میں عورت مارچ میں شریک ہوا


لوگوں کی کثیر تعداد لاہور میں ہونے والے عورت مارچ میں شریک تھی۔ بچے، بوڑھے اور نوجوان سب ہاتھوں میں دبنگ قسم کے الفاظ اٹھائے خراماں خراماں قطار در قطار مہذب انداز میں چل رہے تھے۔

بینرز پہ لکھے سچ میں بھیگے الفاظ چیخ چیخ کر ظلم کو للکار رہے تھے۔ اب تک جو گناہ معاشرے کے پیندے سے جڑے تھے اور اوجھل تھے، ابل ابل کر باہر گر رہے تھے۔ کچھ گناہگار منہ چھپاتے پھررہے تھے اور کچھ ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ گھروں میں مقید گناہوں کے افسانے کھل کر سڑکوں پہ آ کر ناچنے لگیں۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوں ایک گناہگار گروہ یک دم اٹھے گا اور پھر سب کو ہی معلوم ہو جائے گا کہ گنہگار تو کوئی اور بھی ہے ؛ کوئی اور طبقہ جو ساری نیکیاں سمیٹ کر جنت کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے ؛ ایک ایسا طبقہ جس نے اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے مذہب کا سہارا لیا ہوا ہے ؛ اس نے اپنی خود ساختہ نیکیوں کی اندھیری کوٹھڑی میں ایسے ایسے بھیانک گناہ کیے ہوئے ہیں کہ اگر کسی طوائف کو ان کا پتا چل جائے تو وہ کبھی بھی لوگوں کے کہنے پر خود کو جہنمی نہ سمجھے۔

سنگسار کیے جانے والے گناہگاروں کو سنگسار کرنے والے خود شاید ان سے بھی بڑے گنہگار ہیں مگر اس کے باوجود ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ہاتھوں میں سنگ اٹھائے ہوئے ہیں۔ یقیناً وہ بعد میں گھر جا کے روتے بھی نہیں ہوں گے۔ شاید دوسرے گناہگاروں کے جسموں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنا ہی اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھی جاتی ہے۔ مگر اس دن لگ رہا تھا کہ یہ ہولی مزید نہیں کھیلی جائے گی یا کچھ تو اس کو لگام ڈلے گی۔ جو اب تک چپ چاپ ظلم سہ کر گناہ کے مرتکب ہو رہے تھے ان کو بولنے کا حوصلہ ملے گا۔

”میم! کیا آپ ہمیں بتانا پسند کریں گی کہ آپ کا کیا مطالبہ ہے؟ ایسے کون سے حقوق ہیں جو آپ کو گھروں میں نہیں مل رہے؟ ہمارے مذہب نے تو آپ کو سارے حقوق دیے ہیں، کیا ابھی بھی آپ خوش نہیں ہیں؟ یا ایسا ہے کہ آپ لوگ اپنی عیاشی کے لئے اس مارچ کی آڑ میں راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں؟“ ایک لڑکا ہاتھ میں مائیک پکڑے ایک نوجوان لڑکی کی طرف بھاگتا دکھائی دیا اور قریب پہنچنے تک وہ سارے سوال داغ چکا تھا۔ ساتھ اس کے ایک اور لڑکا تھا جو کیمرہ تھامے کھڑا تھا۔

”مطالبات ہمارے پلے کارڈز پہ لکھے ہوئے ہیں۔ آپ اگر سمجھدار ہیں تو پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ اور جہاں تک بات ہے حقوق کی، آپ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ مذہب نے ہمیں کتنے حقوق دے ہیں۔ یہ بتائیں کہ معاشرہ ان دیے گئے حقوق پر عمل پیرا ہے کہ نہیں؟ رہا سوال عیاشی کا، تو ہر شہر میں مردوں کی عیاشی کے لئے اڈے قائم ہیں۔ کھلم کھلا یہ ظلم رچایا جا رہا ہے اور اپنی مرضی پر نچایا جا رہا ہے۔

تو اب اگر عورت بھی تھوڑا خود ناچ لے گی تو کیا مضائقہ ہے؟ ”لڑکی معنی خیز انداز میں لڑکے کو دیکھ رہی تھی اور اگلے سوال کی منتظر تھی۔

” تو میم کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح فحاشی مزید بڑھے گی؟ ہماری معاشرتی اقدار تو عورت کو جسم ڈھانپنے کا درس دیتی ہیں۔ مرد کو اگر تھوڑی زیادہ آزادی ہے تو وہ اس لئے کہ اس نے معاشی بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔ آپ لوگ اس طرح کیوں نہیں سوچتے؟“

”معاشی بوجھ؟ اور جو انسانی بوجھ عورت اپنے پیٹ میں لئے پھرتی ہے اس کا کیا؟ اس کے بارے میں آپ نے سوچا؟

اور ایک بات کہوں؟ میں ڈاکٹر ہوں۔ روز بیسیوں مریضوں کو ہسپتال میں بھگتتی ہوں۔ سچ کہوں تو مجھے ان مردوں پہ بڑا ترس آتا ہے جو بات کرنے کے لئے کرونا کے قہر کو نظر انداز کر کے اپنا ماسک منہ پر سے ہٹا لیتے ہیں، کیونکہ ان کو سانس نہیں آ رہا ہوتا۔ اور میں سوچتی ہوں کہ عورتوں نے تو صدیوں سے اپنا سانس روکا ہوا ہے اور اسی طرح سانس روکے وہ انسانی نسلیں جنم دیتی چلی آ رہی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا؟ ”

وہ لڑکا جھینپ سا گیا اور پھر اگلا سوال داغ دیا۔
”ہم نے سنا ہے کہ اس مارچ کے لئے آپ کو دشمن عناصر پیسے فراہم کرتے ہیں۔ کیا یہ بات سچ ہے؟“

یہ سوال سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ ماتھا ٹھنکا۔ کیونکہ میں بھی آج کے مارچ میں اپنے الفاظ سمیت شریک ہوا تھا۔ میں نے ہاتھوں میں دو پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جو انجانے میں میں نے اپنے ہی خرچے پہ بنا ڈالے تھے۔ افسوس کہ کسی دشمن عنصر کی مجھ پر نظر ہی نہیں پڑی۔ پڑ جاتی تو مجھے اپنی جیب سے خرچہ نہ کرنا پڑتا۔

میں نے سڑک کے ایک طرف موجود چبوترے پر چڑھ کر دیکھا۔ تاحد نظر انسانی سیلاب تھا جو بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ یہ صدیوں سے پنپتی بغاوت تھی جو اب پرورش پاکر بلوغت کے دور میں قدم رکھ چکی تھی۔ یہ وہ لاوا تھا جس کو صدیوں سے ہوتے آئے ظلم نے پکایا تھا۔ اور اب یہ اتنا دہک چکا تھا کہ اب یہ رکنے والا نہیں تھا۔ میں ادھر ادھر منہ چھپا کر بھاگتے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا جن کو پلے کارڈز میں اپنے عکس نظر آرہے تھے۔ ان کے پاس کوئی اور چارا تھا بھی نہیں۔ کیونکہ اب ظالم کے پاس بس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ بھاگے، جتنا بھاگ سکتا ہے بھاگے۔ یہ لاوا اب رکنے والا نہیں تھا۔ میں محسوس کر سکتا تھا۔

(روما رضوی کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے اس تحریر کی کانٹ چھانٹ میں درکار مدد کے لئے حامی بھری۔ نوٹ: یہ تحریر یک طرفہ رائے ہے۔ سب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments