ماڈل ٹاؤن واقعے کے سات برس: متاثرین کے دُکھ اور ناختم ہونے والی تحقیقات

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو لاہور


تحریک

سات برس قبل 17 جون کے دن بسمہ امجد کی والدہ کو گذشتہ رات میں شروع ہونے والی پولیس کی کارروائی کی اطلاع مل چکی تھی۔ وہ صبح نو بجے کے لگ بھگ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع اپنی تنظیم کے دفتر پہنچیں۔

وہاں سے وہ قریب ہی واقع تحریکِ منہاج القران اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پہنچیں۔ بسمہ امجد اور ان کی ایک پھپھو بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ بسمہ کی عمر اس وقت 13 برس کے قریب تھی۔

تنظیم کی دیگر خواتین کے ہمراہ بسمہ کی والدہ بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے پر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کھڑی ہو گئیں تاکہ پولیس اندر نہ جا سکے۔ گذشتہ رات ہی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان اور پولیس کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں شروع ہو چکی تھیں۔

پولیس تحریکِ منہاج القران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے رکھی گئی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے پہنچی تھی جو ان کے مطابق تجاوزات کی مد میں آتی تھیں۔ پولیس کے مطابق تنظیم کے کارکنان کی طرف سے پولیس کو مزاہمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہی جھڑپوں کی وجہ بنی۔

اس وقت تک پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی تھی تاہم بسمہ کے مطابق صبح ایک مرتبہ پھر شروع ہونے والی جھڑپوں میں پولیس کی طرف سے شدت دیکھنے میں آئی۔

’میں اپنی والدہ کے ساتھ ہی کھڑی تھی جب گولیاں چلنے کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ میری والدہ کے چہرے پر گولی آ کر لگی۔ اس کے ساتھ ہی ایک گولی پاس کھڑی میری پھپھو کے سینے میں لگی۔‘

بسمہ کو یاد ہے کہ اس سے قبل آنسو گیس کے کئی گولے بھی برسائے گئے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا گیا۔ ’ہسپتال پہنچنے تک وہ سانسیں لے رہی تھی مگر ہسپتال پہنچنے پر اُن کا دم نکل گیا۔‘

بسمہ امجد

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت بسمہ کی عمر 13 برس کے قریب تھی

بسمہ کی پھپھو بھی دم توڑ چکی تھیں۔ 13 برس کی بسمہ اس وقت یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ پولیس نے ان کی والدہ اور پھوپھی پر گولیاں کیوں چلائیں تھیں۔ گذشتہ سات برس میں وہ اپنی والدہ کے لیے انصاف لینے کے لیے کئی احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے لے کر کئی عدالتوں میں جا چکی ہیں۔

انھیں آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل پایا۔ مگر وہ اکیلی نہیں ہیں۔ لاہور ہی کے رہائشی محمد اویس بھی ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے اس روز جھڑپوں میں اپنے پیارے کھوئے۔ وہ ان دنوں تنظیم کے سیکریٹریٹ میں تعلیم کی غرض سے موجود تھے۔

ایسا لگتا تھا جسم پر سے جلد جل رہی ہو

دیگر کارکنان کے ہمراہ محمد اویس بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے آن پہنچے تھے۔ محمد اویس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس روز پولیس کا انداز ابتدا ہی سے جارحانہ تھا۔

’ایسا لگتا تھا کہ رکاوٹیں ہٹانے کا محض بہانہ تھا۔ وہ کسی اور ہی ارادے سے آئے تھے۔ پولیس نے جب دھاوا بولا تو اس سے قبل اتنی زیادہ آنسو گیس برسائی گئی کہ مجھے ایسے لگا جیسے جسم پر سے جلد جل رہی ہو۔‘

آنسو گیس کی اسی شیلنگ کے دوران ایک گولہ ان کے قریب آ کر گرا تھا اور زیادہ آنسو گیس سانس کے ذریعے اندر جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ بے ہوش ہونے سے قبل وہ پاس ہی کھڑے اپنے بڑے بھائی عاصم حسین سے بات کر رہے تھے۔

کچھ دیر بعد ہی جب انھیں ہوش آیا تو وہ سیکریٹریٹ کی عمارت کے اندر والے حصے میں تھے۔ ان کے ساتھی انھیں اٹھا کر وہاں لائے تھے۔ انھوں نے اپنے دوستوں سے اپنے بھائی کے بارے میں دریافت کیا۔ اس وقت انھیں خبر دی گئی کہ ان کے بھائی کے سینے میں گولی لگی تھی اور وہ ہلاک ہو گئے۔

محمد اویس کہتے ہیں ’میرے لیے وہ دن قیامت کا دن تھا۔ میرا بھائی صرف بھائی نہیں بلکہ میرا دوست بھی تھا۔‘

محمد اویس کے والد معراج دین کو بھی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ ان کی جان بچ گئی لیکن گذشتہ سات برس سے وہ بستر پر ہیں اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔

محمد اویس بھی گذشتہ سات برس سے اپنے بھائی اور والد کے لیے انصاف کے متلاشی ہیں۔

محمد اویس

محمد اویس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اپنے بڑے بھائی کو کھویا جبکہ ان کے والد کو ٹانگ میں گولی لگی جس کے بعد سے وہ اب تک چلنے پھرنے سے قاصر ہیں

میں نے اپنے سامنے تین چار ساتھیوں کو مرتے دیکھا

محمد اویس نے رات گئے ہی سے پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں دیکھی تھیں تاہم انھیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ پولیس مظاہرین پر گولیاں چلائے گی۔

انھیں یاد ہے کہ گذشتہ رات دو بجے کے لگ بھگ شروع ہونے والا پولیس کا آپریشن اگلے روز دن دو بجے تک جاری رہا تھا۔ اس دوران کچھ وقت کے لیے پاکستان عوامی تحریک کے قائدین اور پولیس کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے لیکن اس کے بعد پولیس کی کارروائی دوبارہ شروع ہو گئی۔

محمد اویس نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ساتھیوں کا گولیاں لگتے دیکھیں۔

’ایک شخص میرے پاس ہی کھڑا تھا جب اس کو گولی لگی۔ کسی کو ٹانگ میں تو کسی کو بازو میں گولی لگی۔ میں نے اپنے سامنے تین سے چار ساتھیوں کو مرتے دیکھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار مرد اور عورت کی تفریق کیے بغیر لاٹھی چارج بھی کر رہے تھے اور کئی کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

محمد اویس کے مطابق ’پولیس نے جب دن کے وقت مزید نفری پہنچنے کے بعد دھاوا بولا تو سیدھے فائر کیے گئے۔ وہ عمارتوں ہر بھی فائر کر رہے تھے۔ ہمارے بہت سے ساتھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔‘

ان گولیوں کے نشان آج بھی موجود ہیں

تحریکِ منہاج القران کے ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری محمد طیب ضیا کے مطابق ایک موقع پر پولیس نے اُن کے سیکریٹریٹ کا گیٹ کھول کر عمارت پر سیدھے فائرنگ کی جو کئی منٹ تک جاری رہی۔

’ان گولیوں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ ہمارے دفاتر میں بیٹھے لوگ زخمی ہوئے اور ساتھ ہی بنی ’گوشہ درود‘ کی عمارت کے اندر لوگ موجود تھے انھیں بھی گولیاں لگیں۔‘

پولیس کی طرف سے فائرنگ کا یہ واقعہ مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی دکھایا گیا تھا۔

محمد طیب ضیا نے بتایا کہ دن دو بجے کے لگ بھگ پولیس نے آپریشن ختم کیا اور اس سے قبل ان کی تنظیم کے 14 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہو چکے تھے۔

اس واقعے کا پس منظر کیا تھا؟

ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے اس واقعے کے بعد اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صوبائی حکومت نے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا۔

تاہم پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے شہباز شریف اور اس وقت کے پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف سمیت پنجاب پولیس کے سینیئر افسران کے خلاف قتل کے مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ طاہر القادری اس سے قبل جنوری سنہ 2013 میں ایک ’انقلاب ریلی‘ کی قیادت کرتے ہوئے سینکڑوں کارکنان کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انھوں نے ڈی چوک میں کئی روز تک دھرنا دیا تھا۔

تاہم اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد وہ پُرامن طریقے سے منتشر ہو گئے تھے۔ اسی برس عام انتخابات کے بعد مرکز اور صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت آ گئی تھی۔

اگلے برس ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ’نظام کے خلاف انقلابی مارچ‘ کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس سے ایک ہفتہ قبل ہی ماڈل ٹاؤن کا واقعہ پیش آیا۔

یہ بھی پڑھیے

رانا ثنا اللہ: ماڈل ٹاؤن رپورٹ نقائص سے بھرپور

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے متعلق پانچ حقائق

طاہرالقادری کی واپسی، ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کا مطالبہ

اس پس منظر کے ساتھ یہ جاننا آسان ہے کہ پولیس کی کارروائی کی حقیقی وجوہات کیا ہو سکتی تھیں۔ انھی وجوہات کا احاطہ اس جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا جو حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن نے ترتیب دی تھی۔

تاہم یہ جاننے کے لیے کہ اس واقعے کے مقدمے کو سات سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تکمیل تک کیوں نہیں پہنچایا جا سکا، اب تک ہونے والی تحقیقات اور اس کی موجودہ قانونی حیثیت پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

واقعے کی تحقیقات کیسے ہوئیں؟

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے فوراً بعد پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اس وقت کے وزیرِاعظم، چند وفاقی وزرا، وزیرِاعلٰی پنجاب شہباز شریف، وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ سمیت دیگر کئی اعلٰی پولیس افسران کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کروانا چاہتے تھے تاہم ایسا نہیں ہوا۔

واقعہ کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج ہوا اور حکومت نے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے ایک شخص پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا۔ یہ جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل تھا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تحقیقات کے بعد جو رپورٹ دی اس میں پاکستان عوامی تحریک کے بھی چند افراد کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جبکہ کئی پولیس افسران اور اہلکار بھی اس کے ذمہ دار ٹھہرے۔

سنہ 2017 میں جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے اپنی انکوائری رپورٹ جمع کروائی۔ حکومت اسے منظر عام پر نہیں لا رہی تھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت نے اس کے لیے بھی عدالت سے رجوع کیا اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت کو رپورٹ عوام کے سامنے لانا پڑی۔

جسٹس باقر نجفی نے رپورٹ میں کیا لکھا؟

اس رپورٹ میں براہ راست کسی فرد کو سانحہ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا تھا تاہم جسٹس باقر نجفی نے لکھا تھا کہ ’پولیس کی طرف سے کیے گیے آپریشن کی منصوبہ بندی اس وقت کے وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کی نگرانی میں ہوئی تھی۔‘

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’پولیس تحریک منہاج القران کے سیکرٹیریٹ اور اکیڈمی میں تجاوزات ہٹانے کے لیے گئی تھی جس پر کارکنان نے مزاحمت کرتے ہوئے پولیس پر پتھر برسائے تھے جس کے جواب میں پولیس کی طرف سے فائرنگ کی گئی۔‘

جسٹس باقر نجفی نے لکھا تھا کہ ’پولیس کی طرف سے جارحیت کا جو درجہ استعمال کیا گیا تھا وہ کسی بھی طرح سے غیر مسلح مظاہرین کی طرف سے کی جانے والی مظاہمت کے متوازی نہیں تھیں۔‘

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس واقعہ سے ایک روز قبل سابق وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ کی زیرِ قیادت اجلاس میں انھیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان عوامی تحریک لانگ مارچ کرنے جا رہی تھی۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تحریک کی دفاتر کے سامنے رکاوٹیں کھڑی تھیں جو بظاہر غیر قانونی تھیں۔

جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں یہ اشارہ دیا گیا کہ حکومت نے اسی امر کو بہانہ بنا کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جس کا مقصد پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے کارکنان کو منتشر کر کے لانگ مارچ سے روکنا ہو سکتا تھا۔

لانگ مارچ اور دوسری ایف آئی آر

پی اے ٹی ایک مرتبہ کوشش کر چکی تھی کہ نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج ہو لیکن لاہور ہائی کورٹ نے یہ استدعا مسترد کر دی تھی تاہم بعدازاں عدالت کے کہنے پر سابق آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا سمیت سو سے زائد پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔

لانگ مارچ

اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے پی اے ٹی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔ اس مرتبہ پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔ وہ کئی روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیے بیٹھے رہے تھے۔

اس دھرنے کو ختم کرنے کی شرائط میں ایک شرط سانحہ ماڈل ٹاؤن کا نیا مقدمہ تھا جو درج کیا گیا تھا۔ اس ایف آئی آر کے نتیجے میں بھی ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنی جس نے سنہ 2015 میں اپنی رپورٹ میں اس وقت کے وزیرِاعلٰی اور وزیرِ قانون کو بری الذمہ قرار دیا تھا۔

پولیس اہلکاروں پر فردِ جرم عائد ہوئے تین برس بیت گئے

سنہ 2018 میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس مشتاق سکھیرا سمیت 116 پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعہ میں فردِ جرم عائد کی تھی۔

لیکن یہ مقدمہ بارہا ملزمان کے عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے تاحال زیرِ التوا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے موجودہ وکیل اظہر صدیق نے بی بی سی کو بتایا کہ تاحال فردِ جرم عائد ہونے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو پائی۔

’ہم چاہتے ہیں کہ پہلے نئی جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ جائے اس کے بعد انسدادِ دہشت گردی کے عدالت میں چلنے والے مقدمے میں پیشرفت موزوں طریقے سے ہو سکتی ہے۔‘

نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کیوں پیش نہیں ہو سکی؟

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے حال ہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ساتویں برسی پر آڈیو لنک پر لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نئی جے آئی ٹی نے دو سو سے زائد افراد کے انٹرویو قلمبند کیے تھے اور پہلی مرتبہ پی اے ٹی کے کارکنان کو بھی بیان دینے کا موقع دیا گیا تھا۔

’لیکن نئی جے آئی ٹی کی کارروائی کو عین اس وقت روک دیا گیا جب وہ اپنی رپورٹ جمع کروانے کے قریب تھی۔‘

انھوں نے مطالبہ کیا کہ نئی جے آئی ٹی اپنی تفتیش مکمل کر کے رپورٹ پیش کرے۔

یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے سنہ 2019 میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے پر عدالتی حکم پر ایک تیسری جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس کا سربراہ اس وقت کے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے انسپکٹر جنرل اے ڈی خواجہ کو مقرر کیا گیا تھا۔

یادگار

اس جے آئی ٹی نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور سابق وزیرِاعلٰی پنجاب شہباز شریف سمیت کئی سیاسی شخصیات کے بیانات بھی قلمبند کیے تھے تاہم لاہور ہائی کورٹ میں ایک پولیس اہلکار کی درخواست پر نئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

پولیس اہلکار نے عدالت میں دی جانے والی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایک ہی مقدمے میں قانونی طور پر ایک سے زیادہ جے آئی ٹیز نہیں بن سکتی تھی۔

اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ کہاں کھڑا ہے؟

پاکستان عوامی تحریک کے وکیل اظہر صدیق نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں واقعہ کا بنیادی مقدمہ زیرِ سماعت ہے جہاں تین برس قبل عدالت نے 116 پولیس اہلکاروں پر فردِ جرم عائد کی تھی۔

اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ کے ایک سات رکنی بنچ کے سامنے نئی جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کے خلاف ان کی درخواست زیرِ سماعت ہے۔ ساتھ ہی پی اے ٹی لاہور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ بھی کر رکھا ہے کہ پنجاب حکومت جسٹس باقر نجفی جوڈیشل کمیشن کی مکمل رپورٹ منظرِ عام پر نہیں لائی تھی۔

’اس کے انیکسچرز ہمیں نہیں دیے جا رہے حکومت کی طرف سے۔ اس کے لیے عدالت نے پنجاب حکومت سے وضاحت طلب کر رکھی ہے جو تاحال جمع نہیں کروائی گئی۔‘

نئی جے آئی ٹی کے معاملے پر بھی عدالت نے پنجاب حکومت سے وضاحت اور مقدمات اور واقعہ کی اب تک کی تحقیقات کا مکمل ریکارڈ طلب کر رکھا ہے۔

دوسری جانب بسمہ امجد اور محمد اویس پرامید ہیں کہ دیر سے کیوں نہ ہو، انھیں انصاف ملے گا تاہم وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سات سال میں ایسا کیوں نہیں ہو پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp