ایوان زیریں میں گالم گلوچ میرٹ پر ہوئی ہے، حیران مت ہوں


پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی اور شور شرابا جمہوری ممالک کی روایت ہے۔ دنیا بھر کی پارلیمان میں ہنگامے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی اور غیر مہذب بات نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں کا ہنگامہ معمولی تھا کیوں کہ اسمبلی چھوٹی ہے۔ 800 ممبران کی اسمبلی ہوتی تو حقیقی عوامی اسمبلی کہلائی جاتی یہ 342 ارکان کا ایوان زیریں بھی دھن دولت اور رسہ گیری کی بدولت وجود میں آیا ہے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کے تربیت یافتہ سیاستدانوں کا ایوان نہیں ہے بلکہ انتخابی پارٹیوں کا جیسے تھے ویسے کی بنیاد پر بھرتی کردہ ممبران کا ایوان ہے۔

ان سے توقع کرنا کہ سیاسی و معاشی اور قانون سازی پر بحث کرتے یہ بھی بد تہذیبی کے زمرے میں آتا ہے۔ عہد خرابا میں تو سیاسی جماعت کے قائدین بھی گالم و گلوچ سے کام لیتے ہیں۔ ایوان زیریں میں ہاتھا پائی اور گالم گلوچ سیاسی قابلیت کا اظہار محض تھا۔ وزارت اور عہدوں کے لئے قمیض کے بٹن کھول کر گلے پھاڑ کر بولنا، گالیاں دینا ہی میرٹ ہے۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو سیکھا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہے۔ اس کا بھر پور اظہار کیا گیا ہے۔ عہد کی سیاست یہی ہے۔

دانشور اور لکھاری تو ایسے کوسنے دے رہے ہیں جیسے پارلیمان کی روایات سے ہٹ کر کچھ ہوا ہے یا سب کا حافظہ کمزور ہے۔ پارلیمنٹ میں کیا کچھ نہیں ہوتا آیا ہے۔ پارلیمنٹیرین کیا کچھ نہیں کرتے رہے ہیں۔ پوری پارلیمانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جن کا حافظہ درست اور یادداشت مضبوط ہے وہ جانتے ہیں کہ جعلی ادویات بنانے اور بیچنے والے، سمگلنگ سے دھن دولت کمانے والے اور پراپرٹی ڈیلرز نے کئی انتخابی پارٹیوں کے ٹکٹ خریدے اور پارلیمان کا حصہ بنے اور اپنے کاروبار کو مزید تقویت دی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے کہ پارٹیاں ٹکٹ بیچتی ہیں۔ سب جانتے ہیں۔

دانشوروں اور لکھاریوں کے دستے بھی واضح ہیں کہ یہ نون لیگی صحافی ہے۔ یہ دانشور پیپلز پارٹی کا ہے۔ یہ لکھاری تحریک انصاف سے تعلق نبھا رہا ہے۔ اس کے باوجود منافقت سے کام لیا جاتا ہے اور پارٹی کے کسی ادارے میں عملی طور پر شامل نہیں ہوا جاتا ہے ۔ اصول تو ہے کہ دانشور اور لکھاری پارٹی کے مشاورتی ادارے میں شامل کیے جاتے ہیں، سٹڈی سرکل ہوتے ہیں۔ تربیتی پروگرام کیے جاتے ہیں تا کہ ان سیاسی وابستگی سے پارٹی کی قیادت اور کارکن کچھ سیکھیں اور کچھ نہیں تو کم ازکم اخلاقیات ہی آئے جائے۔ مگر ہوتا الٹ ہے۔ دانشور اور لکھاری پارٹیوں کے باہر رہ کر قصیدہ گوئی کرتے ہیں اور عوض میں مال کماتے ہیں۔ سرکاری عہدے لیتے ہیں۔ ہزاروں مثالیں ہیں۔

قومی اور آئینی ریاستوں میں سیاسی جماعت ملک کے آئینی ڈھانچے کے مطابق تعمیر و تشکیل ہوتی ہے۔ سیاسی جماعت کے ادارے ریاستی اداروں کے مماثل تعمیر کیے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعت کا آئین اور منشور ملکی آئین کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ کارکنان اور پارٹی کے تمام اداروں میں مرتب کردہ نصاب کے مطابق سیاسی تعلیم و تربیت کا نظام بنایا جاتا ہے۔ پارٹی کی تعمیر سیاسی اور انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہی پارٹی اقتدار میں آ کر ملک کا نظم و نسق چلاتی ہے اور ملک و قوم کے لئے سود مند اقدام کرتی ہے۔

انسانی اخلاقیات پر تعمیر کی گئی حقیقی سیاسی جماعت کے پارلیمنٹرین گالم گلوچ کرتے ہیں اور نہ پارلیمان میں شور یا ہنگامہ آرائی کی نوبت آتی ہے۔ مضبوط اور منظم سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے کوئی طالع آزما آئین توڑ کر ملک پر قبضہ نہیں کر سکتا ہے۔ کوئی آئی جے آئی بنانے کی ضرورت نہیں کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں گالم و گلوچ اور ہنگامہ آرائی میرٹ پر ہوئی ہے۔ حیران ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments