تھو تھو… ہر سو


بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے بلکہ سکول و مدارس کے در و دیوار پر بھی اکثر یہ جملہ لکھا ہوا دیکھنے کو ملا ہم تو اسے حدیث مبارکہ کا مفہوم سمجھتے رہے لیکن یونیورسٹی آف ہری پور شعبہ علوم اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمھیمن صاحب نے گزشتہ دنوں درستگی فرمائی کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ”طہارت یا پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے“ جسے بلا تحقیق یہی پڑھایا جاتا رہا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اور ہم بھی پڑھتے اور سنتے ہی رہے لیکن عمل! بات ہی نہ کریں۔

بہر حال صفائی نصف ایمان ہو یا پاکیزگی ایمان کا حصہ ہو ہمارے لیے ایک برابر ہے کیوں کہ ہم نے نہ تو پاکیزگی کا خیال کرنا ہے اور نہ صفائی کا۔ سیر و تفریح کے لیے کسی پر فضا مقام پر جائیں، پبلک واش روم یا مسجد کے استنجاء خانے کو استعمال کریں، کسی مسافر گاڑی پر سفر کریں یا بازار یا راستے سے پیدل ہی کیوں نہ گزر جائیں گنجائش کے مطابق ہر جگہ اپنی حاضری کے مختلف آثار لازماً چھوڑ آتے ہیں ویسے تو پلاسٹک کے شاپنگ بیگز، فروٹ کے چھلکے اور پیکنگ فوڈز کے ریپرز کسی مقام پر ہمارے آنے اور قیام کا پتہ دیتے ہیں لیکن پان کی پھوار، نشہ پورا کرنے کے بعد نسوار کی گولیاں اور راستوں و سڑکوں پر پڑی تھوک کی ٹکریاں بھی ہماری قوم کی مشہور باقیات ہیں جو ہمارے بعد بھی شاید مدتوں تک ہماری صفائی اور پاکیزگی کے معیار کا ثبوت رہیں گی

روزانہ متعدد مقامات پر تھو تھو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک باوقار قوم سے کس قدر تھوکے ہوئے ہجوم میں تبدیل ہو رہے ہیں موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے والے حضرات منکر یا نکیر کے اوپر سے چلوٹی مارتے ہیں جس کی چھینٹیں ہوا کے دوش پر کئی دوسرے راہگیروں یا مسافروں تک پہنچتی ہیں جن سے آنکھیں نم اور لب و رخسار تر ہو جاتے ہیں۔ بازار سے گزرتے ہوئے کسی دکان کے اندر سے کئی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار رکھنے والی سفید رطوبت ہوا میں لہراتی اور بل کھاتی ہوئی آپ کے کپڑوں سے چپک کر بدنما دھبہ بننے کے لیے بے تاب ہوتی ہے۔

نسوار کی گمنام گولی کا تو کوئی پتہ نہیں کس وقت آپ کو چونکا دے اگر آپ اس کے وار سے بچ بھی گئے تو چبا کر تھوکے ہوئے ببل کی طرح آپ کے جوتے کے نیچے ایسے چپکے گی کہ شاید آپ کے چند قدم ڈگمگا بھی جائیں۔ کسی پبلک مقام کی انتظار گاہ میں بیٹھنے کا موقع ملے تو محتاط رہیں کیوں کہ آپ سے قبل کسی نے منہ سے نسوار کی بھیگی ہوئی گولی نکال کر سامنے کو لڑھکاتے ہوئے آہستہ سے نشست کے بازؤں کے ساتھ انگلیاں ضرور صاف کی ہوں گی۔

قارئین کرام اگر آپ کو میری باتیں محض مذاق لگیں تو کبھی ہلکی بارش کے بعد کسی پختہ بازار کا دورہ کر کے جائزہ لیں تو راہ گیروں کے پاؤں تلے روندی ہوئی نسواری گولیاں بارش میں بھیگ کر واضح نظر آئیں گی اس سے آپ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کے شہر میں کس قدر نسواری نشئی موجود ہیں جو جگہ جگہ تھوکنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔

تھوکنے والوں میں بیشتر لوگ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ہر جگہ اور با الخصوص پر ہجوم جگہوں پر تھوکنے سے بیماریاں پھیلتی ہیں لیکن ہر تھوکنے والا یہ سوچ کر تھوک دیتا ہے کہ اس کے تھوک سے اسے بیماری نہیں لگتی کسی دوسرے کو ہی لاحق ہو گی سو دوسرا جانے اور بیماری جانے۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ آگاہی اور معلومات ہونے کے باوجود گندگی پھیلانے سے باز نہیں آتے اور دوسروں کو یہ درس دیتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے یا طہارت و پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔

جب تک ہم پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے اپنی زندگیوں کو اسوہ رسول کے مطابق نہیں کر لیتے اور خود غرضی کے خول کو اتار کر اجتماعی سوچ کو پروان نہیں چڑھائیں گے اس وقت تک طہارت و پاکیزگی اور صفائی نصف تو کیا پورے ایمان کے مترادف بھی ہو جائیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments