جمہوری جاگیر دار


الیکشن کا دور تھا۔ ہر طرف گہما گہمی تھی امیدوار اور ان کے ہرکارے الیکشن کی تیاریوں میں جٹے تھے۔ دن رات محنت جاری تھی۔ جلسے جلوس، لوگوں سے میل ملاپ ترلہ منتیں، چاپلوسیوں کا دور دورہ چل رہا تھا۔
کہیں جھوٹی امیدیں۔ کہیں بھولی عوام کو لالچ دیا جا رہا تھا۔
ہمارے حلقہ میں جو امیدوار تھا اس کو میاں جی کہتے تھے۔ ایک دن اچانک بازار جاتے جاتے میاں جی کے جلسے سے گزر ہوا۔ میاں جی اسپیکر پر فرما رہے تھے۔ ہم آپ کے نوکر ہیں۔ دن رات ہم آپ کے لیے حاضر ہیں۔ آپ کی خدمت کریں گے۔ آپ لوگوں کو کسی قسم کوئی ضرورت ہو مسئلہ ہو ہمارے گھر کے دروازے ہمہ وقت آپ کے لیے کھلے ہیں۔ یکایک میرا ذہن ماضی کے ایک واقعہ میں کھو گیا۔
تقریباً 20 سال پرانی بات ہے، ہمارے گھر کی چھتیں کچی ہوا کرتی تھیں۔ ہر سال برسات کے موسم سے پہلے مٹی سے چھتوں کی مرمت کی جاتی تھی۔ جسے مقامی زبان میں لپائی کہا جاتا ہے۔
برسات کا موسم آنے والا تھا۔ اماں نے ابا کو کہا۔ کہ ہمیں مٹی لا دو۔ ہم چھت کی لپائی کر لیں۔ ورنہ بارش میں چھت سے پانی ٹپکے گا۔
ایک دن ابا نے مجھے ساتھ لیا۔ گدھا گاڑی جوت کر ہم باہر آبادی سے باہر نکل کھڑے ہوئے۔ یاد رہے کہ لپائی چکنی مٹی سے کی جاتی تھی۔ آبادی سے تھوڑا باہر ایک ویران جگہ میں چکنی مٹی موجود تھی۔ یہ زمین سرکاری تھی۔ لیکن اس کے چاروں اطراف میاں جی کی زمینیں تھیں، ابا نے گدھا گاڑی کھڑی کی۔ اور مٹی کدال سے گدھا گاڑی پر لادنے لگے۔ اتنے میں میاں جی سکوٹر پر آ دھمکے۔ اس نے نا آؤ دیکھا نا تاو دیکھا، ابا جی کی میرے سامنے خوب بے عزتی کی۔ اور مٹی اٹھانے منع کر دیا، میاں جی کہتے یہ مٹی اٹھا کر زمین برباد مت کرو،
اس وقت میری عمر 8 سال تھی۔ ابا جی چونکہ ان کی حیثیت اور کارناموں سے واقف تھے۔ اس لیے خاموشی سے سنتے رہے۔ اور مٹی وہیں پھینک کر واپس آ گئے۔
مجھے اس وقت اتنا غصہ تھا، کہ میرا دل چاہا کہ اس کو قتل کر دوں۔ ابا میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر میاں جی کی بکواس سن رہے تھے تاکہ میں بھی کچھ بول نا سکوں۔
واپسی پر میں نے گدھا گاڑی پر بیٹھے بیٹھے ابا سے پوچھا کہ آپ نے اس کو جواب کیوں نہیں دیا۔ ایک ریڑھی مٹی اٹھانے پر اس نے اتنی بکواس کی، ویسے بھی یہ سرکاری شام لاٹ ہے، ابا نے کہا ”پتر وہ جاگیر دار لوگ ہیں۔ ہمارا ان کے سامنے بولنا بھی جرم ہو گا“
ابا نے میرا دھیان بٹانے کے لیے مجھے کہا، چلو اپنے پتر کو قلفی کھلاتا ہوں، دفعہ کر اس کو،
اس واقعے کے کئی روز تک وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔ میں رات کو لیٹا لیٹا سوچتا کہ کہیں سے میرے پاس غائب ہونے والا جادو ہو۔ اور میں میاں جی کو جی بھر بھر کے جوتے ماروں۔ اور اس سے بدلہ لوں۔ لیکن کبھی نہیں ہو سکا۔
یقین کریں آج کے میڈیا کے دور میں بھی میں یہیں سوچتا ہوں۔ کیونکہ مجھے علم ہے ہمارے اس معاشرے میں قانون برائے نام ہے۔ ادارے میاں جی کی غلامی کر رہے ہیں۔ اور عوام کے ساتھ میاں جی وہی سلوک کر رہے ہیں۔ جو میرا ابا سے کیا تھا۔
کبھی کبھی بے بسی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک غلام ہیں۔ پہلے انگریزوں کے غلام تھے، اب انگریز کے غلاموں کے غلام ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں اس ملک پاک میں پیدا ہونے کے تمام تر ٹیکس دیتے ہیں۔ ورنہ صحت تعلیم تو دور کی بات ریاست ہمیں انصاف اور آزادی تک نہیں دے سکتی۔
محمد بلال منیر
Latest posts by محمد بلال منیر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments