عورت کا جہاں اور ہے، مرد کا جہاں اور


چند دن پہلے ایک پاکستانی فیس بک پیج پہ کووڈ ویکسین کی معلوماتی پوسٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تصویر میں ایک نوجوان خاتون انجکشن لگوا رہی تھی اور اس مقصد کے لئے آستین کندھے سے اوپر کر رکھی تھی۔ پوسٹ میں دی گئی معلومات پڑھنے کے بعد اس کے نیچے مردوں کی طرف سے دیے گئے کمنٹس پڑھ کر حیرانی اور دکھ ہوا۔ پوسٹ کے مقصد کو نظر انداز کر کے خاتون کی جسمانی ساخت، چہرے کے نقوش، بناؤ سنگھار اور بازو کی رنگت اور خطوط کو موضوع بنا کر فحش اور رومانوی باتیں لکھی گئیں تھیں۔

پاکستان اور دنیا کے دیگر رجعت پسند معاشروں میں عورت کے بارے میں یہ رجحان واضح دکھائی دیتا ہے۔ خواتین کی جانب اس عمومی رویہ کی اہم وجہ یہ ذہنیت ہے کہ عورت کا وجود صرف جنسی ہیجان اور اخلاق باختگی کا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اجنبی مرد اور عورت کا پیشہ ورانہ یا عمومی معاشرتی میل جول بھی معمول نہیں سمجھا جاتا۔ کئی مذہبی تاویلات کے مطابق غیر مرد اور عورت کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے چنانچہ مرد کی شر انگیزی کا قصور وار کہیں شیطان اور کہیں خود عورت ہی ٹھہرتی ہے۔ فٹ بال کھیلنے والی خواتین ہوں یا آرٹسٹ سب اسی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ موٹر وے پہ ریپ ہو یا کالج میں جنسی ہراسانی کے واقعات، ان کا محرک عورت کا گھر سے نکلنا قرار پاتا ہے۔ یوں مرد کی تربیت کی بجائے عورت کی آزادی پہ کلہاڑا چلانا زیادہ کارگر سمجھا جاتا ہے۔

تیسری صنف کو فہرست میں شامل کریں، تو تینوں میں جسمانی طاقت کا پلڑا مرد کی طرف جھکتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے دستور ہے کہ کمزور کو طاقتور سے بچ کر رہنے میں عافیت ہوتی ہے۔ زور آور کو طاقت کا جائز استعمال سکھانے کی بجائے کمزور کو جان کی امان سکھائی جاتی ہے۔ مان لیجیے قدرت طاقت کا یہ ترازو عورت کے حق میں جھکا دیتی تو کیا مردوں کو بھی عورت سے بچ کر پردے میں رہنا پڑتا؟ علماء سلف کی تشریحات کے مطابق عورت گھر میں محبوس کر کے رکھنے والی شے اور مرد کی خدمتگار ہے۔ اسے اچھی بہن، ماں، بیوی اور بیٹی جیسے کرداروں میں مرد سے وابستہ رشتوں کے معیارات پر تولا جاتا ہے۔ اس کا لباس، آواز یا خیال مرد کے معیار سے گزارا جاتا ہے ۔ اس سے قربانی اور تسلیم کی توقع کی جاتی ہے اور بدلے میں استحصال کا شکار ہو جاتی ہے۔

صدیوں سے طاقت کے اصول پر چلنے والے انسان نے اب تعلیم اور شعور کی منزلیں طے کی ہیں تو صنفی امتیازات بھی ختم ہونے چاہئیں۔

اگرچہ دنیا میں خواتین ابھی تک اپنا واجب حق حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئیں، لیکن ترقی یافتہ اور بلند شرح خواندگی والے معاشروں میں نسوانی حقوق بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی طرف پائے جانے والے عمومی رویہ کی دو بڑی وجوہات، ناخواندگی اور مذہبی تاویلات ہیں۔ خوش آئند بات ہے کہ تعلیم سے انکار کا ہمارا رویہ بدل رہا ہے۔

مذہبی تاویلات کو اکابرین نے شجر ممنوعہ قرار دے کر اس پر بات کرنے کا حق چھین رکھا ہے۔ حالانکہ اسلامی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں عورت کو کئی معاشرتی آزادیاں حاصل تھیں۔ حوالہ جات بتاتے ہیں کہ تب کی خواتین معاشی طور پر خود مختار تھیں، وہ کاروبار اور کاشتکاری جیسے پیشے اختیار کرتیں جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ نسوانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ شادی بیاہ اور دیگر معاشرتی تقریبات میں شرکت اور وہاں مردوں سے اختلاط کی مثالیں موجود ہیں۔

غزوات، سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں اور ہجرت کی تحریک کا حصہ بننے والی خواتین کی فہرست، مردوں کے شانہ بشانہ کردار کی عکاس ہے۔ اگر کوئی پسند آ جاتا تو شادی کا پیغام خواتین خود بالواسطہ یا بلا واسطہ دیا کرتیں۔ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے اور محدود پیرائے میں ملنے کی بھی اجازت تھی۔ حضرت خدیجؓہ کا حضور ﷺ کو پسند کرنا اور شادی کی خواہش کا اظہار اس کا واضح ثبوت ہے۔ مساجد جو عوامی اجتماعات کا مرکز تھیں، عورتیں وہاں باجماعت نماز کے لئے جاتیں۔ خصوصاً عیدین کی نماز کے لئے مرد، عورتیں اور بچے ایک ساتھ تکبیر کہتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جاتے۔ عورت کا پردے کی خاطر ہاتھ اور چہرہ چھپانا ضروری نہ تھا، ماسوائے ان مخصوص احکام کے جو امہات المومنیؓن کے لئے نازل ہوئے۔

سورة نمل میں ایک زیرک اور ماہر سیاستدان ملکہ سبا کا ذکر ہے جس کی اپنی مجلس شوریٰ تھی وہ حضرت سلمانؑ پہ ایمان لائی۔ یوں قرآن بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ عورت سیاسی امور میں مردوں سے زیادہ بصیرت رکھ سکتی ہے۔

حضور ﷺ کے زمانہ میں ایک خاتون الشفاء بنت عبداللؓہ بیشتر دنیاوی علوم بالخصوص جلدی امراض کے علاج اور حساب کتاب میں مہارت رکھتی تھیں۔ حضور ﷺ نے انہیں خواتین کی تعلیم و تربیت کا فرض سونپا۔

خلیفۂ ثانی حضرت عمر ؓ نے دور خلافت میں انہیں مدینہ میں مارکیٹ کنٹرولر کے عہدے پہ تعینات کیا۔ وہ چھڑی لے کر منڈی میں گشت کیا کرتیں۔ یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ حضرت عمرؓ نے مکہ میں بھی ایک خاتون ثمرہ بنت نحیقؓ کو اسی عہدہ پہ مقرر کر دیا۔ اس زمانے کی عورت کسی میدان میں بھی مردوں سے کم نہ تھی بلکہ کچھ شعبوں میں ان سے بڑھ کر تھی۔ ان کی ترقی کی راہ میں نہ مردانگی حائل تھی اور نہ کوئی اسلامی قدغن۔

جوں جوں ہم عہد نبوی ﷺ سے دور ہوتے گئے ہمارے علماء نے خرابیٔ زمانہ اور مردوں کی اخلاق باختگی کے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے عورت کی آزادی پر قدغنیں لگانی شروع کیں۔ احکامات کے نئے مفہومات تراشے گئے اور نئے اقدامات کو سد ذریعہ قرار دے کر دین کا جزو بنا دیا گیا۔ جو نسوانی آزادی کبھی سنت کا درجہ رکھتی تھی اسے بعد کے علماء نے خلاف شرع قرار دے ڈالا۔ زمانے کی خرابی جو کہ اصل میں مرد کی بے حیائی کا شاخسانہ تھی، عورت کی آزادی محدود کرنے پر محمول ہو گئی۔ عہد رسالت ﷺ میں حجاب کی فرضیت صرف امہات مومنینؓ تک محدود تھی اور عام مرد و خواتین غض بصر سے کام لیتے ہوئے بات چیت کرتے۔ کچھ زمانہ بعد ، بات چیت صرف حجاب ہی کے پیچھے سے کرنے کی پابندی لگائی گئی اور پھر عورت کی آواز کو بھی اس کے ستر میں شامل کر کے اسے مکمل خاموش کر دیا گیا۔

جدید تاریخ میں نسوانی حقوق کی جد و جہد سے مغربی معاشرے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس جدوجہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی لہر جو سن 1848 سے 1920 تک جاری رہی، خواتین نے سیاسی حقوق کی جنگ لڑی اور ووٹ کا حق حاصل کیا۔ دوسری لہر سن 1963 سے 1980 تک تھی، خواتین نے معاشرتی حقوق، نوکریوں اور تنخواہوں کے مساویانہ حصول اور اسقاط حمل کی آزادی حاصل کی۔ تیسری لہر جو سن 1991 میں شروع ہوئی، ابھی تک جاری ہے۔ اس کے مظاہر خواتین کے لیے بنائے گئے جنسی ہراسانی کے قوانین اور ”می ٹو“ مہم کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

عورت، مرد اور مخنث، ایک متوازن معاشرے کے مساوی شہری ہیں۔ آج عورت کی شرکت کے بغیر کسی شعبے کی ترقی ممکن نہیں۔ عورتوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ اس کی مساوی اہل ہیں۔ دینی اور دنیاوی برتری صرف علم و تقوٰی کی بنیاد پر ہوتی ہے نہ کہ جسمانی ساخت پر۔ طاقت اور مذہب کی لاٹھی کے زور پر صنفی استحصال کرنے والے خود قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں وہی ارفع قرار پائے گا جو علم و ہنر حاصل کرے گا۔ بلاشبہ عورت برداشت اور ملٹی ٹاسکنگ میں مردوں سے برتر ہے۔ اگر نام نہاد روایت پسند انہیں دبانا چاہیں تو خواتین بھی، حق چھین کر لینے میں حق بجانب ہیں۔

نوٹ: اس مضمون میں مذکور حقائق کے حوالہ جات اور اسناد کتاب ’خواتین کی آزادی عہد رسالت میں‘ (مصنفہ، شیخ ابو عبدالرحمان عبدالحلیم محمد ابو شقہ) سے لئے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments