قراقرم ھائی وے


آپ کے پاس سب کچھ موجود ہو، پیسہ، گاڑی، کیمرہ، بیٹریاں، میموری کارڈز، کھانے پینے کا سامان، سفری چولہا، آرام دہ کرسیاں، بہترین ہم سفر، صحت، ہمت اور آپ کو بس کمی محسوس ہو کہ دو آنکھیں کم ہیں یہ سب دیکھنے کے لئے تو یقیناً آپ عظیم قراقرم ہائی وے پر سفر کر رہے ہیں۔

کدھر کدھر دیکھیں آگے، پیچھے، دائیں، بائیں ہر طرف ہی تو قابل دید مناظر ہیں اور جہاں دوراہے یا چوراہے آ جائیں تو دماغ ماوف ہو جاتا ہے کہ کیا فیصلہ کیا جائے کس طرف کو جایا جائے اور کس طرف کو چھوڑا جائے، سب طرف ہی اعلی سے اعلی مناظر ہیں،

کل ہی سوشل میڈیا پر پڑھ رہا تھا کسی نے رائے پوچھی تھی کہ شمالی علاقہ جات کو دیکھنے کے لئے کتنا وقت درکار ہے تو ایک صاحب علم نے رائے دی ہوئی تھی دو ہفتے، ان کا اپنا تجربہ اور مشاہدہ ہے پر میرے خیال میں ایک زندگی کم ہے ان علاقوں کو دیکھنے کے لئے۔ چلاس سے رائے کورٹ بریج تک سڑک قدرے ناہموار اور ناخوشگوار ہے خاص طور پر گورنر فارم کے پاس کا علاقہ۔ اس مشکل سفر کو کرنے کے بعد رائے کورٹ بریج جیسے ہی پار کرتے ہیں۔ تو احساس ہوتا ہے کہ رائے کورٹ بریج کی سیاحوں کی زندگی میں کیا اہمیت ہے،

جنت نظیر پہاڑ اور وادیاں یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ اور یہیں پر ختم،

سب پہاڑی سلسلے یہیں تو ہیں، کون سا پہاڑ ہے جو یہاں نظر نہیں آتا، پرانے سلک روٹ کی سڑک ہو پل ہو یا راکا پوشی اور نانگا پربت سب کے ہی تو ویو پوائنٹ یہیں پر ہیں، جتنے ممکن ہو میموری کارڈ ساتھ رکھ لیجیے کم پڑ جائیں گے ڈیٹا سٹوریج کے لئے لیپ ٹاپ، ہارڈ ڈسک سب رکھ لیں پر آپ کو تشنگی کا لفظ اسی سفر پر نظر آئے گا، کہیں بلندوبالا پہاڑوں کے مناظر ہیں تو کہیں قراقرم ہائی وے کا اپنا منظر کہیں تنگ پہاڑی راستے اور کہیں دور دور تک نظر آتی قراقرم ہائی وے جیسے ابھی بنی ہو، کالی سیاہ سڑک اور اس پر موجود سفید اور پیلی لائنیں، احساس ہوتا ہے سڑک بن گئی ہے ابھی افتتاح ہونا باقی ہے، پاکستان میں اتنی صاف ستھری سڑک اور مناظر شاید ہی کہیں اور نظر آئیں، موٹرویز بھی اس سڑک کو دیکھ کر شرما جاتیں ہیں۔

جگہ جگہ گلیشیئر، آبشاریں، پہاڑی سلسلے دل لبھانے کو آپ کا انتظار کر رہا ہوتے ہیں، اور آپ پہلی دفعہ شکوہ اور تشکر دونوں ساتھ ساتھ دل میں لئے ہوتے ہیں، یا اللہ تیرا شکر ہے کیا کیا دکھا دیا اور دوسری طرف یہ سب دیکھنے کے لئے دو آنکھیں ناکافی ہیں۔ اسی کشمکش میں ایک راستہ دائیں طرف نکلتا ہے استور کے لئے، آپ رک جاتے ہیں باہر نکلتے ہیں اور جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں انتہائی خوبصورت برف پوش چوٹیاں آپ کو نظر آتی ہیں، سجدے میں پڑ جانے کے علاوہ کوئی حل ہی نہیں ہے، شکر الحمدللہ یہاں رک گیا ورنہ پتہ نہیں کیا کیا دیکھنا رہ جاتا، سفری چولہا نکالیں جلائیں، کافی کے لئے پانی کے دو کپ رکھیں فولڈنگ کرسیاں کھولیں اور پھر اپنے ہم سفر جو آپ کا زندگی بھر کا بھی ساتھی ہے کے ساتھ مل کر کافی پئیں۔ شاید ہی یہ مزا اور نظارہ دیکھنا دوبارہ نصیب ہو، کافی کی خوشبو، ہلکی ہلکی خنکی بھری ہوا اور موسیقی شاید ایسا سب کچھ ایک ساتھ قسمت والوں کو ہی ملتا ہے۔

اب کیمرے نکال لیے کیمرہ سٹینڈ پر لگائیے اور تصاویر بناتے جائیے، ایسا صاف نیلا آسمان اور بادلوں کی ٹکڑیاں بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہیں۔

میرے بس میں ہو تو کم از کم ہر سال دو دفعہ ضرور شمالی علاقوں کے لئے جاؤں، اپریل اور نومبر میں۔ باقی زندگی ان علاقوں کی ہر خزاں اور بہار دیکھوں۔ یقین جانیے یہ زندگی کا ایک بہترین مصرف ہے، عبادت کی عبادت سیر کی سیر کیونکہ آپ کی زبان بغیر آپ کے کہے، سبحان اللہ، ماشاء اللہ، الحمدللہ کی تسبیح جاری کیے رہتی ہے، میرا گھر اسلام آباد میں ہے پر میں ہر گھڑی خیالوں میں کھویا رہتا ہے، جہاں میں رہتا نہیں ہوں پر ہوتا وہیں ہوں، سب پوچھتے ہیں کہاں ہو، کیا سوچ رہے ہو، عشق ہو گیا ہے کیا اس عمر میں۔

کیا بتاؤں کسی کو کیسے سمجھاوں، یہ تو تمام عمر کا عشق ہے۔ یہ قراقرم ہائی وے ہے کیا چیز۔ صاحبو یہ دیکھنے کی جگہ ہے بتانے کی نہیں، اس پر سفر کیجئے اور دعا دیجیئے۔ اپریل گزر گیا نومبر آ رہا ہے، میں نے جانا ہے دعا کیجئے سب ٹھیک ہو جائے۔ نشہ ٹوٹ رہا ہے، کرونا کی علامات سے ہی جسم نہیں ٹوٹتا، کچھ نشے بھی ایسا کرتے ہیں، پوچھ لو ان کو جو مریض عشق ہیں قراقرم ہائی وے کے۔ پہاڑ بلاتے ہیں قسمت والوں کو، اور کچھ لوگ نوکریاں ہی کرتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں ان کے بغیر نظام کائنات کیسے چلے گا بیچارے چھوٹے چھوٹے خود ساختہ سیانے۔ یہ دنیا یہیں رہ جانی ہے، باہر نکلیئے ایک دفعہ ضرور دیکھئے، میرے رب کی تخلیقات۔ شکر بجا لائیں۔ جس نے ہمیں اس قابل بنایا اور یہ سب دکھایا۔ شکر الحمدللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments