سرمایہ داروں کے مکر۔ چند تجربات


نیب اور ایف آئی کے پیشیاں بھگتنے والا شریف خاندان ہو، زرداری فیملی ہو یا جہانگیر ترین وہ سیاسی وجود کے ساتھ ساتھ ایک سرمایہ دارانہ وجود بھی رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بھی براجمان ہیں اور ملک کی اہم صنعتوں پر بھی اپنا گہرا رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ الزامات ہیں یا حقیقت مگر ہم تقریبا روز ہی حکومتی ایوانوں سے سنتے ہیں کہ ”فالودے والے اور پاپڑ والے کے بنک اکاؤنٹ سے اربوں روپے کے لین دین کیے گئے، جس کے پس منظر میں مذکورہ خاندانوں اور شخصیات ہیں“ ۔

پاکستان اور دنیا میں سرمایہ داروں کا تسلط اس قدر گہرا ہو گیا ہے کہ معیشت تو معیشت اب تو جمہوریت اور سیاست بھی سرمایہ دارانہ ہو گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سرمایہ صنعت میں لگتا اور ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوتے۔ لیکن اب سرمایہ زمین اور سوسائٹیوں میں لگنے لگا جس سے روزگار کے مواقع کم ہوتے گئے اور امیر، امیر ترین۔ راولپنڈی رنگ روڈ کا اسکینڈل، اسلام آباد سے میلوں دور جنگل میں بننے والی عبدالعلیم خان کی پارک ویو سوسائٹی کا سی ڈی اے میں شامل ہونا صرف دو مثالیں ہیں۔

اسلام آباد میں پارک ویو سوسائٹی اور بحریہ انکلیو کی قیمتوں کو مزید آسمان پر پہنچانے کے لیے اسلام آباد کے راول چوک پر ایک انٹر چینج پر کام تیزی سے جاری ہے۔ جواز یہ تراشا گیا ہے کہ ٹریفک کا بہاؤ، روانی میں خلل ڈالتا ہے۔ اگر جواز یہ ہی ہے تو مری روڈ پر بارہ کہو میں بھی صبح و شام ٹریفک کا بدترین ہجوم ہوتا ہے، یہاں چار سال سے فلائی اوور منظور کیا جا چکا ہے۔ لیکن ابھی تک ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔ بظاہر وجہ یہ ہی ہے کہ وہاں کسی سیاسی اور با اثر شخصیات کے سائے میں پروان چڑھنے والی سوسائٹیوں نے زور نہیں پکڑا ہے۔

بات سیاسی شخصیات کے سرمایہ دارانہ وجود سے چلی اور پرائیویٹ سوسائٹیوں کی جانب جا نکلی۔ سرمایہ داروں کی چالیں کس سے پوشیدہ ہیں؟ یہ ایف بی آر کی کمیٹیوں میں بھی شامل ہوتے ہیں اور اپنے کاروبار کے لئے مراعات اور آسانیاں حاصل کرتے ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں کی مالی معاونت کیا کرتے تھے اب مالی معاونت کے ساتھ ساتھ خود بھی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر ملک و قوم کی ”خدمت“ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ سرمایہ داروں نے کیسے قومی خزانے کو لوٹا اور بنکوں کو دیوالیہ کیا، اس حوالے سے اپنے چند تجربات پیش کرنا چاہوں گا کہ راقم تقریباً بتیس سال نجی کمپنیوں میں ملازمت کا تجربہ رکھتا ہے۔

کراچی میں ایک سیمنٹ فیکٹری تھی جس کی مشینری چند سال قبل زنگ آلود ہو کر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئی۔ نوے کی دہائی میں اس فیکٹری کا عروج تھا۔ این ڈی ایف سی کے نام سے ایک بنک بھی ہوا کرتا تھا جسے برباد کرنے میں مذکورہ کمپنی سر فہرست تھی۔ اس میں شک نہیں کہ سیمنٹ کمپنی نے اپنے ملازمین کو حد درجہ سہولیات دیں، لیکن اس وقت تک جب تک بنکوں کا سرمایہ اپنی جیب میں منتقل نہیں کر لیا۔ طریقہ یہ تھا کہ سیمنٹ ڈیلروں کے نام پر ظاہر کیے جانے والی رقوم سیٹھ کی ذاتی جیب میں جاتیں، ہزار کی چیز خریدی جاتی اور بل کئی گنا زیادہ کا بنوایا جاتا۔

ایسے لوگ بھی تھے جو چھے ضرب چھے فٹ کا دفتر رکھتے، کاغذات میں کروڑوں کا کام کرتے اور سیٹھوں کو خام مال کی سپلائی کے جعلی بل بنا کر دیا کرتے تھے۔ سیٹھ صاحب کرتے یہ کہ کبھی اسٹیٹ بنک کے سابق گورنر کو اہم عہدے پر اپنے یہاں ملازمت دے دیتے یا پھر کسی طاقتور ادارے سے ریٹائر ہونے والی شخصیت کو۔ ان کے ذریعے بنک کی قرض کی اقساط مؤخر کرواتے رہتے اور جب واجب الادا رقم حد سے بڑھ جاتی تو ری شیڈول کی درخواست دے دیتے اور پھر ایک دو اقساط دے کے کر، مؤخر کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا۔

سارے سال کی کاروباری سرگرمی کے اکاؤنٹ آڈٹ کے لیے دوبارہ بنتے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آڈٹ وہ کمپنی کرتی جس کا شمار ملک کی دو یا تین بڑی آڈٹ کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ آخر میں جب سینکڑوں لوگوں کی سالوں کی تنخواہیں اور ان کی گریجویٹی کی رقوم واجب الادا ہو گئیں تو کمپنی دیوالیہ قرار دے کر بند کردی گئی۔ کئی لوگ صدمے سے جان سے گئے اور جو زندہ رہے وہ درگور۔

اسی طرح ایک اور فیکٹری ہے، جس کا ابتدائی پلانٹ 1994۔ 95 ء میں سات ارب روپے کی لاگت سے لگا اور آج اس کا ایک سال کا ظاہر کردہ منافع بارہ یا تیرہ ارب ہوتا ہے جب کہ اصل اور پوشیدہ منافع اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ملازمین پر سختی کا یہ عالم تھا کہ لاہور کی سخت ترین سردی میں 20 ضرب  12 کے کمرے میں سنگل راڈ کا بجلی کا ہیٹر استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ جس سے سردی کیا کم ہوتی صرف سیگرٹ ہی سلگائی جا سکتی تھی۔ ملازمین کو بنک میں رقوم جمع کروانے کے لیے دفتر کی کاریں ہونے کے باوجود ویگن کے استعمال کی ہدایت تھی اور رقم گم ہونے کی صورت میں تنخواہ سے وصول کیے جانے کی دھمکی۔

ناکارہ مشینری مرمت کی غرض سے بیرون ملک بھیجی جاتی اور پرانی مشینری کے نمبر نئی مشین پر ٹیمپر کر کے ثبت کر دیے جاتے اور نئی مشینری پرانی کے مشینری کے نام پر درآمد کر کے ڈیوٹی کی مد میں کروڑوں روپے بچائے جاتے۔ سات ارب کے ابتدائی سرمائے سے لگنے والی کمپنی نے دن دگنی رات چوگنی ”ترقی“ کی اور آج تعمیرات کے شعبے کی خوش قسمت کمپنی کے طور پر جانی جاتی ہے۔

تقریباً بیس سال قبل لاہور میں ایک صاحب سے ملنے گیا جو ایلوپیتھی کی دواؤں کا کاروبار کرتے تھے اور کچھ عرصہ پہلے تک ایک مذہبی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے تھے۔ ان سے ملاقات کے وقت میرے ہاتھوں میں شیر جنگ صاحب کی کتاب ”کارل مارکس اور اس کی تعلیمات“ اور علی عباس جلالپوری کی ”فکری مغالطے“ تھیں۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد کتابیں دیکھتے ہوئے بولے کہ آپ مارکس کے بارے میں پڑھتے ہیں اور کس نے یہ کتابیں تجویز کی ہیں؟

اور ساتھ ہی مارکس کی فکر پر تنقید شروع کردی جس میں علمی دلائل کم اور سرمایہ دارانہ تعصب زیادہ تھا۔ میں نے بتایا کہ ڈاکٹر الطاف جاوید صاحب نے۔ او ہو! ، آپ ان سے ملتے ہیں؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل ہے اور بہت سچے نیک اور اپنے نظریات سے مخلص شخصیت ہیں۔ تو فرمانے لگے ہاں ہیں تو نیک لیکن کمیونسٹ ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ کارل مارکس کی فکر کے اس حصے جو سرمایہ داری نظام کے استحصال سے متعلق ہے سے تو وہ متفق ہیں

لیکن مارکس کے مذہبی نظریات سے وہ اتفاق نہیں کرتے اور ان کی کتاب ”سوویت یونین کا زوال اور اسلام“ آپ کی غلط فہمی دور کردے گی۔ اسی دوران ان کے دفتر ایک فرد دواؤں کی فروخت کا بل لے کر آیا جس پر ان کے دست خط درکار تھے۔ پہلے انہوں نے اپنے ملازم کو کہا کہ انوائس دینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب انھیں میری موجودگی کا احساس ہوا تو کہا کہ ”اگر وہ انوائس مانگیں تو پھر دے دینا“ ۔

یہ ہیں فقط چند مثالیں سرمایہ داروں کے مکر و فریب کی۔ اقبال ؔنے اسی لیے تو کہا تھا کہ :
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments