نریندر مودی کا جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس: مودی حکومت کشمیر میں اب کیا کرنے والی ہے؟

شکیل اختر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو ہفتے سے مختلف افواہوں اور قیاس آرائیوں کے درمیان انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا ہے جو جمعرات کے روز دلی میں ہو گا۔

سری نگر میں ایک اجلاس میں پیپلز الائنز میں شامل سبھی جماعتوں نے طے کیا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شریک ہوں گے تاہم وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے دعوت نامے میں اس اجلاس کا کوئی ایجنڈہ مقرر نہیں کیا گیا۔

پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بات چیت کی مخالف نہیں اور جمعرات کو ہونے والے اس اجلاس میں شریک ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ بہتر ہوتا اگر وزیراعظم اس اجلاس سے پہلے اعتماد سازی کے طور پر کشمیر کے قیدیوں کو رہا کر دیتے

’ہمیں آئین نے جو حق دیا اور جو ہم سے لے لیا گیا، اس کی بحالی کا ہم مطالبہ کریں گے۔ ہمارا جو مؤقف ہے وہ ہم وزیراعطم اور وزیر داخلہ کے سامنے رکھیں گے۔‘

نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھی کشمیر کی 5 اگست 2019 سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے کی بات کی۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ’دلی کی میٹنگ سے کچھ نہ کچھ ضرور نکلے گا۔‘

کانگریس رہنما غلام نبی آزاد کو بھی کشمیر کے سابق وزیر اعلی کے طور پر اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے طور پر بحالی اس اجلاس کا سب سے اہم موضوع ہو گا تاہم انھوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ آیا ان کی جماعت دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کا بھی مطالبہ کرے گی۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد وزیراعظم مودی کے ساتھ کشمیری رہنماؤں کی یہ پہلی میٹنگ ہو گی۔ کشمیری رہنماؤں کے سلسلے میں حکومت کا مؤقف کافی سخت تھا اور ان میں سے بیشتر ابھی چند مہینے قبل تک قید میں ہی تھے۔

حکومت انھیں ’ریاست کو تباہ کرنے اور لوٹنے والے‘ رہنما قرار دے رہی تھی لیکن پھر اچانک حکومت کو ان سے بات چیت کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟

کشمیر

محبوبہ مفتی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ’چند ہفتے پہلے انڈیا پاکستان کے درمیان اچانک جنگ بندی ہوئی، متحدہ عرب امارات نے بھی کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت میں مدد کر رہا ہے۔ اب انڈیا اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر بھی تاجکستان میں شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کی میٹنگ میں ایک ساتھ ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کشمیر کے بارے میں پس پردہ کچھ ہو رہا ہے۔‘

کشمیر کے سرکردہ صحافی پیرزادہ عاشق کا خیال ہے کہ اس مرحلے پر اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، اسے ریاست سے مرکزی علاقہ بنانے اور دوسرے سبھی معاملات میں کشمیر کی قیادت یا عوام کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ جس کے سبب بین الاقوامی سطح پر انڈیا پر تنقید بھی ہو رہی تھی۔

’انڈیا بات چیت کا راستہ کھول کر شاید اب یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر میں صورتحال معمول پر ہے، سیاسی عمل شروع ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے ریاست میں انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔‘

کشمیر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کا کہنا ہے کہ یہ میٹنگ حکومت کی موجودہ کشمیر پالیسی کا ہی حصہ ہے۔

’مودی حکومت نے کشمیر کے منظر نامے سے علیحدگی پسندوں کو کامیابی کے ساتھ کنارے کر دیا ہے۔ اب بات چیت علحیدگی پسندوں سے نہیں بلکہ ہند نواز جماعتوں سے ہو رہی ہے اور یہ جماعتیں اب زیادہ خود مختاری اور دوسرے سوالات کے بجائے کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے جیسے سوالات اٹھائیں گی۔‘

محبوبہ مفتی

یہ بھی پڑھیے

کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟

’ہمیں صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ ہماری اب کوئی حیثیت نہیں‘

کشمیر: ’معمول کی زندگی‘ کے پس پشت پیچیدہ حقائق

ریاض مسرور کا کہنا ہے کہ کشمیر کے سوال پر انڈیا کی حکومت پر امریکہ اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی جانب سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ دلی کے اس طرح کے اقدامات سے اسے نکتہ چینی کا جواب دینے میں آسانی ہو گی۔

کشمیر کی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان بھی پرانی حیثیت بحال کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’انڈیا سے تب تک مزاکرات نہیں ہوں گے جب تک وہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو بحال نہیں کرتا۔‘

اپنے تازہ انٹرویو میں عمران خان نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حقوق انسانی کے حالات کا ذکر بھی کیا۔

چین بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے انڈیا کے ان اقدامات کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا تھا۔

ان تبدیلیوں کے بعد گزشتہ سال جون میں لداخ خطے میں چین اور انڈیا کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپ ہوئی تھی اور چینی فوجیوں نے ایل اے سی کے کئی مقامات پر انڈیا کے کنٹرول والے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ٹکڑاؤ کے کئی مقامات پر چینی فوجی اب بھی انڈین علاقے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔

ماہرین کے مطابق خطے میں چین کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے گیارہ راؤنڈز ہو چکے ہیں لیکن چینی افواج اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔ دونوں افواج کے میجر جنرل کی سطح پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

سرحد پر اسی کشیدگی کے درمیان انڈیا اور پاکستان نے اچانک اور غیر متوقع طور پر ایل او سی پر جنگ بندی کے ایک معاہدے کا اعلان کیا۔ اس معاہدے سے ان مفروضوں کو تقویت حاصل ہوئی تھی کہ دونوں ممالک کے مذاکرت کار پس پردہ بات چیت کر رہے تھے۔

اسی پس منظر میں متحدہ عرب امارات کا ذکر آیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد کر رہا ہے۔

کیا دلی کی میٹنگ سرحدوں پر کشیدگی، بین الاقوامی دباؤ یا پس پردہ ہونے والی کسی بات چیت کے ٹائم فریم کا حصہ ہے؟ اس بارے میں کوئی اندازہ لگانا مشکل ہے۔

اس مجوزہ بات چیت میں تین سوالوں پر بات ہو سکتی ہے: پہلا سوال ریاست کی بحالی کا ہے۔

دوسرا سوال اسمبلی حلقوں کی ڈی لمیٹیشن کا ہے۔ وادی میں سیاسی جماعتیں ان خدشات کا اظہار کر رہی ہیں کہ حکومت نئی حلقہ بندی اس طرح کرا سکتی ہے جس سے جموں کی اسمبلی سیٹیں زیادہ ہو جائیں تا کہ وادی کا سیاسی غلبہ ختم کیا جا سکے۔

تیسرا اہم موضوع انتخابات ہو گا جو حلقہ بندی کے بعد ہی ممکن ہو گا۔

اس مرحلے پر کشمیری رہنما اور تجزیہ کار سبھی اس میٹنگ کا انتظار کر رہے ہیں۔ جمعرات کو دلی کی میٹنگ کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ کشمیر کے بارے میں حکومت کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہے اور اب وہ کیا کرنے والی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp