عوام کے دن پھرتے ہی نہیں


حکومت نے پچھلے تین برسوں میں عوام کا خیال خوب رکھا ہے کہ آئی ایم ایف کی قسطیں ادا کرنے کے لئے ان پر ٹیکسوں کی یلغار کر دی جس سے ہر طرف آہیں اور سسکیاں بلند ہونے لگیں۔

مہنگائی آکاس بیل کی مانند بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے انتظامی معاملات ویسے تو کبھی بھی بہتر نہیں ہوئے مگر موجودہ حکومت میں تو بد انتظامی کا ریکارڈ قائم ہو گیا اگرچہ یہ تاثر بھی عام ہے کہ عمران خان کی تبدیلی کا راستہ روکنے کے لئے مافیاز اس کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں مگر حکومت اپنے اختیارات بروئے کار نہیں لا رہی جس کے نتیجے میں ملک میں افراتفری نے جنم لے لیا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دو برسوں میں حکومت عوامی خدمات کا سلسلہ شروع کرنے جا رہی ہے مگر یہ بھی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے دیکھی ان دیکھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس کے سیاسی حریفوں کے مطابق اگر وہ عوام کو چند ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتی ہے لہذا اسے ہر طرح سے پریشان کیا جائے۔

حالیہ ایوان زیریں میں حزب اختلاف نے بجٹ کی آڑ میں جس سے متعلق اس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اسے پاس نہیں ہونے دے گی جو ماحول بنایا ہے کو اسی تناظر میں دیکھا جائے جبکہ حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ضمنی بجٹ بھی نہیں آئے گا۔

بہرحال یہ طے ہے کہ حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار ان دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں کہ قومی سرمایہ خورد برد کرنے والے ادھر بھی ہیں ہیں اور ادھر بھی۔ یہ بات اب تک کے سکینڈل ثابت کرتے ہیں کہ فریقین ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ان سب کی اپنی اپنی سیاسی دکانیں ہیں جنہیں چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی نیا انداز اختیار کیا جاتا ہے عوام بے چارے ایک نئی آس لے کر ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا شروع کر دیتے ہیں اس سے انہیں ملتا کچھ بھی نہیں مل بھی نہیں سکتا کہ یہ صرف اور صرف اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں جسے وہ مسلسل بھر رہے ہیں انہیں اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ان کے سارے ”جھاکے“ ختم ہو چکے ہیں۔

یہ جو لڑائی جھگڑے نظر آتے ہیں لوگوں کے لئے نہیں اپنے لئے ہیں کہ ایک طویل مدت کے لئے ریاستی اختیارات اپنے پاس رکھنے کا خواہاں ہے تو دوسرا اس سے چھین لینا چاہتا ہے تاکہ اپنی دولت میں مزید اضافہ کر سکے اور جو اب تک اپنی تجوریوں میں ٹھونس چکا ہے اسے محفوظ بنایا جا سکے یوں ان سب کی ایک ہی سوچ ہے اس میں شک کی گنجائش اس لیے بھی نہیں رہی کہ فریقین کے خلاف کیسوں پے کیس درج ہو رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ انہیں کچھ ہوتا نہیں بس چند ماہ جیل یاترا کرتے ہیں پھر باہر آ جاتے ہیں اور ہیرو کے طور سے خود کو پیش کرتے ہیں قومی سرمایہ جو اینٹھ لیا ہوتا ہے ان کے ہی پاس رہتا ہے جس سے وہ خوب عیش کرتے ہیں ان کی اولادیں بھی موج کرتی ہیں لہذا عوام کو ان سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتوں سے ہم کنار کریں گے میں اوپر بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہاں عالمی مالیاتی اداروں کی چلتی ہے ان کا ہی وزیر خزانہ ہوتا ہے اور ان کے ہی مشیر ہوتے ہیں یہ حکمران ایک طرح سے ان کے معاشی معاون کے طور سے کام کرتے ہیں جس کا فائدہ انہیں ہی پہنچتا ہے عوام کسی کے نزدیک اہم نہیں ہوتے لہذا وہ خوشحال بھی کیسے ہوں گے اس تجزیے کے بیان کا مطلب یہ نہیں کہ حکمران بالکل ہی اپنے مرضی نہیں کر سکتے ’تھوڑی بہت کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے اپنے مفاد کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے لہذا عوام سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے کہ ان کا کیا ہے ایسے تیسے گزارا کر ہی لیں گے۔

خیر یہاں میں اس امر کی وضاحت کردوں کہ سیاستدانوں پر تنقید کا مقصد ان کو وہ نعرے اور وعدے یاد دلانا ہے جو وہ اقتدار میں آنے سے پہلے لگاتے ہیں اور کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب وہ ناکام ہوتے ہیں تو لوگ کسی دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں لہذا وہ چوہتر برس کے بعد بھی روایتی طرز سیاست و عمل کو جاری رکھتے ہیں تو کسی ”بڑی“ تبدیلی کو آنے سے نہیں روکا جاسکتا اگرچہ معاشی جکڑ بندیوں نے عوام کو نڈھال کر رکھا ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ یکایک جسموں میں توانائی آجاتی ہے پھر ہر طرح کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور زنجیریں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں شاید اب وہ وقت قریب آ گیا ہے کیونکہ لوگوں کو یہ اشرافیہ انسان ماننے سے انکاری ہے انہیں ڈرا دھمکا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے جو عین ممکن ہے آئندہ نہ ہو سکے کیونکہ عوام کا مزاج تبدیل ہو رہا ہے لہذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرے معیشت کو کمزور کرنے والوں کو قانون کے تحت روکے اور احتساب کی شفافیت کو یقینی بنائے۔ یہ درست ہے کہ ہمارا عدالتی نظام پرانا ہے اس میں

بعض خامیاں ہیں کہ طاقتور آسانی سے رہا ہو جاتے ہیں اور نحیف و نزار سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ آخر کب تک ایسے چلے گا کہ اشرافیہ لوٹ مار میں مصروف رہے اور بے بس عوام اسے دیکھتے رہیں وہ اسی دولت سے محل تعمیر اور وسیع کاروبار کرے مگر وہ کچھ نہ کر پائیں کیا وہ محض نعرے لگانے کے لئے رہ گئے ہیں اور ووٹ دے کر ملکی خزانہ لٹتا دیکھنے کے لئے زندہ رہیں اس سیاسی منظر نامے کو بدلنا ہے

حد ہو گئی ہے کہ اربوں کھربوں ہتھیانے والے آزاد گھومیں پر آسائش زندگی بسر کریں مگر محنت مزدوری کرنے والے یونہی تڑپ تڑپ کر جئیں یہ نہیں ہو گا اگرچہ عمران خان سے اب بھی بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ اگلے دو برس اقتدار میں رہتے ہیں تو زیادہ نہیں تو تھوڑی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے بالخصوص بیرون ملک رہنے والوں کا یہی خیال ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے بہتر کوئی حکمران نظر نہیں آ رہا وہ دیانت دار ہیں مخلص ہیں اور بد عنوانی کے خلاف ہیں وہ اس نظام کو بدل سکتے ہیں مگر ان کے چند ساتھی اور مافیاز ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں انہیں موجودہ صورت حال ہی وارے میں ہے ان سب سے عمران خان کو رخ موڑ لینا چاہیے تاکہ ان کا خواب پورا ہو سکے اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ انگلی باری عمران خان کی ہی ہے مگر وہ موجودہ کابینہ کے ساتھ سرخرو نہیں ہو سکتے پھر انہیں خود پر بھی کچھ پابندیاں عائد کرنا ہوں گی یہ تو ہے ایک خواہش ایک قیاس ’کہنے والے کہتے ہیں کہ ان سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا لہذا وہ آئندہ حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھیں گے۔

حرف آخر یہ کہ ایک غیر یقینی کی فضا قائم ہو چکی ہے مگر عوامی نمائندے اس سے بے خبر ہیں انہیں عالمی سیاست کا بھی ادراک نہیں جو اس خطے میں کوئی نیا کھیل کھیلنے جا رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments