بزرگ افراد، معذور پنشنرز اور ٹرانس جینڈرز کے مسائل



جب بھی مہینے کے شروع میں گھر کے پاس موجود نیشنل بنک کے پاس سے گزرتا ہوں تو اکثر صبح 7 بجے سے بھی پہلے وہاں بزرگ پنشنرز کی ایک اچھی خاصی تعداد پنشن کے حصول کے لیے آ کر کھڑی ہوتی ہے اور انہیں دیکھ کر جب ملک کے موجودہ وزیراعظم کا یہ بیان یاد آتا ہے کہ

”میں یورپ کو سب سے زیادہ جانتا ہوں“

تو غصے کی ایک لہر سی بدن میں دوڑ جاتی ہے کہ موصوف صرف باتوں کی حد تک ہی مصروف رہتے ہیں اور کام کے نہ کاج کے ہیں کہ اب تک ان برسوں سرکاری اداروں میں بیٹھ کر قوم و ملک کی خدمت کرنے والوں کے لیے گھر بیٹھ کر پنشن تک کا حصول بھی ممکن نہ بنا سکے ہیں، حالانکہ یہ کام نہایت ہی آسان ہے اور اس کے لیے محکمہ ڈاک کی خدمات سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اول تو بنک جانے کے عذاب اور وہاں طویل انتظار سے ان بزرگ خواتین و حضرات کی جان چھوٹ جائے گی دوسرا دیکھا گیا ہے کہ پنشن لے کر آنے والے ان بزرگ افراد کو نوسرباز اور چور اچکے آسانی سے لوٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، کسی اور کی کیا بات کرنی خود خاکسار کے مرحوم والد سے چند سال قبل ڈی سی او اور ڈی پی او آفس کے بالکل ساتھ موجود بنک سے نکلتے ہی چند نو سربازوں 35 ہزار روپے ہتھیا کر رفوچکر ہو گئے تھے اور اس طرح کی وارداتیں عموماً بزرگ شہریوں کے ساتھ ہوتی رہتی ہیں اور اگر انہیں پنشن گھروں میں ملنے لگ جائے تو وہ نہ صرف مالی لحاظ سے بلکہ جانی حوالے سے بھی خود کو محفوظ و مامون خیال کرنا شروع کردیں گے، محمکہ ڈاک اس ضمن میں گھر تک پنشن پہنچانے کے چارجز وصول کر کے اپنی آمدنی بھی بڑھا سکتا ہے لیکن اتنی خدمات کے بعد ان بزرگوں تک ان کی پنشن فری پہنچائی جائے تو انہیں قوم و ملک کی خود سے نہ صرف محبت اور جڑت کا احساس ہوگا بلکہ وہ اس بات پر فخر بھی محسوس کریں گے کہ ان کا اس عمر میں اس عمدہ طریقے سے خیال رکھا جا رہا ہے اور دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بنک خود سے اپنا عملہ اس کام کے لیے رکھ لیں اور وہ بھی یہ کام کر سکتے ہیں کہ اوًل تو اپنے کسٹمرز کا خصوصی خیال رکھنا ان کے بنک کی شہرت میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے، حیرت ہے کہ اب تک بنکوں کو اس چیز کی طرف توجہ دینے کا خیال کیوں نہیں آیا ہے؟

کیا بنکس صرف کسٹمرز کی دولت سے منافع کے حصول کے لیے ہی ہوتے ہیں؟ اسٹیٹ بنک آف پاکستان سینیئر سٹیزن کے لیے خصوصی انتظامات کرنے کے احکامات جاری کیوں نہیں کرتا ہے؟ المیہ ہے کہ ریاستی بنک بھی بھرپور غفلت کا مظاہرہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور 76 سال بعد بھی اس کے پالیسی ساز بنکوں کے بزرگ کسٹمرز کے لیے کوئی آسانی پیدا نہیں کرسکے ہیں، ہمارے اسٹیٹ بنک کے بزرجمہرز کبھی دھوپ، گرمی اور حبس میں پسینے سے شرابور اور سردی میں بری طرح کپکپاتے ان بزرگوں کو دیکھ لیں تو شاید انہیں ترس بھی آ جائے لیکن ایئرکنڈیشنروں اور ہیٹروں کی آغوش میں آرام فرما یہ بابو ٹائپ مخلوق عوام نامی گرامی مخلوق کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھے گی تو انہیں ان کا احساس ہوگا، دکھ کی بات ہے کہ پوری دنیا میں ملک و قوم کی خدمات کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگیاں گزارنے والوں کو خصوصی مراعات دی جاتی ہیں اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے لیکن یہاں گنگا اور جمنا دونوں ہی الٹی بہائی جا رہی ہیں اور پھر بھی راوی اور جہلم چین ہی لکھ رہے ہیں اور زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ میں گزارنے کے دعوے دار اپنے شاہی بنی گالوں میں 50 روپے فی کلو میٹری چاپروں میں بیٹھ کر آتے جاتے ہیں اور ڈھٹائی سے تبدیلی تبدیلی کے نعرے بھی لگاتے رہتے ہیں اور بوڑھی خواتین جس طرح بنکوں میں کھڑی ہوتی ہیں انہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور ہمارے ریاست مدینہ والے میاں خلیفہ ہیں کہ عورتوں کے لیے ایسے ایسے ارطغرلیانہ بھاشن دیتے ہیں کہ بندہ حیرانی سے ان کے قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے، انسان سوچتا ہے کہ اب تک انہوں نے خواتین کے لیے آخر کیا کیا ہے؟ ہاں کسی کی موٹروے پر عزت لٹی ہے تو ان کے پسندیدہ پولیس افسر نے اس کا قصوروار بھی اسی متاثرہ خاتون ہی کو ٹھہرایا تھا اور خود میاں خلیفہ بھی خواتین کی مختصر لباسی کو ”فساد کی جڑ“ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ

” مرد کوئی روبوٹ تو ہے نہیں کہ اس پر مختصر لباسی کا“ اثر ”نہ ہو“

اللہ جانے چار پانچ سالہ بچیاں کن معنوں میں مختصر لباس زیب تن کیے ہوتی ہیں؟ اور قبروں میں پڑی خواتین کی میتیں نکال کر ریپ کرنے والے مکروہ درندے کیا دیکھ کر حرم زدگی کے مرتکب ہوتے ہیں؟ اور نوعمر لڑکوں کی عصمت دری کے درپے ہونے والے ان کے کس نوعیت کے ننگے پن سے ”اثر“ پکڑ کر مفتی عزیز الرحمن بن جاتے ہیں؟

اسی طرح معذور پنشنرز بھی ہماری اجتماعی بے حسی کا شکار ہیں کہ ہم بجائے انہیں ایسی حالت میں مزید نوازنے اور آسانیاں فراہم کرنے کے ہم انہیں تنگ کرتے ہیں اور اتنا زچ کر دیتے ہیں کہ وہ بے چارے مرنے کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، اوًل تو معذور پنشنرز کو ریٹائرمنٹ کے بعد ڈبل پنشن دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنی معذوری کے باوجود بھی ملک و قوم کی احسن انداز میں خدمت کی اور باعزت طریقے سے گھروں کو لوٹے اور اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو کیا ان کا حق نہیں بنتا کہ ان کی پنشن انہیں نہایت آسانی سے اور ہر صورت میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو گھر بیٹھے ہی مل جائے؟

باقی رہے ٹرانس جینڈرز تو ان کے مسائل اس لیے بھی گمبھیر ہیں کہ ہم انہیں انسان بھی سمجھنے سے بھاگتے ہیں، حالانکہ جس اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے انہیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے لیکن پھر بھی ٹرانس جین۔ ڈرز معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے ابتر حالت میں ملتے ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے، یہاں بس ایک تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ جس طرح مختلف شہروں میں بے گھر، مصیبت زدہ اور لاوارث خواتین کے لیے ”دارالامان“ وغیرہ بنائے گئے ہیں، کیا ان ٹرانس جینڈرز کے لیے ایسی خصوصی جگہیں نہیں بنائی جا سکتی ہیں؟ جناب وزیراعظم چند پناہ گاہیں ان ٹرانس جینڈرز کے لیے اب تک کیوں نہ بنا پائے ہیں؟

جناب وزیراعظم! یہ ٹرانس جینڈرز بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور آپ ان کے بھی وزیراعظم ہیں ,اگر آپ کو ان کے لیے پناہ گاہیں بناتے ہوئے لاج آتی ہے تو انہیں ملک بدر کردیں تاکہ یہ کہیں جاکر سکون سے جی مر تو سکیں۔ کیا آپ میری بات سن رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments