بنام وجاہت مسعود: سخت سزائیں اور کچھ اعتراضات


امید ہے دامن دریدہ نہ ہو گا اور آنگن میں چہار سو خوشیوں کی چہکار ہو گی۔

گزشتہ ہفتے آپ کا پروگرام دیکھا جو دو حصوں پر مشتمل تھا، بعنوان ’کیا سزائے موت ہونی چاہیے، کیا عبرت ناک سزاؤں سے جرائم ختم ہو سکتے ہیں‘ ، پروگرام دیکھتے ہی آپ کو کچھ لکھنے کا ارادہ بندھا تھا مگر کچھ مشکلات گہری کھائی بن کر قلم کی راہ میں حائل ہو گئیں جن کو پاٹنا ممکن نہ ہو سکا تھا جو اب ہو رہا ہے۔ اگر الزام چھچھورگی کا خوف نہ ہوتا تو سب سے پہلے نقوش و خد و خال سائل کی مدح سرائی میں کچھ سطریں لکھی جاتیں، مگر، خیر جانے دیں، قلم اگر بھٹک گیا تو مدعا بیان نہ ہو سکے گا، تو گفتگو کی ترتیب یہ ہو گی کہ پہلے آپ کے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنائیں گے اور پھر اپنے نقطہ ہائے نظر کو بیان کرنے سے تردد نہ کریں گے۔

پہلی بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ سزائے موت نہیں ہونی چاہیے، دلیل آپ کی یہ تھی کہ ایک سو سات ممالک میں سزائے موت کا قانون نہیں ہے، سترہ ممالک نے ایک عشرے سے کسی کو سزائے موت نہیں دی، سات ممالک کی عدالتیں خصوصی مقدمات میں ہی موت کی سزا کا حکم سناتی ہیں، اور موت کی سزا نہ دینے والے ممالک میں جرائم کی شرح کم ہے بہ نسبت ان کے ممالک کے جہاں مجرمین کو دار پر چڑھایا جاتا ہے۔

خیال درویشاں ہے کہ، جس کو آپ بھی اغلب خیال کریں گے، اب ہمیں احساس کمتری کی گرداب سے باہر نکل آنا چاہیے، بر صغیر کا معاشرہ انفرادی و مجموعی طور پر احساس کمتری کا شکار ہے، لیکن کیا یہ فرض ہے کہ ہر وقت اس قبیح احساس کا طوق گردن میں پہنا جائے، ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، اب اگر ہم اپنے قوانین بھی دوسرے ممالک کی پیروی کرتے ہوئے بنائیں گے تو پھر کیا ہمیں خود کو آزاد کہنا چاہیے، آپ تو بین الاقوامی معاملات کی بصیرت رکھتے ہیں، کیا کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہ کسی ملک نے اس بنیاد پر اپنے قوانین میں تبدیلی کی ہو کہ فلاں ملک میں یہ قانون ایسے ہے لہذا ہمیں بھی ویسا ہی قانون نافذ کرنا چاہیے، یہی راگ جب دائیں بازو والے الاپتے ہیں کہ ہمیں سعودی اور ایران جیسے قوانین اپنانے ہوں گے تو ہم خوب چڑھائی کرتے ہیں کہ حضور آپ کو اگر وہ معاشرے اتنے ہی مرغوب ہیں تو اپنے کنبے سمیت وہاں ہجرت فرما جائیں، لیکن قول و فعل کا فرق تو آپ بخوبی سمجھتے ہوں گے۔

ہمیں اپنے قوانین وضع کرنے میں نہ مغرب کی فراست درکار ہے نہ ایران و عرب کی رہنمائی، کیا آزاد ممالک دوسرے ممالک کی پیروی میں اپنے قوانین وضع کرتے ہیں؟ اور فرض کیجیئے کہ ہمارے سخت سزاؤں کے ختم کرنے سے بھی اگر جرائم میں کمی نہیں آتی تو پھر کیا ہو گا ”مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے“ ، جرائم کی شرح ترقی یافتہ ممالک میں کم کیوں ہے، وہ بھی کسی دن تفصیل سے دیکھ لیں گے، ابھی بیان کا یارا نہیں۔

دوسری بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ ہمارے ہاں عدالتی نظام میں وہ اکملیت نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی کو سزائے موت سنائی جا سکے۔

یہ دلیل تفصیل کی طالب تھی مگر تفصیل بیان کرنے سے گریز کیا گیا، قتل کے مقدمات دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلے مقدمے میں قاتل کا جرم برہان کی طرح واضح ہوتا ہے، جیسا کہ کوئی قتل کی واردات کیمرے میں ریکارڈ ہو گئی ہو یا کچھ لوگ قتل کے چشم دید گواہ ہوں، اس طرح کے مقدمے میں عدالتی نظام میں اکملیت نہ بھی ہو تو جرم واضح ہے، دوسرے مقدمے یہ مشکل درپیش آتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ملزم قاتل ہو یا نہ ہو، تو ایسے مقدمات میں جب تک سو فیصد یقین نہ کر لیا جائے کہ قتل کا ارتکاب ملزم نے ہی کیا ہے تب تک موت کی سزا سے دریغ ہونا چاہیے، اور ویسے بھی یہاں قاتل کی بات مان لی جاتی ہے، ایک حیرانی کا عالم ہے کہ آپ کو فراز کیوں نہ یاد آئے۔

سو کیا کریں یہاں بسمل کہ بات قاتل کی
کوئی نہ مانے عدالت تو مان جاتی ہے

تیسری بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ سزائے موت اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے کی بنیاد انصاف پر نہیں بلکہ خوف پر ہے۔

جرائم بالعموم دو صورتوں میں روکے جا سکتے ہیں، پہلی صورت یہ ہے کہ معاشرہ میں مثالی ماحول ہو جہاں جرم کی کوئی وجہ ہی باقی نہ رہے، اب آپ ہی بتائیے کہ کیا ہمارا معاشرہ مثالی ہے؟ لوگوں کے پاس جرائم کی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں، یہاں تو پڑھے لکھے نوجوان ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جرائم روکنے کی دوسری صورت سزاؤں کا خوف ہے، اور ہمارے جیسے معاشروں میں لوگوں سزا کا خوف دلائے بغیر کون سی چیز جرائم سے باز رکھ سکتی ہے، مثالی معاشرہ سے تو ہم کوسوں دور ہیں، اب فقط ایک صورت بچتی ہے، سخت سزاؤں کا خوف، سنتے ہیں کہ دو سلاطین دہلی (جن میں شاید علا الدین خلجی بھی شامل ہے ) کے دور میں دکاندار ہیرا پھیری بہت کرتے تھے، دونوں نے حکم دے رکھا تھا کہ جو دکاندار کم تولے اس کوئی اعضا کاٹ کر وزن پورا کیا جائے تو چند ہی دنوں میں صورت حال بہتر ہو گئی تھی، ہمیں اپنے معاشرے کی نفسیات سمجھنا ہوں گی کہ معاشرہ کس بنیاد پر جرائم سے باز رہ سکتا ہے، آپ دیکھیے کہ لاہور میں ہر موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ پہنا ہوتا ہے جب کہ بقیہ شہروں میں لوگ ہیلمٹ پہننے کی پابندی نہیں کرتے، اب آپ ہی لب کشائی کیجیئے کہ ایسا کیوں ہے؟

چوتھی بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ سزا تشدد کے زمرے میں آتی ہے۔

آپ نے یہ بات واضح نہیں کی کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے یا یہ سزا کی کوئی بین الاقوامی تعریف ہے، اگر یہ آپ کا خیال ہے تو سر دست یہ بتائیں کہ کیا صرف سخت سزائیں تشدد کے زمرے میں آتی ہیں یا سزا بحیثیت مجموعی ہی تشدد ہے؟ اگر سخت سزا تشدد کے زمرے میں آتی ہے تو معمولی سزا تشدد کے زمرے میں کیوں نہیں آ سکتی؟

پانچویں بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ تفتیش کے دوران ملزم کو تشدد کے ذریعے نہ کردہ جرم پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے، لیکن یہاں امتحان جج کا شروع ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی جانچ کرے کہ تفتیش ٹھیک طرح سے ہوئی ہے یا نہیں، اور یہ بات معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا، یہ تو جج کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سزا کو انتقامی یا سیاسی نہ ہونے دے۔

پانچویں بات آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ قاتل کو سزا دینی چاہیے کہ وہ ساری زندگی مقتول کے خاندان کی معاشی مدد کرتا رہے۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ یہ بات کرنے سے پہلے آپ کہہ چکے تھے کہ آپ نے دیت کے قانون کی مخالفت کی تھی، کیا آپ کو اس بات میں تضاد نہیں دکھتا کہ دیت کے تو حق میں تو آپ نہ تھے لیکن اس بات کے حق میں ہیں کہ قاتل مقتول کے خاندان کی معاشی مدد کرے۔

باتیں اور بھی ہیں جو بیان کی جا سکتی ہیں مگر تحریر کچھ زیادہ لمبی ہو جائے گی، مذہب کا حوالہ دینے سے گریز کیا ہے کہ ہر بات میں مذہب نہیں لانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments