کی بہت سی روشن مثالیں موجود ہیں جو ان کی ہمت و حوصلے کی شاہد ہیں، مثلاً 1936۔ 1939 کے درمیان برٹش مین ڈیٹ کے خلاف تحریک، بے سروسامانی میں پی ایل او کا قیام اور بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوانا، 1978 میں پہلا انتفاضہ وغیرہ۔ یہ مثالیں فلسطینی عوام بالخصوص نئی نسل کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتی ہیں لیکن ان کو اپنے تخیل کو بلند کرنا ہوگا تاکہ وہ ان استعماری ہتھکنڈوں کو سمجھ سکیں جس نے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔

اس بلاگ کی تیاری میں متعدد ذرائع سے مدد لی گئی ہے جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، الشب کا کہ (a Palestinian policy network) ، الجزیرہ رپورٹس، Haaretz، Guardian، independent، Jewish Currents، اور دوسرے شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments