مغربی ادب ۔افلاطون سے پوسٹ مارڈدن ازم تک (تیسری قسط)


مغربی ادب ۔رومن دور میں
یہ درست ہے کہ338 بی سی میں یونان پر رومن سیاسی طور پر غالب آگئے تھے مگر تہذیبی فتح یونانیوں کو نصیب ہوئی۔ادبی اعتبار سے کم وبیش ہر ایک رومن صنف چاہے وہ ٹریجڈی ہو یا کامیڈی،طویل مذہبی نظم (ایپک) ہو یا گیت، بیانیہ ہو یا تاریخی اندازِادب یونانی کمپوزیشن کی ہی ڈھلی ہوئی شکل سے ملتی ہیں۔ صرف ستایر ہی واحد صنف ِادب ہے جوسراسررومن دور کی یادگار ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ رومن دور میں ہی بائیبل کے نئے عہد نامہ یعنی نیو ٹیسٹامنٹ کا ظہور ہوتا ہوا بھی نظر آتاہے مگر اُس کے مذہبی اثرات عمومی ادب پر غالب ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ہمیں رومن ادب میں آسانی سے ادبی شہ پارے ہیومن ازم کی نمائندگی کرتے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔ درحقیقت تمام تر یونانی اور رومن لٹریچر سراسرہیومنسٹ لٹریچر تھا۔وہ مذہبی لٹریچر نہیں تھا مگر مڈل ایج یا قرون وسطی میں پہنچ کر مذہبی اثرات مغربی لٹریچر پر نظر آنے شروع ہوتے ہیں۔یونانی دور کا ادب رومن ادب کے مقابلے میں زیادہ آزاد بھی تھا مطلب یہ کہ یونانی دور میں حکمرانوں پر کامیڈی لکھنا آسان تھی مگر رومن دور میں یہ قطعی طور ممکن نہ تھا۔ اسی طرح اظہار کے معاملات میں بھی ورجل کی ایپک نظمیں مصنوعی جبکہ ہومر کی نظمیں فطری دکھائی دیتی ہیں۔بالکل اسی طرح شاعری میں بھی ہمیں اصول و ضوابط کی پاسداری و پابندی رومن ادب میں زیادہ نظر آتی ہے بجائے اس کے یونانی ا دب میں فطری جبلت زیادہ تھی اور شاید ان تمام باتوں کی ایک بڑی وجہ رومن سیاست کی اُن کے ادب پر نفسیاتی حکمرانی تھی۔
 بی سی323 میں سکندر اعظم کی وفات کے بعد جب ٹولامی سوٹارکی مصر میں حکومت آئی اُس نے اسکندریہ یعنی الیکزینڈریا کو اپنا دالحکومت بنالیا تو اُس کے ایک عظیم تہذیبی ریاست بننے کے امکانات روشن ہوتے چلے گئے۔ اسکندریہ کی علمی شکل کا ایک اندازہ وہاں موجود اُس یادگار لائبریری سے لگایا جاسکتا ہے جہاں ایک زمانے میں قدیم و جدید دور کے اسکالرز اور فلسفیوں کی  700,000سے زیادہ کتابوں کی جلدیں موجود تھیں۔حضرت عیسی کی پیدائش سے ڈیڑھ سے ڈھائی سو سال برس قبل یعنی  264 بی سی سے 146 بی سی کے دوران تین جنگیں رومن اور کارتھیج ایمپائر (مارڈرن تیونس) کے درمیان لڑی گئیں جنہیں   ’پیونک وارز‘کہا جاتا ہے۔ ان جنگوں کے نتائج میں یونانیوں نے 50  بی سی میں گال (لاطینی زبان میں گالیا) پر قبضہ کیا، گال یعنی مغربی یورپ کا
ایک بہت بڑا حصہ جس میں جدید دور کے فرانس، بیلجم، لکزم برگ، سوئزرلینڈ، شمالی اٹلی، جرمنی اور نیدر لینڈ وغیرہ سب ہی اُن کی حکمرانی میں آگئے۔
ابتدائی دور میں رومن جمہوری انداز سے ہی حکومت کرتے رہے جیسا کہ وہاں کونسل اور سینیٹ کا تصور حکمرانوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا مگر پھر آہستہ
 آہستہ سینیٹ کی طاقت کم سے کم ہوتی چلی گئی حتی کہ31 بی سی میں سیکنڈ ٹریم وینٹ جو کہ تین طاقتور ترین سیاسی طاقتوں یعنی اکٹووین، مارک انٹونی اور لیپی ڈس کے درمیا ن کا حکومتی معاہدہ تھا، ختم ہوگیا ا ور بالاخر27 بی سی میں آگسٹس سیزر روم کا حقیقی حکمران بن گیا۔ سیزر کا دور مجموعی طور پر امن و آشتی اور معاشی خوش حالی کا دور تھا مگر اس دور میں روم باضابطہ جمہوری سلطنت کے بجائے ایک آفیشل رومن ایمپائربن گئی تھی۔ اس دور کو اپنی سماجی خوشحالی،سیاسی طاقت اور علم و ادب کی ترقی کی وجہ سے ’رومن لٹریچر کا سنہیرا دور‘کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے مگر پھر۴۱ ویں عیسوی میں آگسٹس سیزر کی وفات کے بعد روم کی طاقت گرتی چلی گئی حتی کہ 180عیسوی میں جب مارکس آرلیس کی وفات ہوئی تو روم کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالت سخت ترین تباہی کا شکار ہوچکی تھی۔ 330عیسوی میں قسطنطنیہ رومن سلطنت کا دالحکومت بن گیا۔سلطنت کی اس کمزوری کے دوران جرمن جنگلی قبائل گوتھس کی محاز آرائی مسلسل جاری رہی حتی کہ  364 عیسوی  میں رومن ایمپائر مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
  ر410اور 455 عیسوی میں بالترتیب گوتھس اور وانڈال جرمن قبائل مغربی رومن ایمپائر پر قابض ہوئے اور یوں 476عیسوی میں جرمن  باربیرین قبیلے اوڈیسرنے مغربی رومن ایمپائر پر مکمل قبضہ کرلیا۔حتی کہ 476عیسوی تک مغربی رومن ایمپائرکی سیاسی، اقتصادی اور عسکری قوت کم و بیش ختم ہوچکی تھی اور سلطنت کی ریاستیں صرف نام کے حد تک ہی رومن رہ گئی تھیں۔ تمام تر مغربی رومن ایمپائر پر جنگجو قبائل قابض ہوچکے تھے جبکہ مشرقی رومن ایمپائر جسے ہم  ’بایز ینٹائین ایمپائر‘کہتے ہیں ایک اسٹیٹ کی طاقت کی شکل میں مشرقی بحیرہ روم (میڈیٹیرین) کے اردگرد کی ریاستوں کو کنٹرول کررہی تھی۔

رومن بنیادی طور پر اٹلی کے قدیم باشندے تھے۔ رومن دور میں اٹلی کامغربی شہر لاطیم رومن ایمپائر کاسیاسی و اقتصادی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی و تہذیبی مرکزبھی تھا،اسی وجہ سے لاطیم میں بولے جانے والی لاطینی زبان ہی رومن ایمپائر کی آفیشل زبان بھی بن گئی تھی۔ روم کے اُس دور کے نچلے عوامی طبقے(پلیبینس)اور حکمراں طبقے کے درمیان جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک طویل جدوجہد کی تاریخ موجودہے جس دوران عوام الناس کا  خوب ہی خون بہایا گیا جس کے نتائج میں ہی جدید یونانی دور میں رومن قوانین ترتیب دیے گئے۔ حضرت عیسی کی پیدائش بھی اسی رومن دور میں ہوئی اور 30عیسوی میں انہیں صلیب کیا گیا مگر عیسائیت اُس رومن دور میں نہیں پھیل سکی۔ جوں جوں رومن ایمپائر کا زوال ہوتا چلا گیا اُس دور کا ادب بھی اپنے معیارسے گرتا چلا گیا۔ اُس دور میں ادبی تخلیقات اور سرگرمیوں پر یونانی حکمرانوں کا براہ راست اور بالواسطہ (نفسیاتی) کنٹرول تھا اور ادیب مخمصے کا شکار تھے۔ اسی لیے اُس دور میں ہمیں زیادہ تر خطیبانہ لسانی ادب ہی نظر آتا ہے دوسرے الفاظ میں یونانی ادب کا گولڈن دور ’سلوردور‘ سے بدل گیا تھا۔کہیں ڈرامے، ایپی گرامز اور طربیہ نظمیں ضرور لکھیں جارہی تھیں مگر شاعر ی زیادہ نمایاں ہورہی تھی یا دوسرے الفاظ میں نثر نسبتاکم لکھی جارہی تھی خصوصا آگسٹن کے دور تک تو رائٹنگ ایک عزت دار پروفیشن بھی رہا تاہم بیانہ اور تاریخی ادب بہت کم ہوگیا تھاکیونکہ سنسر شپ اور پابندیوں کے بدولت سیاسی تنا زعات پرلکھنا کم و بیش بند ہوچکا تھا مگر ہاں شاعر ضرور ٹیکنیکل پرفیکشن کے ساتھ لکھ رہے تھے۔ شاعری کی عظیم تخلیقات جو اُس دور میں ہمیں نظر آتی ہیں اُن میں کیٹیلس کی انتھالوجی، اووڈ کی میٹا مارفوسس، سینیکا کی تھایسٹس اور ورجل کی اونیڈ شامل ہے مگر مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام تر رومن دور درحقیقت قانون کی پاسداری کا دور تھا اس دور میں آزادی اظہار کی وہ نعمت نصیب نہیں تھی جو یونانی دور میں حاصل تھی اس لیے مغربی ادب کا یہ دور یونانی ادب کے اثر سے باہر نہ نکل سکا۔

(جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments