افغانستان ! بادشاہتوں کا قبرستان


کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔

برطانوی استعمار نے بھی افغانیوں کو زیر کرنے کے لئے تین بڑی جنگیں لڑیں مگر افسوس کے بھاری جانی اور مالی نقصان کے علاوہ جو ہزیمت برطانیہ کو اٹھانا پڑی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ افغان قوم جری، سخت کوش اور سنگلاخ پہاڑوں کی خصوصیات کی حامل تھی جب کہ گوروں کے لئے وہاں کی گرم یا سرد ہوائیں ہی موت کا پیغام بننے لگتیں تھیں اور ان پہاڑوں کے داؤ پیچ، ان کی اترائیاں اور چڑھائیاں ان کی گھاٹیاں اور غار ان کے لئے یکسر اجنبی تھے۔ ایک جنگ کے دوران جب ہزاروں برطانوی اور ان کی زیر نگر کالونیز کے سپاہیؤں کو افغانی فوج نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، ساری فوج کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر ایک، فقط ایک فوجی کو زندہ رکھا جو ڈاکٹر تھا کہ وہ اس عبرتناک قتل عام کی کہانی اپنے صاحب اقتدار کو سنا سکے۔

روس میں بالشویک انقلاب کے بعد افغانستان کا جھکاؤ مکمل طور روس کی طرف تھا اور تب ہی کمیونزم کے بیج بو دیے گئے تھے۔ ظاہر شاہ کا تختہ 1973 میں الٹا گیا اور بظاہر یہ کارروائی محمد داؤد خان کی تھی جن کی قریبی رشتہ داری ظاہر شاہ کے ساتھ تھی مگر داؤد خان نے ایک ڈسٹرب سی صورتحال میں تقریباً پانچ سال حکومت کی اور 1978 کی بغاوت میں انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس سے اگلے برس روس نے گرم پانیوں تک کی رسائی کے لئے (دروغ بر گردن) افغانستان میں قدم رکھ کر گویا ایک ایسا کمبل اوڑھ لیا جسے اس نے جب چھوڑنا چاہا تو کئی ٹکڑوں میں بٹے بغیر چھوڑ نا سکا۔

داؤد کے بعد ترکئی پھر حفیظ اللہ امین اور آخری صدر نجیب اللہ جس کی موت سب سے بھیانک تھی اور اس کو اس انجام سے دو چار مجاہدین نے کیا تھا۔ وہ عرصہ اقتدار میں تقریباً پانچ سال رہا۔ ان مجاہدین کو پاکستانی افواج کی کمک اور پاکستان کے لئے امریکہ کی مدد، بہترین جنگی حکمت عملی، ڈالرز کی فراوانی اور پیشہ ور فوج کی رہنمائی نے ایک عجب کامیابی سے ہمکنار کیا۔ پاکستانی صدر جنرل ضیا الحق جو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام یا کہہ لیں مغرب کے لئے ناقابل قبول تھے وہ راتوں رات سب کی آنکھ کا تارا بن گئے لیکن پاکستان اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے مگر آج ہمارا موضوع یہ نہیں ہے۔

آج سے تقریباً بیس سال پہلے یعنی 9 / 11 کے فوراً بعد صدر جارج بش جونئیر نے افغانستان کے خلاف اعلان جنگ کیا تو فرمایا کہ یہ پتھر کے زمانے کا ملک جو دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے، ہم اسے صفحہ ہستی مٹا دیں گے۔ اس کو متکبرانہ دعوی نہیں کہہ سکتے کیونکہ امریکہ بہادر اگر چاہتا تو کیا مشکل تھا مگر بعض جنگیں جاری رکھنے کے لئے شروع کی جاتی ہیں اور وہ جیتنے کے لئے نہیں ہوتیں۔

مشہور برطانوی صحافی انتھونی سیمسن کی شہرہ آفاق کتاب ”دا آرمز بازار“ اس مفروضے کو مضبوط کرتی ہے جس کے دیباچے میں وہ کہتا ہے

”جنگ تمام کاروباروں کی طرح ایک کاروبار ہے اور اس کا اخلاقیات یا انسانی جان کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کاروبار میں بنی نوع کے خون پر منافع پر حاصل کیا جاتا ہے اور اس منافع کے بٹوارے انھی ملکوں کے کرتا دھرتا بھی شامل ہوتے ہیں“

غالب امکان ہے کہ افغان جنگ بھی جاری رکھنے کے لئے شروع کی گئی تھی۔ امریکہ کے اندر بھی بے شمار لوگوں نے اس جنگ کے جاری رہنے پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں جس میں پیش پیش امریکی صحافی باب وڈ ورڈ نے 2006 میں اپنی کتاب ”دا سٹیٹ آف ڈینائل“ میں پہلی بار افغان جنگ (اور عراق جنگ) کو شدید تنقید نشانہ بنایا اور کہا کہ امریکی قیادت حالات کی قہر سامانی سے آنکھیں چرا رہی ہے مگر اس وقت کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے تین فرمودات ایسے جاری کیے کہ امریکہ کے کرتا دھرتاؤں نے اش اش کرتے ہوئے ان کا دفاع دیوانہ وار کیا۔ فرمودات مندرجہ زیل تھے۔

آپ کا دشمن کہیں نہیں ہے مگر ہر جگہ ہے۔ یہ کم از کم دو نسلوں کی جنگ ہے اور پچاس سال تک جا سکتی ہے۔  ان کا The known or unknownکا فلسفہ ہے کہ وجہ اور بے وجہ سب کو شک کی نظر سے دیکھیں۔

مگر ستم ظریفی ہے کہ یہ قدرت کا نظام ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سچ آشکار ہو کر رہتا ہے اور کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پتھر کے زمانے کے افغانوں نے بے حد قابل امریکی جرنیلوں بلکہ ہم قابل ترین کہہ سکتے ہیں کے کیرئیرز کو برباد کر دیا۔

اگرچہ فہرست تو طویل ہے مگر جنرل پیٹریاس، جنرل سٹینلے میک ارسٹل اور ایڈمرل مولن امریکی آرڈیننس کے تحت خاموشی سے گمنامی کے پردے میں چلے گئے اور نا تو پیٹریاس کی ڈاکٹرائن آف عراق کامیاب ہو سکی 2006 میں جسے نافذ کرنے وہ افغانستان تشریف لے گئے تھے اور 2009 میں برخواستگی سے پہلے جب وہ کارکردگی کی ناکامی پر کانگریس میں بریفنگ دینے آئے تو چکرا کر گر گئے مگر پینٹاگان کی طرف سے وضاحت آئی کہ ان کی طبعیت ناشتا نا کنے سے خراب ہو گئی تھی اور نا ہی مائک مولن ریپبلیکن کی طرف سے 2024 صدارتی امیدوار نامزد ہو سکے تھے جو ان کا خواب تھا اور اس ذکر انھوں نے شاید پاکستانی اعلی فوجی قیادت سے بھی کیا تھا۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کی تمام حقائق یا افواہیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہوتی ہیں اور وہ ہے سیتھ جونز کی کتاب

”In The Graveyard Of Empires“

American War In Afghanistan

جونز کی کتاب ایک پرانی برطانوی فوجی افسر کی لکھی ہوئی کتاب کی تجدید کہہ سکتے ہیں جس میں مصنف کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک ایسی بے رحم دھرتی ہے کہ جن بادشاہتوں نے اسے زیر کرنا چاہا وہ ناکام رہیں اور بلکہ بربادی تک پہنچ گئی۔ سمتھ جونز نے ان ناکام کوششوں میں سوویت یونین کی بربادی کا اور ناکام امریکی مہم کا ذکر کیا ہے۔

شنید ہے کہ جنرل میک کرسٹل نے یہ کتاب پڑھی اور اس کے مندرجات کا ذکر اپنی اعلی کمانڈ کے ساتھ کیا تھا۔ وہ اس چیز پر متفق تھے کہ افغانستان کو مکمل زیر نگین نہیں کیا جا سکتا۔ صدر اوباما نے انھیں برخواست کر دیا کہ بظاہر رولنگ سٹون کا انٹرویو اس کا سبب بنا مگر اصل میں ان پر اپنی گفتگو سے فوج میں بد دلی پھیلانے کا الزام تھا۔

ایڈمرل مولن جب ان کے جانشین کے طور پر آئے اور بقول شخصے انھوں نے اس کتاب کے مندرجات کا ذکر پاکستانی اعلی فوجی قیادت سے کیا اور افغانستان پر ایک کامیاب قبضے کی خواہش ظاہر کی سو ان کو 2024 کا اگلا ریپبلیکن صدارتی امیدوار نامزد کیا جا سکے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے ایک مشروط تعاون کی پیشکش بھی ہوئی جس میں کلیدی شرط collateral damage کے نام پر معصوم افغانیوں کا خون بہانے سے اجتناب کیا جائے (خاص طور پر ڈرون کے استعمال سے ) وہ جنگجو گروپ جو جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کی کارروائیاں روکی جائیں اور افغانستان کی تعمیر نو کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کیا جائے۔

صد افسوس کہ امریکہ کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسی نے ایڈمیرل مولن کے خواب خاک میں ملا دیے۔

گیارہ سالہ سوویت قبضے کے دوران کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہے جس سے ملتا جلتا واقعہ امریکی قبضے کے دوران پیش نا آیا ہو اور امریکی قیادت محض اتفاق سے یا ”بھولے پاہ“ اس مسئلے میں انوالو نہیں ہوئی اور اب اس کے اعلی فوجی عہدیدار بر ملا یہ اعتراف کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ کوئی جنگ نہیں جیتے تو اس سوچ کو تقویت ملتی ہے کہ جنگیں جاری رکھنے کے لئے شروع کی جاتی ہیں۔

وہ امریکی عہدیدار جو ایک سے زائد بار افغانستان میں تعینات رہ چکے ہیں وہ نجی محفلوں میں عام افغان کی سخت جانی اور حمیعت کا ذکر کرتے ہیں اور افغانستان پر گرفت رکھنے کے لئے جو کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں ان کوئی وقعت ان کی نظروں میں نہی تھی اور بند دروازوں کے پیچھے انھی پالیسی میکرز نے حامد کرزئی، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو ”باؤنٹی ہنٹر“ یعنی اٹھائی گیرے کہا اور ان کرداروں کی دیسی فلموں کے مخصوص کرداروں کی طرح ایک مدت ہوتی ہے۔

موجودہ امریکی انخلا ایک امن معاہدے کے نتیجے میں ہو رہا ہے اور اس انخلا کے پلان اوباما کے زمانے بن رہے تھے۔ امریکہ اس graveyard of empires سے نکلنا تو چاہتا ہے مگر دور بھی جانا نہیں چاہتا انخلا کے بعد حسب معمول وہ سب کچھ ”اوپن اینڈڈ“ چھوڑ دے گا اور خونی سول وار سے کوئی بھی اس پتھر کے زمانے میں رہنے والے ملک کو نہیں بچا سکے گا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ امریکہ مطلوبہ نتائج حاصل نا کر سکا یا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس بیس سالہ جنگ کو نہتے، غریب، بے کس ناخواندہ اور اقوام متحدہ کی پابندیوں میں جکڑے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف افغان عوام کی بہادری کی لازوال داستان کے طور پر یاد رکھا جائے گا

تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments