گوادر کے سامنے کھڑا امریکی بحری بیڑہ


طالبان افغان جنگ زدہ معاشرے کا فطری ردعمل نہیں تھا بس ایک سراب تھا جس کو انہوں نے اب حیات سمجھ لیا تھا، کیونکہ ان کے ظہور سے پہلے افغانستان میں ان وار لارڈز کے چھوٹے علاقائی راجواڑے قائم ہو گئے تھے جو کبھی افغان مجاہدین کہلاتے تھے۔ طالبان کو دنیا کی نظروں سے دور پاکستانی مدرسوں میں تیار کیا گیا جن کو مناسب موقع پر میدان جنگ میں اتارنے کے بعد ، وار لارڈز کے صفایا پر لگایا گیا، شمالی علاقوں کی استثناء کے علاوہ طالبان بڑی سرعت کے ساتھ سارے افغانستان پر قابض ہوئے۔

تو ساری دنیا کے پرسونا نن گرانٹا ”ناپسندیدہ اشخاص“ افغانستان میں جمع کیے گئے، دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ان ”جدید مجاہدین“ کی پروفائلنگ کی گئی، جنہوں نے بعد میں امریکہ پر مبینہ حملہ کیا۔ طالبان نے افغانستان قبضہ کرنے کے بعد جس متششددانہ طریقے سے افغانوں کو قابو کیا تھا، اس سے نفرت کا اظہار کابل کے سقوط کے بعد افغانستان بھر کے نائی خانوں میں افغانوں نے داڑھیاں منڈوانے کی شکل میں کیا۔

جنیوا معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان میں دس سال تک مداخلت نہیں کر سکتا تھا اس لئے دس سال کی لازمی پابندی کے بعد وہ ”نائن الیون کے حملہ کی وجہ سے“ افغانستان میں پاکستان کی سپورٹ کے ساتھ اترا۔ اس دوران افغانستان سے متصل پاکستانی سرحدی علاقوں میں افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ طالبان کی زبردست ”خود رو“ فصل اگ آئی، جو ابتداء میں تو افغان طالبان کے سپورٹر تھے لیکن بعد میں مخالف ایجنسیوں کی ایما پر پاکستان پر ٹوٹ پڑے۔ اس دوران پاکستان میں سمجھا گیا کہ امریکہ دراصل اس کے خلاف افغانستان میں اترا ہے، کیونکہ شام عراق افغانستان سے پاکستان تک مسلم پٹی میں جو افراتفری مچی ہوئی تھی اس سے صرف ایران اور پاکستان بچے ہوئے تھے۔

دس سال سے زیادہ قتل و غارتگری کے بعد امریکہ نے افغان حکومت طالبان اور پاکستان کو بغیر کسی واضح میکنزم کے حیران و پریشاں چھوڑ کر نکل جانے کا فیصلہ کیا بالکل اسی طرح جس طرح روس نے کیا تھا۔ امریکی قبضہ کے دوران اگر ایک طرف امریکہ نے طالبان کی فرسٹ لائن لیڈرشپ ماری تو دوسری طرف افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین سے حملے کر کر کے اور افغانستان کے اندر طالبان کو پاکستان کی پراکسی ثابت باور کرا کر افغان عوام اور پاکستان کے درمیان بدترین بدگمانیاں پیدا کیں۔ ساتھ ساتھ ہندوستان کو افغانستان میں زیادہ کردار دلا کر پاکستان کو بھی مشکلات سے دوچار کیا۔ یہ ساری لڑائی ممالک کی بجائے ان کی خفیہ اداروں کی لڑائی تھی۔

اس دوران امریکہ کا کردار مشکوک اور دوغلا رہا اگرچہ امریکہ کو یہی شکایت پاکستان سے بھی رہی کہ امریکہ کو سپورٹ کے بدلے میں مالی منفعت اٹھانے کے باوجود، پاکستان نے طالبان کو بھی محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کیا، جس کی وجہ سے امریکہ جنگ کے دوران اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا۔

کیا امریکہ افراتفری میں افغانستان چھوڑ کر جا رہا ہے یا اپنی سٹریٹیجی کے نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے؟

کیا طالبان کے ذریعے افغان حکومت اور افغان حکومت کے ذریعے طالبان کو کمزور کر کے افغانستان میں اس قسم کا حکومتی اور انتظامی خلا پیدا کیا جائے گا جیسا شام میں پیدا کیا گیا؟

اگر ایسا خلا پیدا کرنے کی صورت بنتی ہے تو اس خلا کو پر کرنے کے لئے کیا داعش قسم کے لوگ اتارے جائیں گے؟ کیونکہ گزشتہ مہینوں کے دوران پاکستان کے اندر داعش کے حملہ آوروں نے کئی مشہور طالبان کمانڈروں کو قتل کیا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو کیا پاکستان چین اور قریبی سنٹرل ایشین ممالک تماشا دیکھیں گے؟ یا خود بھی اس جنگ میں کود کر مختلف فریقین کو سپورٹ کریں گے، یا افغانستان میں لگی ہوئی آگ کو مل کر بجھائیں گے؟

ترکی شام میں کرد علحیدگی پسندی کے خطرے کی بنا پر اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے، کیا افغانستان میں بھی ترکی کی دلچسپی اس نوعیت کی ہوگی، یا ترکی، چینی یوغر کمیونٹی کو انگیج کر کے لڑائی کو مزید پھیلائے گا؟ کیونکہ جلاوطن چینی یوغر مسلمان بڑی تعداد میں ترکی میں عشروں سے موجود ہیں۔

پاکستان میں موجود پختون قوم پرست اور طالبان کے سپورٹرز جس سادہ انداز سے ساری صورتحال کو دیکھ رہے ہیں، حالات اتنے سادہ نہیں۔

تباہ کن امریکی بحری بیڑہ یو ایس ایس رونالڈ ریگن (سی وی این 76 ) عالمی سمندری حدود میں کھڑا گوادر سے نظر آ رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ لگے ہوئے ہمسایہ ممالک میں، ازبک تاجک ایرانی اور پاکستانی سرحدات پر فوجی نقل حرکت کی خبریں آ رہی ہیں۔ بارڈرز پر ایمرجنسی ہسپتالوں کا بندوبست ہو رہا ہے۔

افغانستان کے اندر طالبان کے خلاف قومی سطح پر مسلح لشکر تیار کئے جا رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک متوقع مہاجرین کی آمد کے بارے میں پریشان ہیں۔

پاکستان کا وزیر دفاع ملکی دفاع کے معاملات سے زیادہ ملک میں ’غربت کے خاتمے‘ کے اعلانات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ جبکہ وزیراعظم مغرب کو سمجھنے کے دعوے کے باوجود اس کو فیٹف معاملے پر مطمئن نہیں کرسکے، اب اردو زبان اور شلوار قمیض کے ذریعے ملک کا سافٹ امیج تخلیق کر رہے ہیں۔ بظاہر صورت حال کسی کے حق میں نہیں، ممکن ہے اس دفعہ کسی کو واضح فتح نہ ملے اور جنگ وسعت اور طول کھینچ کر پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کرے، کیونکہ امریکہ گیا نہیں ریلیکس ہو رہا ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments