لکشدویپ: مسلمان آبادی والے جنت نظیر انڈین جزائر حکومتی منصوبوں کی وجہ سے مشکل میں

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دہلی


A woman protesting in Lakshadweep

مظاہرین کا کہنا ہے کہ مجوزہ منصوبے ان کی ثقافت پر حملہ ہے

انڈیا کا جزیرہ نما لکشدویپ اس وقت مشکل میں ہے۔

انڈیا کے جنوب مغربی ساحل سے تقریباً دو سو میل دور واقع اس جزیرہ نما میں 36 چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں جن میں سے صرف 10 آباد ہیں، اور یہ تمام کے تمام اپنی معیشت اور اپنی روزمرہ کی زندگی کے لیے انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ پر انحصار کرتے ہیں۔

ریتیلے ساحل، نیلگوں پانی اور انتہائی دلکش کورل ریفس (مرجان راک) کے لیے مشہور لکشدویپ کو سیاحوں کے لیے تیار کیے گئے بروشرز اور اشتہاری مواد میں ‘جنت کے جزائر’ یا ‘زمرد کے جزائر’ بھی کہا جاتا ہے اور عمومی طور پر یہ خبروں میں زیادہ نمایاں جگہ نہیں حاصل کرتا۔

لیکن حالیہ کچھ ہفتوں میں ان جزائر ہر رہنے والوں کی مظاہروں کی وجہ سے یہ علاقہ شہ سرخیوں کی زینت بن گیا ہے جن میں یہ رہائشی کہتے ہیں کہ ‘ہماری شناخت، ثقافت، مذہب اور زمین پر حملہ کیا جا رہا ہے’۔

اس تنازعے کی شروعات اس خطے کے نئے حکومتی عہدے دار اور ایڈمنسٹریٹر پرافل کھودا پٹیل کی آمد، ان کی جانب سے ان جزائر کے لیے متعارف کرائے گئے نئے منصوبوں، تیزی سے بڑھتے ہوئے کووڈ کے کیسز اور یہاں کی معروف ماڈل و اداکارہ پر بغاوت کی مقدمے سے ہوئی ہے۔

‘بے مثال احتجاج’

چند روز قبل پیر کو یہاں کہ رہائشیوں نے ‘یومِ سیاہ’ منایا جس دن انھوں نے اپنے گھروں کی چھتوں سے اور ستونوں پر کالے جھنڈے لہرائے اور چہرے پر کالے ماسکس پہنے۔ گذشتہ ہفتے خبروں کے مطابق ‘تمام آبادی’ نے دن بھر احتجاج میں کچھ نہیں کھایا۔

تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین نے اپنے گھروں، چھتوں اور حتی کہ زیر آب بھی پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں اور ‘انصاف’ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سیو لکشادویپ فورم (ایس ایل ایف) کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد صادیق کہتے ہیں کہ لکشادویپ کی تاریخ میں اس سے قبل آج تک ایسے مظاہرے نہیں ہوئے ہیں۔

انڈیا کی دوسری بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بھی ان مظاہرین کی حمایت کی ہے اور انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ جاہل، ہٹ دھرم جو حکومت میں ہیں’ وہ ‘انڈیا کے سمندر میں ہیرے کو تباہ کر رہے ہیں۔’

راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے احکامات واپس لیں جنھیں انھوں نے ‘مقامی برادری کی ثقافت اور ان کے مذہب پر دانستہ حملہ’ قرار دیا ہے۔

متنازع تجاویز کیا ہیں؟

اس علاقے کے رہائشیوں کے لیے ‘سب سے بڑا خدشہ’ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ زمین حاصل کرنے کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ جزیرے کی زمین کے کسے بھی حصے کو تعمیراتی منصوبے کی غرض سے کبھی بھی اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔

پرافل کھودا پٹیل کہتے ہیں کہ ان کے بڑے منصوبے ہیں جن کی مدد سے وہ ان جزائر کو مالدیپ جیسا بنا دیں گے جو سارا سال سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا رہتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کی مدد سے رہائشیوں کی حفاظت اور ان کی زندگی میں بہتری آئے گی لیکن ایس ایل ایف کے ڈاکٹر محمد صادیق کہتے ہیں کہ یہ ‘زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔’

ایس ایل اف نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے مقامی لوگوں کو نکال دیا جائے گا اور وہ بے گھر ہو جائیں گے اور وہ اس وجہ سے پرافل پٹیل کو نکالنے اور تجویز کیے گئے قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد صادیق کہتے ہیں کہ وہ ترقی کے خلاف نہیں ہیں لیکن مقامی باشندوں، ان کی ثقافت اور ان کی زمین کا تحفظ کیا جائے۔

‘ہم ریاست مخالف نہیں ہیں، ہم انڈیا کے ہی شہری ہیں، لیکن ہم اپنی زمین اور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔’

گائے کے گوشت اور شراب پر پابندی

گذشتہ برس دسمبر سے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے پرافل پٹیل نے جزائر پر گائے، بھینس کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ یہاں 1979 سے شراب کی فروخت اور شراب نوشی پر عائد پابندی کو ختم کر دیا ہے۔

ان اقدامات سے ناخوش ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ انڈیا کی ہندو قوم پرست حکومت کی ایک اور کوشش ہے کہ وہ اپنے نظریے کو ان جزائر کی آبادی پر مسلط کر سکیں جہاں کی ستر ہزار کی آبادی میں سے 96 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین شہری پر تشدد کی ویڈیو شیئر کرنے پر سرکردہ مسلمان شخصیات پر مقدمات

انڈیا میں مسلمان شخص کی زبردستی داڑھی کاٹنے اور تشدد کی ویڈیو وائرل، تین افراد گرفتار

انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت کی بازگشت خلیجی ممالک تک پہنچ گئی

’مودی کے ترقی کے نعرے کا ڈھول پھٹ چکا ہے‘

کانگریس کے سیاستدان اور لکشدویپ کی پنچایت کے سابق سربراہ الطاف حسین سوال کرتے ہیں کہ مسلم اکثریتی علاقے میں گائے کے گوشت کی پابندی کیوں لگائی جائے؟

‘پرافل پٹیل کیوں اس معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں کہ ہم کیا کھاتے ہیں؟’

لکشدویپ کی ایک خود مختار نیوز ویب سائٹ دویپ ڈائری ڈاٹ کام کے ایک مدیر محمد نوشاد کہتے ہیں کہ یہاں کی واضح اکثریت شراب پر عائد پابندی کی حمایت کرتی ہے کیونکہ اسلام میں شراب پینے پر پابندی ہے۔

‘یہ جزیرہ خواتین اور بچوں کے لیے انتہائی محفوظ ہیں اور اس بات کے خدشات ہیں کہ شراب کی آسانی سے فروخت ہونے کی وجہ سے شراب نوشی بڑھ سکتی ہے اور وہ یہاں کے معاشرے اور برادری کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔’

Protest in Lakshadweep

M NOUSHAD

ان کا کہنا ہے کہ پرافل پٹیل کو لکشدویپ کی تاریخ اور یہاں کی ثقافت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے۔

‘آج سے پہلے یہاں پر کبھی بھی ایسے غیر جمہوری اور آمرانہ انداز میں احکامات لاگو نہیں ہوئے ہیں۔ لوگوں سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا ان تبدیلیوں کے بارے میں۔ ہم یہاں کے شہری ہیں، غلام نہیں ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہوگا۔’

یہ بھی پڑھیے

گلابی ساحل والے جزیرے پر 30 سال تک تنہا رہنے والا شخص منتقل ہونے پر مجبور

صرف 22 رہائشیوں پر مشتمل یونانی جزیرہ جس سے سائنسدانوں کو پیار ہے

وہ جزیرے جو جرمنی کو نارتھ سی یعنی بحیرہ شمال میں ڈوبنے نہیں دیتے

الطاف حسین کہتے ہیں کہ پرافل پٹیل اُن جزائر پر اپنے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کریں جو آباد نہیں ہیں، ‘بجائے ہمارے جزائر کا امن برباد کرنے کے۔’

اختلاف پر کریک ڈاؤن

ان تجاویز میں ایک اور مسئلہ ایک ‘اینٹی سوشل’ قانون ہے جس کے تحت پولیس لوگوں کو قانونی مدد حاصل کرنے کی سہولت دیے بغیر ایک سال تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔

الطاف حسین اس بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ایسے قانون کی کیا وجہ ہے، ایک ایسے علاقے میں جہاں 45 برس سے کوئی سنگین جرم نہیں ہوا ہے۔

ڈاکٹر محمد صادیق کہتے ہیں کہ حکومت یہ قانون اپنے ناقدین کے خلاف استعمال کرے گی۔

Praful Khoda Patel

Twitter@prafulkpatel
جزائر کے عوام پرافل پٹیل کے مجوزہ منصوبہ سے ناخوش ہیں

‘ان کو معلوم ہے کہ ان کی تجاویز کے خلاف لوگ احتجاج کریں گے تو انھوں نے سوچ لیا ہے کہ اختلاف کرنے والوں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے۔’

مجوزہ قانون ابھی منظور نہیں ہوا ہے لیکن حکومت کے ناقدین کے خلاف حکومت کا کریک ڈاؤن شروع ہو گیا ہے۔

بغاوت کا مقدمہ

گذشتہ ہفتے پولیس نے عائشہ سلطانہ نامی ایک مقبول ماڈل، اداکارہ اور فلمساز کے خلاف بغاوت کا کیس کیا ہے۔ انھوں نے پرافل پٹیل کو ملیالم زبان کے ایک نیوز چینل کے پروگرام میں ‘بائیو ویپن’ (حیاتیاتی ہتھیار) قرار دیا تھا۔

عائشہ سلطانہ کا کہنا تھا کہ پرافل پٹیل کی جانب سے قرنطینہ میں نرمی کرنے کے فیصلے کے باعث جزیرے پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ کووڈ سے متاثر ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خود پسندوں کا شہزادہ جس نے اپنا جزیرہ آباد کیا

ایک جزیرہ جہاں بچے جینا نہیں چاہتے

جزیرہ جو ملک بدلتا رہتا ہے

واضح رہے کہ لکشادویپ میں اس سال جنوری تک ایک بھی کووڈ کیس نہیں تھا تاہم اس کے بعد سے اب تک تقریباً دس ہزار متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ 45 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

پرافل پٹیل نے خود پر عائد ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ متاثرین بڑھنے کی وجہ وائرس کی نئی قسم ہے اور معاشی سرگرمیاں بحال ہونے کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے بیماری پھیلی ہے۔

عائشہ سلطانہ کے علاوہ بھی کئی ایسے افراد ہیں جنھوں نے پرافل پٹیل پر تنقید کی ہے۔ مقامی ممبر پارلیمان محمد فیصل نے بھی انھیں جزائر پر کووڈ کے متاثرین بڑھنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقامی لیڈر نے 26 سالہ عائشہ سلطانہ پر ان کے الفاظ کے استعمال پر ایک شکایت درج کی ہے۔

پولیس نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں اور انھیں اتوار کو سوال جواب کے لیے بلایا ہے۔

Lakshadweep

قید کے خدشے کے باعث عائشہ سلطانہ نے کیرالہ کی عدالت میں ضمانت کی درخواست درج کرائی ہے جس کے بعد عدالت نے انھیں ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔

انھوں نے اس کیس کی تفصیلات تو نہیں بتائیں البتہ انھوں نے مجھے یہ ضرور بتایا کہ ‘میری یہ لڑائی اپنی زمین کے لیے ہے۔’

عائشہ کی دوست اور وکیل فصیلہ ابراہیم کا کہنا ہے کہ پولیس کا کیس صرف اور صرف ‘ایک دھمکی’ ہے۔

‘وہ یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ اگر تم نے آواز اٹھائی، تو اس کے نتائج ہوں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp