ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا؟


(اپنے بہنوئی سید اصغر مہدی رضوی کی پہلی برسی کے موقع پہ)

کیا آپ نے کسی ایک شخص میں کئی انسانی رشتوں کی دھنک کا تجربہ کیا ہے؟ یہ سعادت ہمارے حصے میں ضرور آئی۔ پہلے وہ بہنوئی کی صورت ہماری زندگی میں آئے، پھر سرحد پار جا بسنے والے بھائیوں کی غیر موجودگی میں بھائی کی محبت دی اور جب ہمارے ابا مرے تو باپ کا کردار بھی نبھایا۔ وہ تاحیات ان رشتوں کو دل سے نبھاتے رہے۔

پچھلے برس جب ان کا محبت اور شفقت سے گندھا وجود دور آسمان پہ پھیلی دھنک کا حصہ بنا تو احساس ہوا کہ بیک وقت اتنے رشتوں کا کھونا کسے کہتے ہیں۔

ہم لاکھ کہتے رہیں کہ ایسا تو ہوتا ہی ہے انسان تو آتا ہی جانے کے لیے ہے۔ لیکن کاش یہ سب قبول کرنا بھی اتنا ہی آسان ہوتا۔

اصغر بھائی جب بر دکھوے کے لیے پہلی بار ہمارے گھر آئے تو ”چیک پوسٹ“ پہ پہلے انہیں ممکنہ دو عدد آدھی گھر والیوں کا سامنا تھا۔ میں اور میری چھوٹی بہن۔ میں نے دیکھا چھ فٹ سے بھی اونچا قد سرخ سفید رنگت، سیاہ بالوں میں ہلکا سا گھونگھر اور چہرے پہ نرم سی ہلکی مسکان۔ اگر غور کیا جائے تو ہم ان کا تضاد ہی تو تھے چھوٹا قد سانولی رنگت اور ہر بات پہ شرارت سے بھرپور بلند قہقہہ۔ لیکن بھئی وہ کون سے ہمارے لیے آئے تھے۔

وہ تو ہماری بڑی بہن کا ہاتھ پکڑنے کے متمنی تھے۔ جو مناسب قد و قامت اور کھلتی رنگت کے ساتھ نرم اور دھیمے لہجہ کی سیدھی سادی سی لڑکی تھیں۔ ہماری امی کا کہنا تھا کہ اگر بیٹی نے لڑکے سے ملاقات کر کے رضامندی کا اظہار کیا تو ہی بات بڑھے گی ورنہ دونوں پارٹیاں اپنی اپنی راہ پہ واپس جا سکتی ہیں۔ گو لاکھ ہمارے برطانیہ والے محسن بھائی نے اطمینان دلایا کہ میں نے ان کے ساتھ ایک کالج میں پڑھایا۔ انہوں نے کیمسٹری اور اصغر بھائی نے فزکس۔

حد تو یہ کہ اس کالج کے ہوسٹل میں ایک ہی کمرے میں بھی رہے۔ وہاں بھی ہمارے لا ابالی بھائی کا بڑے بھائی کی طرح خیال رکھا۔ لیکن ہماری روشن خیال اماں نے کسی طور سمجھوتہ نہ کیا۔ ”شادی اس کی (بیٹی) کی ہے تو فیصلہ بھی وہی کرے گی۔“ ہماری بہن تو پہلے ہی ان کے گھر والوں کو بھا چکی تھیں۔ اب اصغر بھائی کو ہماری بہن کی رضامندی درکار تھی۔

اور پھر وہی ہوا جس کا امکان غالب تھا۔ یعنی شادی ہو گئی۔

اصغر بھائی نے ابا کی بیماری کے سبب گھر برابر میں ہی لیا تاکہ ضرورت پڑنے پہ کام آ سکیں۔ ابا کی بیماری اور انتقال کے بعد کوئی بیٹا باہر سے کاندھا دینے نہیں آ سکا تھا۔ اصغر بھائی ہی سارے انتظامات صبر اور ہمت سے انجام دیتے رہے۔ ابا کو قبر میں بیٹوں کی سی ذمہ داری سے انہوں نے ہی اتارا۔ سنا ہے لحد میں سپردگی کے وقت بس ایک دم ہی بند ٹوٹا اور بلک بلک کے رو دیے تھے۔

پھر ابا کے انتقال کے بعد کشادہ اپارٹمنٹ خریدا تاکہ ساس اور سالیوں یعنی ہم دو بہنوں کو اپنے ساتھ رکھ سکیں۔

ایسا نہیں کہ ساتھ رہنا ہمیشہ ہی پھولوں کی سیج ثابت ہوتا ہے۔ کبھی ایسا خیال ہمیں اور شاید انہیں بھی آیا کہ ساتھ رہنا آسان نہیں۔ جب ایک ہی والدین کے پالے ہوئے بچوں میں شدید اختلاف ہو سکتا ہے تو دو مختلف انداز اور طرز فکر رکھنے والے گھرانوں کے افراد کا رہنا بھی تو دشوار ہو سکتا ہے۔ لیکن امی کا یہ کہنا ہمیشہ ساتھ دیتا رہا کہ ”برائی ڈھونڈنا تو بہت آسان ہے۔ لوگوں میں اچھائیاں دیکھو۔“

تاہم ساری اختلافی باتیں ایک طرف لیکن اصغر بھائی کی انسانوں سے ٹوٹ کر محبت ایک طرف۔ خاص کر غربت اور حالات کے ہاتھوں ٹوٹے انسانوں کو اپنی دریا دلی سے جوڑنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ گو محبت کے اس عمل میں انہیں دھوکے بھی کھانے پڑے اور ایک دفعہ تو بزنس کا جل دے کر لاکھوں (آج کے زمانے کے کا کروڑوں ) روپے کا نقصان اٹھایا۔ جو شاید کسی کم حوصلہ انسان کو کو دل کا دورہ دے سکتا ہو۔ لیکن جس کو دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی جیب خالی کرنے کی عادت رہی ہو اس کے لئے ایسے دھوکے ٹراما نہیں بنتے۔ لہٰذا اصغر بھائی کے چہرے کی نرم مسکان کبھی بھی کرختگی میں تبدیل نہ ہو سکی۔

میری شادی پورے اہتمام سے اپنے گھر سے کی۔ بس ایک بات یہ ضرور ہوئی کہ جس پر میں حیران تھی کہ مہندی والے دن انکے گھر والوں خاص کر ہلہ گلہ کرنے والے باجی (ان کی بڑی بہن) کے لڑکوں کا انتظار ہی رہا۔ وہ مری عمروں کے تھے اور بہت دلچسپ۔ پھر میری شادی بھی ہو گئی۔ ولیمہ بھی اور آخری دعوت چوتھی کی تھی۔ اور اس دن مجھ پہ ان کے خاندان والوں کی غیرحاضری کا عقدہ کھلا۔ پتہ چلا کہ میری مہندی والے دن اصغر بھائی کی باجی کا اچانک ہی دل کے دورے سے انتقال ہو گیا تھا۔

وہ علی سردار جعفری (جو ان کے شوہر کے سگے بھائی اور کزن بھی تھے ) کے بیٹے پرویز جعفری کی عشرت آفرین کی شادی میں مصروف تھیں۔ جو اس شادی کے لیے انڈیا سے آئے تھے۔ ہماری پیاری شاعرہ کو پاکستان سے چرا کر لے جانے کے لیے۔ (وہ بات اور ہے کہ عشرت کچھ سالوں بعد ہندوستان کے بجائے امریکہ میں جا بسیں۔ ) اصغر بھائی نے میری بہن کو سختی سے منع کر دیا تھا کہ گھر میں کسی کو اس انتقال کا پتہ نہ چلے۔ وہ چاہتے تھے کہ شادی خوش اسلوبی سے ہو جائے۔ ایک جگہ میت کی رخصتی اور مجلس کا اہتمام تو دوسری جانب شادی کا سوٹ پہن مہمانوں کو خوش آمدید کہنا۔ مجھے چوتھی والے دن پتا چلا میں حیران پریشان اور صدمے سے ان سے گلے مل کر رونے لگی تو بہت پیار سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہا ”دلہنیں نہیں روتیں۔“

جب بھی میں سسرال سے میکہ آتی تو ہمیشہ ہی ایسا اہتمام کیا جیسے باپ اپنی بیٹیوں کی پذیرائی میں کرتے ہیں۔ ہر قسم کا بہترین پھل اور کھانا۔ اور پھر جب بچوں کی پیدائش کا سلسلہ ہوتا تو آرام اور بہترین غذا کا انتظام عبادت کی شکل اختیار کر لیتا۔ فریج بھرا ہوتا اور دودھ والے کو خاص کر فاضل دودھ کا آرڈر کیا جاتا۔

پھول سبزیوں اور پھلوں کو کھلانے اور کھانے کا ہی شوق نہیں تھا ان کو اگانے کا بھی جنون تھا۔ اپارٹمنٹ بلڈنگ میں اپنی نیکی، دیانتداری اور انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے صدر منتخب کر کیے جاتے۔ یونین کے پیسوں کی ایک ایک پائی کا حساب رکھتے بلکہ اکثر ہی اپنی جیب سے خرچ کر کے بلڈنگ کے مسائل حل کر رہے ہوتے۔ ان کے یونین میں ہونے کے سبب بلڈنگ پھول پودوں سے شاداب رہتی۔ انہیں اپنی عزت کروانے کے لیے نہ چالاکیاں کرنی پڑیں اور نہ ہی لنترانیاں۔ وہ اللہ سے ڈرنے والے بندے تھے جو محنت کرتے اور اپنی حاجت کے لیے دوسروں کے در پہ ماتھا اٹکانے کے بجائے اپنی نماز میں خدا سے مانگتے۔ اور اپنے عمل سے غریب کی عزت مجروح کیے بغیر خاموشی سے بغیر مانگے ان کی ضرورت پوری کرتے۔ کسی غریب آدمی کا احترام میں نے ان سے زیادہ کسی کو نہیں کرتے دیکھا۔

غیر ممالک سے اپنے کنبہ کے ساتھ سالیاں آ رہی ہوں یا سالے وہ مہمانداری کا پورا حق ادا کرتے۔ خاطر داری میں ان کی دریا دلی مثال تھی۔ دو سال پہلے جب میں پاکستان جنوری میں گئی تو امریکہ جانے کے بعد پہلی بار تھا کہ بیروں کے موسم کی شروعات تھی۔ میں نے آنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ ”اصغر بھائی اگر بیر نہ ہوئے تو امریکہ واپس آ جاؤ نگی۔ جب پاکستان پہنچی تو ایک کلو بیر پہلے سے موجود تھے۔

امی بیٹوں کے پاس کبھی کبھار ضرور جاتیں لیکن اصغر بھائی نے ان کا دل کبھی دیار غیر میں لگنے ہی نہیں دیا۔ ان کے گھر میں ہر وقت ان کے مستقل قیام کا انتظام تھا۔ اور یہی وہ گھر تھا جہاں سے وہ ہسپتال اور پھر اپنی آخری آرامگاہ روانہ ہوئیں۔

جب خود اصغر بھائی کی روانگی کا وقت آیا تو کرونا نے دنیا کو اپنے شکنجہ میں جکڑ ہوا تھا۔ تاہم دریا دل اصغر بھائی کو کرونا نے نہیں دل کے دورے نے بے حال کیا۔ گو ہسپتال اپنے پیروں سے چل کے گئے لیکن جانے سے پہلے اپنی نور تاج زندگی اپنی شریک سفر سے کہا سنا معاف کردینے کی درخواست کی۔ باآواز کلمہ پڑھا اور ہسپتال پہنچے۔ پتا چلا دل کا شدید دورہ ہے اور فوری آپریشن ہوگا۔ میں نے امریکہ میں اپنے دوست ڈاکٹر شیر شاہ کو خبر دی انہوں نے فون کر کے بتایا کہ ان کا دوست ہی سرجری کر رہا ہے۔

سرجن تو اچھا تھا لیکن زندگی کا وقت برا۔ ان کے حصے کی سانسوں کا حساب پورا ہو چکا تھا۔ اب اپارٹمنٹ بلڈنگ کی پھلواری کے اہتمام کرنے والا سوئے عدم، وادی حسین میں اپنے مہکتے وجود کے ساتھ شہر خموشاں کی رونق بڑھانے پہنچ گیا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا کہ چاہنے والی اولادوں اور جان چھڑکنے والی بیوی کی پرواہ کیے بغیر وہ آرام سے سو رہے ہیں۔ شاید اس اطمینان کے ساتھ کہ ہم سب ایک دن ساتھ ہوں گے۔ لیکن مجھے جانے کیوں یہ شعر بار بار دھرانے کا دل چاہتا ہے کہ

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments