پاکستان، جمہوریت اور پارلیمنٹ پر سیاہ بادل


گزشتہ چند سالوں اور خاص طور پر پچھلے دنوں جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا اس کا الزام صرف انہی لوگوں کو نہیں دیا جا سکتا اس کی ایک تاریخ ہے۔

یوں تو پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی طاقتور حلقوں کے تمام شرکاء نے اس نوزائیدہ مملکت کو کنفیوژن کی وجہ سے نظام مملکت چلانے کی ایک تجربہ گاہ بنا دیا، آئے روز نت نئے تجربات، عہدوں کی تبدیلیاں، آئین کیا ہوگا، کیسا ہوگا اور کون بنائے گا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا، قرارداد مقاصد ہو یا کچھ اور مقصد صرف ایک تھا ”اقتدار“ اور ”طاقت“ ، اس کھینچا تانی میں آئین اور عوام کا کون سوچتا ہے؟

بین الاقوامی سفارتی محاذ پر یوٹرن تو پہلے دن سے ہی شروع ہو گئے تھے۔

اس کا نتیجہ اس ملک کی چھوٹی سی عمر میں چار عدد مارشل لاء، بے شمار ہائبریڈر جیمز، 1971 کی عبرتناک شکست اور ملک کا دو لخت ہونا، (ڈکٹیٹرز کی بین الاقوامی سطح پر کمزور حیثیت کی وجہ سے ) پرائی جنگوں میں بلاوجہ منہ کالا کروانا اور بے شمار فوجی اور سول جانوں کا نقصان اور نہ جانے کیا کیا،

ان سب حرکات کی وجہ سے دوسری اقوام نے پاکستان کو سنجیدگی سے لینا ہی چھوڑ دیا۔

میرے خیال میں جنرل مشرف کا مارشل لاء اس سیاہ تاریخ کی نہج ہے جس نے پچاس پچپن سالہ کنفیوژن کو اوج کمال دیا۔

جو چیف ایگزیکٹو بن کر آئے اور دنیا بھر کے سیاسیات اور جمہوریت کے طالبعلم انسانی تاریخ سے اس عہدے اور اصطلاح کی تلاش میں ناکامی کے بعد پاکستان کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے، یعنی ایک اور تجربہ، نظریہ ضرورت، قوم ڈوب رہی تھی، میری قوم کو میری ضرورت تھی سو ”لو میں آ گیا“ ۔

جنرل مشرف کے احسانات میں فوج کی سول اداروں میں بھرپور طریقے سے مداخلت، سول بیوروکریسی، سیاستدانوں اور ملکی سیاسی نظام کو ناکام ترین باور کرانے کی کوشش کروانا، ریٹائرڈ اور حاضر سروس آرمی آفیسرز کی سول اداروں میں تعیناتیاں (پہلے سے کہیں زیادہ تناسب) چھوٹی سے چھوٹی سیاسی سہولت کے لئے آئین کے ساتھ کھلواڑ (یعنی اپنی بوٹی کی خاطر پورہ بکرا ذبح کر دینا ویسے بھی قریب الریٹائر سرکاری ملازم میں یہ خوبی کچھ ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے ) ، ملک کو وار آن ٹیرر میں جھونکنا، جس کی وجہ سے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور ملکی سرمایہ کاری ملک سے بھاگ گئی، ماہرین کے مطابق جتنا فائنانشل نقصان مشرف کے ذاتی فیصلوں نے ملک کو پہنچایا شاید ہزاروں سال کی کرپشن اتنا نقصان نہ پہنچا سکتی، اس کے گواہ (ان کے اپنے ) اردگرد موجود آرمی افسر اپنی کتابوں میں نقل کر چکے ہیں کہ وہ فیصلہ کر چکنے کے بعد پوچھتے نہیں بلکہ بتاتے تھے، مثلاً امریکہ کو ہوائی اڈے دینا وغیرہ، ملکی سیاست میں ان کنڈیشنل حمایت کے لیے سیاسی بونوں کو کھلی چھٹی دینا وغیرہ اور بہت کچھ شامل ہے۔

موجودہ رجیم جس کو بہت سے ماہرین ہائبریڈ رجیم بھی کہتے ہیں اس سارے ایجنڈے کو تیزی سے اب ایک اور نئے تجربے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں موجودہ حکومت کے نابالغ سیاستدان ہوں یا آئی ایس پی آر کے مستند دفاعی تجزیہ نگار، حکومت کے حمایت یافتہ یوٹیوبر ہوں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کے ”بھونپو“ سب کے سب پارلیمان، سیاست دان اور سیاسی نظام کو ناکام ثابت کرنے پر تل گئے ہیں،

اصل میں ان کی قرارداد کیا ہے اور مقاصد کیا؟
جی ہاں وہی پرانی بات، نا اہلیت اور ناکامیوں کی لامتناہی فہرست کے بعد بھی طاقت اور اقتدار کا حصول۔

یہ بات ذہن میں رہے جب کوئی چیز اپنے نہج کو پہنچتی ہے تو اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے پاکستان، جمہوریت، آئین اور نظام پر اس کالے سیاہ بادلوں میں کہیں کہیں سورج کی کرنیں جھانک رہی ہیں، خواہ وہ سوشل میڈیا کی آزادی ہو یا بین الاقوامی بدلتے ہوئے حالات میں جمہوریت کا نیو ورلڈ آرڈر بن جانا، وہ وقت دور نہیں جب وہ اس سیاہی کو پھاڑ کر باہر نکلیں گی اور ہر طرف روشنی پھیلا دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments