عورتیں آ گئیں میدان میں


صنفی مساوات کے لئے کام کرنا میری نوکری کا حصہ ہے مگر ذاتی طور پر میں سمجھتی ہوں کہ مرد اور عورت برابر نہیں ہیں بلکہ عورتیں مردوں سے برتر ہیں۔ مستقبل ڈیجیٹل ہے اور اس میں عورتیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوں گی۔ میلون کونر اپنی کتاب ”مردانہ بالا دستی کا خاتمہ“ میں بتاتا ہے کہ حال ہی میں انسانی دماغ کی جو تصاویر لی گئی ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ مردوں کے دماغ کا وہ حصہ جو تشدد پر اکساتا ہے، عورتوں کے دماغ کے مقابلے میں بڑا ہوتا ہے۔ اور دماغ کا وہ حصہ جو اس طرح کے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے، عورتوں میں زیادہ ایکٹیو ہوتا ہے۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، جنگیں کس نے لڑیں، خونریزی کس نے کی، کھوپڑیوں کے مینار کس نے بنائے، ظاہر ہے مردوں نے۔ کوئی بارہ ہزاریوں سے مرد عورتوں پر ظلم ڈھاتے چلے آئے ہیں، اب صورت حال کو سدھارنے کا وقت آ گیا ہے۔ حنا روسن اپنی بیسٹ سیلر کتاب ”مردوں کا خاتمہ۔ عورتوں کا عروج“ میں لکھتی ہے، ”پدر سری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ دو لاکھ سالہ انسانی تاریخ اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔ ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جس میں عورتیں اور نسائی خصوصیات و مہارتوں کو اہمیت حاصل ہو گی۔

وسکونسن یونیورسٹی نے بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں مردوں اور عورتوں کے بارے میں ہونے والے تحقیقی تجزیوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ شخصیت، ذہانت اور قیادت کے لحاظ سے مرد اور عورت یکساں ہیں۔ ماہر نفسیات جینٹ شبلے نے دریافت کیا کہ نفسیاتی لحاظ سے بچپن سے لے کر بلوغت تک نفسیاتی طور پر مرد اور عورت میں اتنا فرق نہیں ہوتا جتنی کہ مماثلت ہوتی ہے۔ یوں صنفی مماثلتوں کا مفروضہ سامنے آیا۔ چند فرق بھی سامنے آئے جیسے کہ مرد گیند یا پتھر زیادہ دور تک پھینک سکتے ہیں، طبعی طور پر جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، مشت زنی زیادہ کرتے ہیں اور شادی سے باہر کے تعلقات میں جنس کے حوالے سے مثبت رویہ رکھتے ہیں۔

ہمارے جیسے معاشروں میں مرد اور عورت کو اتنا مختلف سمجھا جاتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کو یہ یاد دلانا پڑتا ہے کہ عورت بھی انسان ہے اور عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔ سچ پوچھئے 1993 میں جب میں آٹھ سال چین میں رہنے کے بعد پاکستان واپس آئی اور یہ نعرہ سنا تو حیرت سے سوچا تھا ”اچھا تو کیا عورت انسان نہیں ہے، ہمیں یہ یاد دلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں“ ، مگر جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس پدر سری معاشرے کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ عورت اور مرد پہلے انسان ہیں بعد میں مرد یا عورت۔ یہاں تو عورت کو مرد کی نجی ملکیت سمجھا جاتا ہے ”میرا مال، میرے مویشی، میری عورتیں“

ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ گھر میں حقوق نسواں کی علم بردار ماں ملی جس نے ہمیشہ ہمارے بھائیوں کو بتایا کہ عورت کی عزت کرنی چاہیے، اس پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے، تعلیم لڑکیوں کے لئے بھی اتنی ضروری ہے جتنی لڑکوں کے لئے۔ زمانہ ء طالبعلمی میں بائیں بازو کی سیاست میں آئے تو دماغ میں انقلاب کا سودا سمایا ہوا تھا، لڑکے اور لڑکیاں ترقی پسند تھے، ایک دوسرے کے کامریڈ تھے اور پاکستان میں انقلاب لانے کے جذبے سے سرشار تھے۔ ہمیں یہی لگتا تھا کہ انقلاب آئے گا تو کسانوں، مزدوروں کے ساتھ سبھی کے مسائل حل ہو جائیں گے انقلاب تو آیا نہیں اور معاشرہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جانے لگا، وہ اکھاڑ پچھاڑ ہوئی کہ توبہ ہی بھلی۔

ہمارا انقلاب کا خواب بھی بین الاقوامی سیاست سے جڑا ہوا تھا اور بعد میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ بھی بین الاقوامی سیاست سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کا بین الاقوامی سیاست میں کردار ہمارے حکمرانوں نے طے کیا اور اس کا نتیجہ عوام نے بھگتا۔ اور آج بھی بھگت رہے ہیں۔ محمد علی جناح قائد اعظم ایک ماڈرن مسلمان تھے۔ پاکستان کیسا ہو گا اور پاکستان کے شہری کس طرح رہیں گے، اس کا اظہار انہوں نے اپنی گیارہ اگست والی تقریر میں کر دیا تھا۔ لیکن پھر پاکستان کے قیام کے مخالف علما نے اور سول اور ملٹری بیورو کریسی نے اس ملک کو اپنے طریقے سے چلانے کا فیصلہ کیا تو بہت کچھ ہوا، ہم نے اپنا مشرقی بازو گنوایا لیکن سب سے زیادہ نقصان عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کا ہوا، دونوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا۔

ہوتا یہ ہے کہ اگر ملک ترقی کرتا ہے تو ہر طبقے کو اس کا فائدہ ہوتا ہے لیکن جو ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے، اس کے ادارے اور اس کے شہری بھی دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ایک زمانہ تھا، ہمارے پنج سالہ منصوبوں کی دھوم تھی، دوسرے ممالک ہماری ترقی کا ماڈل اپنا رہے تھے۔ ہماری فضائی کمپنی کی دنیا میں دھوم تھی لیکن پھر ادارے تباہ ہوتے چلے گئے اور ہم ترقی کے اشاریوں کے لحاظ سے نیچے گرتے چلے گئے۔

2017 میں گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 143 تھا۔ 2018 میں مزید نیچے ہو کر 148 ہو گیا۔ اور 2020 میں ہم 151 نمبر پر پہنچ گئے۔ یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ جینڈر گیپ انڈیکس چار بنیادی شعبوں یعنی صحت، تعلیم، معیشت اور سیاست میں صنفی فرق کی پیمائش کا نام ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات کے لحاظ سے دنیا میں اول نمبر پر آئس لینڈ ہے جو بارہ سال سے اس پوزیشن کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

سب سے آخر میں جو تین ممالک ہیں وہ افغانستان، یمن اور عراق ہیں۔ آخر سے چوتھے نمبر پر ہم ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تنزلی کا سفر کبھی رکے گا بھی اور ہم کبھی اقوام عالم کے درمیان سر اٹھا کر جی سکیں گے یا نہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عورتیں آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں۔ جس میدان میں بھی عورتوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے، انہوں نے اپنی برتری ثابت کی ہے، بلا شبہ ہم ترقی پسند، روشن خیال اور سائنسی سوچ رکھنے والے مردوں کو ساتھ لے کر چلیں گی۔ اگر موجودہ اشرافیہ اور مقتدرہ نے اپنی حکمرانی جاری رکھی تو پستی کا سفر بھی جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments