ناپید: خالص چھوٹی مکھی کا شہد اور خالص دہریہ


صحیح معنوں میں نظریات اور مذاہب کو سمجھنے کے لئے آپ کا ہر مکتبہ فکر سے انٹریکشن ضروری ہے، اس جستجو میں جب آپ پاکستان جیسے معاشرے میں تصویر کا دوسرا رخ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

معاشرے کے ہر فرد کو قدرت کی طرف سے دی گئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے بھرپور استعمال کا مکمل حق حاصل ہے، ایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ تمام نظریات، مذاہب اور مکاتب فکر کے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا ضامن ہوتا ہے،

ہر مکتبہ فکر میں موجود وفادار، محنتی، دور اندیش اور پڑھے لکھے افراد جہاں اپنے سکول آف تھاٹ کا اثاثہ ہوتے ہیں وہیں پر ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہوتا ہے جس کا اس طرز فکر سے واسطہ بہت سطحی ہوتا ہے۔ مملکت ”خداداد“ پاکستان میں نظریات کا ٹکراؤ ایک خواب بنتا جا رہا ہے، دیکھنے میں تو شاید نظریات میں گھمسان کا رن محسوس ہو لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، دہائیوں کی فسطائیت میں لتھڑا یہ معاشرہ ایک نظریے اور سوچ کو لے کر جنریشنز کی پیداوار میں ”کوکیکٹر“ بن چکا ہے، جو نسل در نسل سوچ میں جمود کی بدولت کھڑے پانی کے بدبودار جوہڑ کی صورت ہے۔

اس سوچ کے مقابلے میں ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ضرور موجود ہے جو کسی نہ کسی فورم پر برعکس بات کرتے نظر آتے ہیں، ان میں بھی انواع و اقسام کے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں، ذی شعور، پڑھے لکھے، دور اندیش اور وفادار، اسی طرح گھس بیٹھیے بھی، کچھ ملی جلی اقسام ملاحظہ ہوں،

ایک قسم پاکستان کے معاشی طور پر مضبوط طبقہ میں پائی جاتی ہے جو دنیا گھومتے ہیں، کاروبار اور مادیت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، مذہب سے ان کا تعلق نکاح، جنازے اور عید شب برات تک محدود ہے، ضرورت پڑے تو گول سا منہ بنا کر انشاءاللہ اور ماشاءاللہ بولتے بھی سنے جا سکتے ہیں، تمام دنیاوی لذتیں انہوں نے اپنے آپ پر حلال کر رکھی ہیں، اس معاملے میں کوئی مذہب عقیدہ ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتا یا یوں کہیے کہ یہ حائل ہونے ہی نہیں دیتے،

جب کوئی سیاسی لیڈر یا مذہبی رہنما دقیانوسی بات کرے تو یہ اس پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بولتے ہیں کہ کیا بکواس ہے یار، مذہب ایسا کب کہتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ، جبکہ مذہب کی معلومات کے معاملے میں یہ بالکل پیدل ہوتے ہیں، اسی طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک محترمہ ایک دن بولیں کہ دیکھو فلاں آدمی ہر وقت نماز پڑھتا ہے لیکن اس نے بیچارے ہرن کا شکار کیا اور اسے مار دیا، مذہب اس کی اجازت کہاں دیتا ہے؟

میں بولا جی بہتر۔

دوسری قسم پڑھے لکھے مغربی، رشین، ساؤتھ امریکن، افریقن اور سینٹرل ایشیائی نظریات سے متاثر لوگ ہیں، اب یہ کھل کر بات نہیں کر سکتے، اس لئے ان کی سوچ نظریات اور افکار محدود حلقوں تک ہی ہیں۔

ایک قسم ایسے لوگوں کی بھی ہے جو برصغیر کی تاریخ کو لے کر یہاں موجود مذاہب کے مابین بھائی چارے، محبت، یگانگت اور سیمیلیریٹیز کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، بدھا، اشوکا اور پورس ان کے ہیروز اور تمام حملہ آور بلا تخصیص مذہب و عقیدہ ولن ہیں،

ایک قسم پرفارمنگ آرٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھی ہے، مثلاً مشہور ایکٹر سنگر اور میوزیشن وغیرہ، یہ سب سے زیادہ کنفیوزڈ طبقہ ہے، یہ لوگ ہر طرح کی پارٹیز میں ناچتے ہوئے بھی نظر آئیں گے اور اچانک ایک دن سوشل میڈیا پر سر منڈوائے سعودی عرب کی گلیوں میں بھی بیٹھے ہوں گے، زائچے نکلوانا اور عجیب و غریب عقائد کے حامل پیروں کے دروں پر حاضر ہونا ان کا مشغلہ ہے،

ایک صاحب پر ہراسمنٹ کا الزام لگا تو وہ سب نظریات چھوڑ چھاڑ آئے روز نئی نعت کی ویڈیو لانچ کر دیتے ہیں، شاید وہ اپنے معاشرے کی دکھتی رگ کو سمجھتے ہیں،

ان کو یہ زعم ہوتا ہے کہ چونکہ ہم مشہور ہیں اس لیے ہمیں سب معلوم ہے، یعنی جہالت کی پہلی سیڑھی۔

ایک طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اصل میں لبرل یا دہریے نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے اس کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے، یہ لوگ پاکستان کے کسی نہ کسی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، (یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی فرقے کے لوگ جب دوسرے فرقے کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہیں) اگر آپ ان کی تحریروں کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیشہ ان کے مخالف فرقوں کے مولوی، علما یا عقیدے (جن کے بارے میں ان کو بچپن میں بتایا اور پڑھایا جاتا رہا ہوتا ہے) زیر عتاب اور شدید تنقید کی زد میں ہوں گے، اپنے فرقے عقیدے یا افراد کے متعلق ایک جملہ کہتے ہوئے ان کی بھی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں، اصل میں لبرل ازم کے نعرے کو یہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اگر کبھی مشکل میں پھنس جائیں تو سطحی سی تنقید کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک صاحب جو بیرون ملک مقیم ہیں اور سوشل میڈیا پر مولویوں اور عقیدوں کے خلاف کافی متحرک بھی، اپنے آپ کو دہریہ کہتے ہیں، ایک دن اپنی ہی شیئر کردہ تصویروں میں بمع اہل و عیال اپنے فرقے کے اجتماع میں زور و شور سے شرکت کرتے پائے گئے، میں نے پوچھا حضور کیا آپ کے ملا، ملا نہیں، بولے میں تو صرف تماشا دیکھنے اور کھانا کھانے گیا تھا۔ میں نے کہا خالص چھوٹی مکھی کا شہد اور خالص دہریہ ملنا ناممکن ہے، اس پر ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments