اسلامی معاشرے میں ڈنڈے کا استعمال: دو انتہا پسندی


دین مبین اور اسلامی نظام حکومت میں ایک سٹیج ڈنڈے کا بھی آتا ہے مگر وہ سب سے اخروی ہے۔ اس سے پہلے بتدریج اخلاقی و اسلامی اصولوں کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے اور شعور بیدار کرنے کا ایک پورا سلسلہ اپنا وجود رکھتی ہے۔

اس حوالے سے ہمارے ہاں دونوں جانب انتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ بعض مذہبی حلقہ جات ڈنڈے اور قوت بازو سے معاشرتی اور اجتماعی برائی کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور نفرت و عداوت کے بیچ ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا کام ہے کہ اسی حالت میں برائی کا قلع قمع کیا جائے مگر افسوس یہ صرف جہالت اور دینی تعلیمات سے بے خبری کا بھیانک نتیجہ ہے۔ ایسے میں ان کو انفرادی طور پر کوئی اختیار حاصل نہیں کہ امیر شہر بن کر ٹوٹ پڑے اور لوگوں کے سر پھاڑ دے۔ جو امیر شہر کا کام ہے وہی اس کا ذمہ دار اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ آپ سے اس برائی کے حوالے سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی کیونکہ آپ با اختیار نہیں بے اختیار ہے۔ اللہ کے حضور ذمہ دار شخص کی اپنی ذمہ داری نہ نبھانے پر پکڑ کی جاتی ہے۔

خود نبی مہرباں ﷺ کی سیرت اٹھا کر دیکھ لیجیے جہاں آپ ﷺ بچپن سے لے جوانی تک اللہ کی ملکیت اور وسیع و عریض کائنات پر غور و فکر کرتے رہیں اور با الاخر آپ پر تمام راز افشاں کر دیے گئے اور پکارنے والے نے پکارا کہ اقرا پڑھو۔ پھر وہاں سے یہ پیغام لے کر اٹھتے ہیں اور عرب کی وادیوں میں اپنی دعوت کا آغاز کرتے ہیں؟ اف کتنا مشکل تھا یہ لمحہ؟ انہوں نے کس قدر تکالیف کا سامنا کیا؟ کتنے دشمن آہنی دیوار بن کر آپ ﷺ کی راہ میں کھڑے رہیں؟ ابوالحکم (ابو جہل) کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ رہا۔ جب بھی پاس سے گزرتا تو جو منہ میں آتا بک دیتا۔ طرح طرح سے آپ کو اذیتیں دینے کا انتظام اور پروپیگنڈا کرتا۔ کبھی گھات لگاتا کہ آج تو رسول خدا کا کام ہی تمام کردوں۔ کبھی اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ اور بھرپور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتا۔

خود آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کا کیا رویہ رہا اور اس کی بیوی ام جمیل پھر اس سے بھی کم نہ تھی۔ آپ پر غلاظت بھی لاکر ڈال دیا اور کاٹنے تک راستے میں بچھا دیے۔ اور پھر طائف کا شرمناک واقعہ تو ہم سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کیوں یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے؟ کیوں تلوار اٹھا کر ہر ایک گردن پر رکھ کے ان سے کلمہ اگلوانے کی کوشش نہیں کی؟ کیوں آپ کا تعلق تو آل مطلب سے تھا اور بڑے اثر و رسوخ کے مالک تھے اور یہ سب کچھ کرنے سے قاصر بھی نہیں

تھے۔ سکون و اطمینان سے ان آزمائشوں کا سامنا کیا اسی خانہ کعبہ کا طواف اور اسی کے سامنے نمازیں پڑھی جن کے اندر اور باہر بت نصب تھے۔ مگر آپ نے اپنے کام سے کام رکھا۔

جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس اس وقت کوئی اختیار نہیں تھا نہ حکومتی اختیار کے مالک تھے نہ انتظامی اختیار کی وزارت آپ کے پاس تھی۔ وہ دور فقط دعوت کا دور تھا، شعور بیدار کرنے کا دور تھا، اخلاقی تربیت کا دور تھا، بد اعتقادی پر متنبہ کرنے کا دور تھا۔ اور جب یہ مراحل بہ اتمام کمال اپنے تکمیل کو پہنچے اور آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی اور با اختیار ہوئے تب ہم نے مکہ کو فتح ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور خانہ کعبہ میں نصب ان تمام بتوں کو (ہاں وہی بت جن کی موجودگی میں آپ ﷺ نے نماز پڑھی) سنت ابراہیمی کے موافق بکھرتے دیکھا۔

اور یہ سب کچھ آپ ﷺ یوں ہی نہیں کرتے رہے بلکہ اللہ رب العالمین کی رہنمائی سے یہ سارے مراحل طے کیے چنانچہ رسول خدا کو رب کریم مخاطب کر کے فرماتے ہیں : ”برائی کو نیک برتاؤ سے ٹال دیا کیجیئے، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی، وہ ایسا ہو جائے گا جیسے کوئی دلی دوست“

دوسری جانب انتہائی پسندی جس کا میں نے ذکر کیا وہ طبقہ اور اس طبقے کی تمام تر آہیں اور سسکیاں تمام مراحل کو فراموش کر کے آخر کار اس مرحلے پر آ کر رک جاتی ہے جہاں اختیار اور حکومتی اختیار سے اسلام اور اس کے علمبردار مزین تھے۔ انہیں دعوت، شعور، اخلاقی رہنمائی یہ سارے عناصر یاد نہیں رہتے مگر آخری سٹیج سب سے آخری سٹیج یعنی ڈنڈے کے استعمال اور اسلامی سزاؤں پر ان کی بس ہوجاتی ہے اور بے جا تنقید شروع کر دیتے ہیں۔

ارے یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک استاد کمرہ جماعت میں ایک طالب کو سبق نہ یاد کرنے پر کیوں مارتا ہے کیونکہ استاد نے اپنا سر کھپایا ہوتا ہے، اسے سبق سکھایا ہوتا ہے پھر بھی جب وہ بچہ اسے یاد نہیں کرتا تب استاد ڈنڈا اٹھا کر اسے اور اس کی طرح باقی بچوں کو سبق سکھانا شروع کرتا ہے۔ بعینہ اسلامی دعوت کا کام بھی اسی طرح ہے پہلے سکھایا، پڑھایا، ذہنوں کو پختہ کیا، شعور کا بول بالا کر دیا تب جا کے ڈنڈے کا مقام آیا (جس کا مقصد استاد والے مثال سے بخوبی سمجھ میں آ سکتا ہے ) جو ناگزیر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments