بجٹ کے موقع پہ حکومت اور اپوزیشن کا رویہ


مالی سال 2021۔ 22 کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے اس بجٹ میں کیا اچھا ہے اور کیا برا اور یہ کتنا عوام دوست یا عوام دشمن ہے اس کے بارے میں تو بہت سے لوگ باتیں کر ہی رہے ہیں البتہ میں بجٹ کو ایک الگ تناظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

جب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بجٹ پیش کر رہے تھے اور اپوزیشن شدید نعرے بازی کر رہی تھی تو مجھے یاد آیا کہ یہ مناظر گزشتہ کئی سالوں سے پارلیمنٹ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں سال بدلے، حکومت بدلی، اپوزیشن بدلی مگر نہ بدلا تو دونوں طرفین کا رویہ نہ بدلا۔

یہی سوچتے ہوئے میں نے گزشتہ سالوں کے اخبارات انٹرنیٹ سے نکالنے شروع کیے تو اس میں دو باتیں نوٹ کی یہی دو باتیں بتانے کے لئے میں آج یہ آرٹیکل لکھنے بیٹھی ہوں۔ ایک بات تو یہ کہ اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ تقریباً ہر سال کیا گیا اور دوسری بات یہ کہ بجٹ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے بیانات ایک جیسے تھے۔ مطلب یہ کہ جو پارٹی پہلے حکومت میں تھی اور بعد میں اپوزیشن میں آ گئی اور جو اپوزیشن میں تھی وہ حکومت میں آ گئی مگر دونوں کے بیانات ایک رہے۔

کردار بدلتے رہے مگر ڈائیلاگز نہ بدلے۔

پہلے ذرا اپوزیشن کے ہنگامے کی بات کرتے ہیں سن 2011 میں نون لیگ اپوزیشن میں تھی جبکہ پی پی حکومت میں تھی۔ جب وفاقی وزیر خزانہ جناب حفیظ شیخ 2011۔ 12 کا بجٹ پیش کرنے لگے تو نون لیگی رہنما احسن اقبال صاحب روٹی لے کر وزیر خزانہ کی ڈیسک پہ پہنچ گئے ان کے پیچھے پیچھے پی پی کے خورشید شاہ انہیں روکنے کے لئے آئے۔ اندازہ کریں کہ کیسے کیسے تماشے پارلیمان میں ہوتے رہے ہیں بجٹ کی کاپیاں پھاڑنا، اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرنا، نعرے بازی، شور شرابا تو تقریباً ہر دور میں ہوا۔

گزشتہ سالوں کے اخبارات دیکھ کر جو دوسری بات میں نے نوٹ کی وہ تھی حکومت اور اپوزیشن کے ایک جیسے بیانات۔ آئیے 2011 سے 2021 تک کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں۔

2011 :۔ ”تنخواہوں میں اضافہ اور ترقیاتی منصوبے، بجٹ میں تاریخ رقم کی“ ۔ حکومت
”حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو گئی“ ۔ اپوزیشن
2012 :۔ ”بجٹ عوام دوست، اپوزیشن کے رویے سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا“ ۔ حکومت
”بجٹ الفاظ کا ہیر پھیر ہے غریبوں کو کوئی خوشخبری نہیں دی گئی“ اپوزیشن

سن 2013 میں حکومت بدل گئی۔ جو پارٹی حکومت میں تھی وہ اپوزیشن میں چلی گئی اور جو اپوزیشن میں تھی وہ حکومت میں آ گئی۔ مگر بیانات میں تبدیلی نہ ہوئی۔

2013 :۔ ملک بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
2014 :۔ ”بجٹ عوام دوست ہے“ حکومت
”امیروں کو نوازا گیا“ اپوزیشن
2015 :۔ ”وفاقی بجٹ عوام دوست اور متوازن ہے“ حکومت
”معاشی دھماکے کرنے کی دعویدار حکومت نے غریب آدمی کا ہی دھماکہ کر دیا“ اپوزیشن
2016 :۔ ”بجٹ عوام اور کاشتکار دوست ہے غریبوں کو فائدہ پہنچے گا“ حکومت
” بجٹ مایوسی کی داستان، غریب عوام پہ ڈرون حملہ ہے“
2017 :۔ ”بجٹ مایوس کن ہے، حکومت غریب عوام کو خواب بھی نہ دکھا سکی“ اپوزیشن
2018 :۔ ”عوام دوست میزانیہ پیش کیا گیا“ حکومت
”بجٹ کا مقصد صرف سیاسی عزائم“ اپوزیشن

2019 میں ایک دفعہ پھر حکومت بدلی پارٹی پوزیشن بھی بدل گئی جو حکومت میں تھے وہ اب اپوزیشن بینچز پہ بیٹھ گئے اور اپوزیشن والی پارٹی یعنی پی ٹی آئی حکومت میں آ گئی۔

2019 :۔ ”بجٹ نئے پاکستان نظریے کا عکاس ہے“ حکومت
”بجٹ عوام دشمن ہے باورچی خانہ چلانا مشکل ہو گیا اپوزیشن نے بجٹ مسترد کر دیا۔“
2020 :۔ ”عمران خان نے عوامی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ پیش کیا“ حکومت
”غریب کش بجٹ ہے، مزدور کے لئے کچھ نہیں ہے“ اپوزیشن
2021 :۔ ”حکومت نے جعلی اعداد و شمار دیے بجٹ کی مخالفت کریں گے“ اپوزیشن

2011 سے 2021 تک حکومتیں بجٹ کو عوام دوست اور اپوزیشن اسے عوام دشمن قرار دیتی رہی اس دوران حکومتیں بدلی اپوزیشن بدلی مگر بیانات وہی رہے۔ عوام کے نام پر عوام کو ہی بیوقوف بنایا سب نے اس عوام کا نام لیا جسے ان اعداد و شمار کی ککھ سمجھ نہیں ہے عوام تو بس جب ہی خوش ہوگی جب اس کو ضرورت کی تمام اشیا مناسب داموں پہ میسر ہوں گی جب وہ اپنی دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکیں گے۔ البتہ حکومت اور اپوزیشن کا یہ ”بجٹ عوام دوست“ اور بجٹ عوام دشمن ”کا کھیل چلتا رہے گا کیونکہ ہمارے ہاں یہی جمہوریت کا“ حسن ”سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments