لاہور جانے کو دل کرتا ہے


دل کرتا ہے سب چھوڑ چھاڑ لاہور چلا جاؤں کسی سے نہ ملوں نہ کسی کو نہ بتاؤں لاہور کی موریاں ہوں اور دروازے دن رات ان کے سنگ بتاؤں، بناؤں تصویریں صبح و شام کی اور مست ہو جاؤں۔ جہانگیر کا مقبرہ کئی دن وہاں گزار دوں، اس کے مینار درخت۔ نورجہاں کا مقبرہ پھر چلا جاؤں مینار پاکستان مجھے قائد کی خوشبو آتی ہے وہاں سے کبھی اس پر اوپر جانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میرے قائد کے پاؤں اس زمین پر لگے ہوئے ہیں پھر تھوڑا اگے بائیں ہو کر بادشاہی مسجد کی باہر سے تصویر بناؤں اور پھر حضوری باغ کے پاس سے مسجد اور مسجد کے اندر داخل ہو جاؤں سامنے کیا خوبصورت جیومیٹری فن تعمیر تصویریں بناتا جاؤں ہر راہداری برآمدہ ہال مینار دروازے سب کی تصویریں بناتا جاؤں کئی دن شامیں راتیں یہاں گزاروں اور راتوں کی پراسراریت کو دوبارہ محسوس کروں جیسے رات بارہ بجے کے بعد آپ کے ساتھ ساتھ کوئی چلتا ہو اور کہتا کچھ نہ ہو۔
وہاں سے کئی روز اعتکاف کر کے نکلوں اور قلعہ بند ہو جاؤں پہلے تو چڑھوں چھت پر بناؤں تصویر بادشاہی مسجد کی مکمل اور پھر واپس آوں نیچے دوڑتا پھروں کبھی دیوان عام کبھی دیوان خاص کبھی شیش محل اور کبھی اس کی چھت کبھی تہہ خانے قید ہو جاؤں کوڑے کھاوں اذیتیں سہوں اور پھر وہاں سے بادشاہی مسجد کے خوبصورت مناظر طلوع آفتاب بھی اور غروب آفتاب بھی وہاں سے نکلوں چھوٹے دروازے سے اور جاؤں اقبال حسین کو سلام کروں ان کو جو تکلیفیں دیتے ہیں ان سے حساب کروں اور ٹکسالی رہوں وہاں بھی کئی دن کچھ یادیں سید صفدر حسین شاہ بخاری صاحب عرف کاکی تاڑ کی اور کچھ گھنگھروؤں کی چھن چھن کی بناؤں تصویریں بازاروں کی۔


کھسہ کیسے بنتا ہے اور طبلہ کیسے بنتا ہے چلتا جاؤں اور نہ دیکھوں مڑ کر بھی پھجے پائے والے کو اور داخل ہو جاؤں رنگ محل جیولری کپڑے سب کی تصویریں بناتا نکل جاؤں شاہ عالم مارکیٹ وہاں سے دلی دروازے بیٹھ جاؤں اور یاد کروں وہ بے نظیر صاحبہ کے یاد گار جلسے وہ قاضی حسین احمد کے نعرے ظالمو قاضی آ رہا ہے وہاں سے سنہری مسجد۔ مسجد وزیر خان کیا بات ہے مسجد وزیر خان کی اس کے کبوتروں کی اس کی چکیں ہٹواؤں وہ ہمیشہ میری تصویر خراب کر دیتی ہیں پھر اس کی چھت پر جاؤں کبھی گنبدوں کے آگے کبھی پیچھے ہر زاویے سے دیکھو کیا کاریگر تھے سبحان اللہ۔ پھر نکلوں اور دیکھوں نئی رنگ ہوئی ہوئی گلیاں دیسی مرغیوں کے جال اور بازار وہاں سے چلا جاؤں برانڈرتھ روڈ، مشینیں بیلٹ اوزار سب دیکھوں نکل جاؤں ریلوے اسٹیشن کیا بلڈنگ ہے کیا جادو ہے براون پٹڑیاں اور لال بلڈنگ اور وہ ڈرا دینے والی آواز پلیٹ فارم نمبر 2 پر شالیمار ایکسپریس آ گئی ہے۔

نکلوں وہاں سے شالامار باغ جاؤں دیکھوں پانی کے جھرنے دیے جلانے والے طاق اور فوارے۔ جامن کے درخت آم کے درخت آگے جھومتا ہوا نکل جاؤں واہگہ باڈر پاک فوج کو سلام کروں تھوڑی دیر بی آر بی کے کنارے جہاں عزیز بھٹی صاحب شہید ہوئے تھے بیٹھوں ان کو یاد کروں دعا کروں اور نکل آؤں جلو پارک اور کروں یاد اس کے پرندے جانور کھیت پانی کے کھیل اور واپس آؤں نہر کے راستے اور مال روڈ پر چلوں تو ممکن نہیں جناح باغ لارنس گارڈن نہ جاؤں وہاں کا ایک ایک درخت میرا دوست، سب کو سلام کروں۔ کرکٹ گراؤنڈ بارہ دری پہاڑی کینٹین اور لائبریری پھر جو نکلوں دوسری طرف لارنس روڈ تو گول گپے نہ کھاؤں۔ اوئے یہ کیا خبر وہ بابا مر گیا، اب اس کا بھائی گول گپے لگاتا ہے پر وہ ذائقہ نہیں نہ ہی کھٹا اتنا ٹھنڈا۔


پھر وہاں سے چلتا ہوا ٹمپل روڈ سے پہلے کاغان فوڈز کا آئس کریم ملک شیک پیوں اور جاؤں سیدھا 5 ٹمپل روڈ۔ سلام کروں پرانی رہائش گاہ انکل آئی اے رحمن صاحب کی اس کی تصویریں بناؤں کتنے دن اور راتیں یہاں گزریں اب تو وہاں سے سب ہی چلے گئے باہر آؤں ریگل چوک کشمش والی فروٹ چاٹ کھاؤں اور جاؤں واپڈا ہاؤس میری زندگی کی سب سے بڑی بلڈنگ، اس کی تصویر بناؤں۔ پنجاب اسمبلی اور نکل جاؤں نسبت روڈ کیونکہ سب فوٹو گرافرز کی کوئی نہ کوئی نسبت ضرور ہے نسبت روڈ سے سب کو سلام کروں اور میو ہسپتال کا چکر لگا کر ہریسہ کھاوں گوالمنڈی کا اور فوڈ سٹریٹ سے ہوتا ہوا بانساں والا بازار سے ہوتا ہوا بھاٹی گیٹ کچھ تصویریں ذرا رات ہونے کا انتظار کروں۔ وارث کی نہاری بڑا پیالہ چار نان اور دو ٹھنڈی سپرائٹ، مزا آ گیا۔ نکلوں اور پہنچوں داتا دربار۔ رات وہاں قیام کروں، ہر ایک سے پوچھوں کیا سین ہے دیگوں کی تصویریں ملنگوں کی تصویریں دربار کی تصویریں بازار کی تصویریں۔ واہ جی لو جی دھمال ڈالنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ پہلے ڈھول والے کی تصویریں پھر دھمال والوں کی اور پھر کیمرہ بیگ ڈھول والے کے حوالے اور ہو جائے دھمال۔ بہت عرصے بعد پسینہ بھی نکلا اور مزا بھی آیا۔
سانس لیا کیمرہ بیگ اور چار گلاس حاجی مینگو جوس بس اور چل پڑا مال روڈ کی طرف۔ سنٹرل ماڈل سکول، اردو بازار، گورنمنٹ کالج، یار کتنا پرانا ہو گیا پر ویسے کا ویسا ہی پیارا، تیری میری نسبت بہت پیاری مرشد آصف حسین زیدی کا کالج سلام جناب اور سامنے مرشد کی پرانی رہائش گاہ اور ناصر باغ سیاسی جلسہ گاہ اور آ گیا جناح ہال تے میرا کالج نیشنل کالج آف آرٹس۔ دل خوش ہو گیا جی آپ اندر نہیں جا سکتے کیوں جناب میں یہاں کا طالب علم تھا، میری مادر علمی ہے۔ میں سارا لاہور پھر آیا، کسی نے نہیں روکا، معافی چاہتا ہوں اجازت نہیں۔ کسی کو فون کر لیں، شاید اجازت مل جائے پھر دل ہی نہیں کیا، کمز پر چائے پی۔ میوزیم میں چلا گیا آنکھیں بھر آئیں تھیں میوزیم ایک اندھیری جگہ ہے۔ آسانی سے آنسو صاف کر سکتے ہیں۔ شاکر صاحب کے کام کے آگے کھڑے ہو کر شکایت کی، سر یہ ہمیں ہمارے کالج نہیں جانے دیتے ان کے ایک کبوتر کی آنکھ بھی بھر آئی۔ یہ کیسے ممکن ہے۔


پھر استاد اللہ بخش کو بھی بتایا سب بے بس تھے وہاں سے نکل کر پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ چلا گیا بھلے لوگ تھے کسی نے نہیں پوچھا کون ایک دو نے تو پہچان بھی لیا۔ دکھ کچھ کم ہوا، کچھ تصویریں بنائیں اینا مولکا احمد صاحبہ کے لئے دعا کی کہ آپ نے اچھا ادارہ بنایا کم از کم آرٹسٹ کی قدر تو ہے، کوئی بندوق والا نہیں ہے۔ باہر نکلا تو سامنے میوزیم کے باہر کھڑے پیتل کے بابے سے بھی شکایت کی اور پھر ٹولنگٹن مارکیٹ کو دیکھا اور تھک کر بیٹھ گیا۔ چوبرجی جانا چاہتا تھا سنا ہے بدل گیا ہے۔ وہاں چوبرجی چھوٹی ہو گئی ہے اور میانی صاحب کا قبرستان بڑا ہو گیا ہے۔ سارا لاہور ویسے کا ویسا تھا بس میرا کالج قید ہو گیا تھا سیکورٹی لوہے کی دیواریں اور بڑے بڑے گیٹ۔
مجھے بڑا سکون ملا۔ سب گلیاں سب دروازے گھوما سب کی تصویریں بنائیں پر نئے لاہور میں جانا نہیں چاہتا تھا میں پرانا بندہ ہوں پرانے لاہور میں ہی پھرنا چاہتا ہوں وہ تو اللہ بھلا کرے میری بیوی کا جس نے سوتے سے جگا کر پوچھا، اظہر خیریت ہے؟ کیا دل کرتا ہے؟ مجھے بتائیں، آپ سوتے میں بار بار کہہ رہے تھے، میرا دل کرتا ہے، میرا دل کرتا ہے۔ میں رونے لگ گیا۔ کیا ہوا میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہو گئی۔ نہیں میری جان بس تم سب مجھے لاہور جانے نہیں دیتے اور میرا دل کرتا ہے۔ اچھا چلے جائیں کتنے دن کے کپڑے رکھوں؟ میرا جواب تھا ہمیشہ کے۔
کیوں کیا مطلب آپ کا؟
دل جو کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments