اشرف غنی حکومت کا 6 ماہ میں خاتمہ؟


افغانستان سے امریکن افواج کے بتدریج انخلاء کے بعد ہی افغان طالبان کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان طالبان نے 421 میں سے 8 1 ضلعوں کا تو عملی چارج سنبھال لیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ تاجک سرحد کے قریب طالبان ایک بار پھر قندوز شہر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ مسلسل ہزیمت کے ہاتھوں تنگ افغان صدر اشرف غنی نے وزیردفاع، آرمی چیف کو ہٹا دیا۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے افغان وزیردفاع نے شہریوں کو افغان طالبان سے لڑنے کی صورت میں اسلحہ فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ طالبان کی مسلسل کامیابیوں کے مدنظر رکھتے ہوئے اشرف غنی حکومت کے سب سے بڑے اتحادی اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو مالی، تربیتی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والے انڈیا نے بھی اپنے اتحادی سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔

ترکی کی خبر ایجنسی کے مطابق بھارتی حکام نے افغان طالبان کے مذاکراتی گروہ سے دوہا میں ملاقات کی ہے، خبر ایجنسی کے دعوی کے مطابق انڈین وفد کی قیادت بھارتی وزیرخارجہ نے کی۔ یہ سب افغانستان میں نئی حکومت کی طرف اشارہ تو کر ہی رہے تھے کہ معروف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی تہلکہ خیز رپورٹ نے تو اشرف غنی حکومت کے سر پر بم پھوڑ دیا ہے۔ امریکی اخبار نے امریکی انٹیلی جینس حکام کے حوالے سے افغانستان سے فوجی انخلاء کے نتائج پر رپورٹ شائع کی ہے۔

امریکی انٹیلی جنس کے مطابق انخلا مکمل ہونے کے بعد صدر اشرف غنی 6 سے 12 ماہ بھی برسراقتدار نہیں رہ سکیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر غنی امریکی فوج کے بغیر 3 ماہ بھی نہیں نکال پائیں گے۔ مغربی سفارتی ذرائع تو ڈاکٹر اشرف غنی کو اس سے بھی کم مہلت دے رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے جاننے کے بعد زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں کابل بھی طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں شمالی افغانستان میں طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں تیزی سے اضافہ ہوا، تاجک سرحد کے قریب طالبان ایک بار پھر قندوز شہر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں، سورت حال یہ ہے کہ بعض علاقوں میں کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم افغان فوجیوں نے قبائلی عمائدین کی حمایت سے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ طالبان کی کامیابیوں سے صدر اشرف غنی کی رہی سہی عملداری بھی متاثر ہونے لگی ہے مزار شریف میں طالبان کے خلاف مقامی جنگجو کمانڈرز متحرک ہونے سے کابل حکومت کو دھچکا لگا ہے کیونکہ صدر اشرف غنی مقامی جنگجو کمانڈرز کو بھی اپنی رٹ کے خلاف سمجھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکی منصوبہ ساز خاص طور پر کابل سے عملے کے انخلا کے لئے مستعد ہو چکے ہیں، وال اسٹریٹ جرنل نے دعوی کیا ہے کہ طالبان کی حالیہ کامیابیوں کے بعد وائٹ ہاؤس کا بگرام ائر بیس فوری خالی نہ کرنے بھی غور کیا جا رہا ہے تا کہ بگرام ایئربیس کو ضرورت پڑنے پر امریکی و نیٹو حکام اور دیگر غیر ملکیوں کے ہنگامی انخلا کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ فروری 2020 میں طالبان سے سمجھوتے کے تحت امریکہ افغانستان سے اپنے نصف فوجی نکال چکا ہے اور رواں سال 11 ستمبر تک امریکہ مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائے گا۔

امریکی انٹیلی جینس اداروں کی اس رپورٹ سے خطے میں گریٹ گیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک طرف امریکن سینیٹرز کی جانب سے بائیڈن حکومت کو وزیراعظم عمران خان سے فوجی انخلاء پر بات چیت نہ کرنے پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے وہیں تہران سے بھی اس حوالے سے مشاورت نہ کیے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکی موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان سے اڈے مانگنے مگر انخلاء پر مشاورت نہ کیے جانے اور بھارتی وزیرخارجہ کی افغان طالبان سے ملاقات امریکن اور بھارتی گٹھ جوڑ کی گریٹ گیم کا عندیہ دے رہی ہیں۔

کیونکہ امریکا اب روس کے بجائے چین کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہا ہے اور بھارت کو جنوبی ایشیاء میں نیا چودھری بنا کر چین کے خطرے سے نمٹنا چاہ رہا ہے۔ بھارت بھی امریکہ کی خوشنودی اور چودھراہٹ کے لئے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تک بحال کرنے جا رہا ہے، تاکہ اس اقدام سے جمہوریت ہونے کا ڈھونگ رچا سکے اور مغربی ممالک کی ہمدردیاں سمیٹ سکے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ لاہور دھماکے کے تانے بانے بھی سی آئی اے اور را کے گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، پنجاب پولیس نے حساس اداروں کی مدد سے ائرپورٹ سے ماسٹر مائنڈ کو چوبیس گھنٹوں میں ہی گرفتار کر لیا گیا۔ جس نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں، سی ٹی ڈی پن ذرائع کے مطابق ڈیوڈ پال نے غیر ملکی فنڈنگ اور نیٹ ورک آپریشن کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔ یہ سب کواکب بتاتے ہیں کہ خطے میں مستقل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments