قصہ 5 منٹ کی کال پر ٹیکس کا


وزیرخزانہ کی جانب سے 5 منٹ کی فون کال کے بعد 75 پیسے ٹیکس عائد کرنے کے اعلان کے بعد جہاں عام آدمی پریشان ہے وہیں سیلولر کمپنیاں اور سیاسی جماعتیں بھی اس فیصلہ کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر فی منٹ کال چارجز اور تجویز کردہ چارجز کے بعد کے نرخوں کے اعداد و شمار کا انبار لگا ہوا ہے۔ انہی اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے تجسس کے مارے میں نے فیصلہ کیا کہ تمام کمپنیوں کے فی منٹ کال چارجز پر باقاعدہ تحقیق کیوں نہ کی جائے۔

اسی مقصد کے لئے میں نے لینڈ لائن کا استعمال کرتے ہوئے تمام سیلولر کمپنیوں کی ہیلپ لائن پر رابطہ کیا، شفاف معلومات کے حصول کے لئے میں نے تمام کمپنیوں کے کسٹمر سروسز ایجنٹس کو یہ بتایا کہ میں نیا کسٹمر ہوں اور ان کے نیٹ ورک کو استعمال کرنا چاہتا ہوں تو اگر میں نئی سم خریدتا تو اس پر بغیر کسی ڈیلی، ہفتہ وار یا ماہانہ پیکج لگائے مجھے فی منٹ کیا کال چارجز پڑیں گے۔ اسی طرح سے بیلنس کی انکوائری سمیت دیگر سروسز کے استعمال پر کمپنی مجھے کتنا چارج کرے گی تو بڑے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے۔

کارپوریٹ مجبوریوں اور مارکیٹنگ کا چکر ہونے کی وجہ سے شاید کمپنیوں کے نام شائع نہ ہوں۔ سب سے پہلے بات کی جائے پاکستان کی سب سے پرانی اور بڑی ٹیلی کام کمپنی ( جو دو دراصل دو کمپنیوں کا مجموعہ ہے، جس کی وجہ سے استعمال کنندگان کی تعداد بھی زیادہ ہے ) کی، جس کی سم استعمال کرتے ہوئے ان کے بائی ڈیفالٹ پلان کے تحت فی منٹ کال تین روپے 36 پیسے پڑتی ہے جس میں 19 اعشاریہ 5 فیصد جی ایس ٹی کی مد میں حکومت کو جانے والی رقم اور کمپنی کے کال سیٹ اپ چارجز شامل ہوتے ہیں۔

حتی کہ بیلنس چیک کرنے کے لئے چارج کیے جانے والے 24 پیسے میں سے 4 پیسے جی ایس ٹی کی مد میں کاٹے جاتے ہیں۔ اسی طرح سے چائنہ کی پاکستان میں کمپنی جس کی انٹرنیٹ سروسز بہترین شمار ہوتی ہیں کے کال چارجز الگ ہیں۔ متعلقہ کمپنی کی ایک منٹ کی کال 2 روپے 98 پیسے میں پڑتی جس میں موبائل فون کمپنی کا حصہ دو روپے پچاس پیسے ہیں جبکہ 48 پیسے جی ایس ٹی کی مد میں لئے جاتے ہیں۔ ان کی جانب سے کسٹمرز سے کال سیٹ اپ چارجز نہیں لئے جاتے جس سے چند پیسوں کا ریلیف مل جاتا ہے۔

بیلنس چیک کرنے کے چارجز ان کے بھی مندرجہ بالا کمپنی کے برابر ہیں۔ اب بات کی جائے ناروے کی پاکستان میں موجود کمپنی کی تو یہ 2 روپے 96 پیسے فی منٹ چارج کرتے ہیں جن میں سے ان کی کٹوتی 2 روپے چالیس پیسے اور سیلز ٹیکس 46 پیسے ہوتا۔ اس کمپنی کی جانب سے کال سیٹ اپ چارجز صرف ان کسٹمرز سے منہا کیے جاتے جنہوں نے کوئی خاص پیکج لگایا ہوتا۔ پاکستان کی سرکاری سیلولر کمپنی کے چارجز کی بات کی جائے تو ان کی کال تین روپے 14 پیسے کی پڑتی ہے، 2 روپے 50 پیسے ان کے کھاتے جبکہ 48 پیسے حکومتی خزانے میں سیلز ٹیکس کی مد میں جمع ہوتے ہیں، ان کے کال سیٹ اپ چارجز 16 پیسے ہیں۔

اسی طرح سے ان تمام کمپنیوں کی جانب سے کسٹمر سروس سینٹر پر کال کرنے کے چارجز بھی دو روپے سے لے کر تین روپے تک ہیں جس میں سے بھی سیلز ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے۔ اگر موبائل فون سمز استعمال کنندگان کی تعداد پر نظر دوڑائی جائے تو مجموعی طور پر 18 کروڑ 30 لاکھ صارفین ہیں، جن میں 9 کروڑ 80 لاکھ براڈ بینڈ اور انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں بقیہ 8 کروڑ 50 لاکھ صرف بنیادی وائس کال کرنے والے ہیں، دوسرے لفظوں میں ان کے پاس بار فون یعنی کہ سادہ فون ہیں۔

اب دیکھا جائے تو انٹرنیٹ کی سہولت والے صارفین تو متعلقہ کمپنی کی موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے نہ صرف مفت بیلنس چیک کرلیتے ہیں بلکہ آن لائن کسٹمر سروسز کے ذریعے مفت میں چیٹ کی سہولت کے ذریعے اپنے مسائل بیان کرلیتے ہیں۔ مگر مسئلہ تو باقی 8 کروڑ پچاس لاکھ کا ہے جس میں سے زیادہ تر گاؤں کے اور کم تعلیم یافتہ افراد ہیں کہ جن کو یا تو اچھی انٹرنیٹ سروس تک رسائی نہیں یا پھر اچھے فون کی استعداد نہیں ہے، ایسے لوگوں کو ہر دفعہ بیلنس چیک کرنے کی صورت میں نہ صرف 24 پیسے ادا کرنے پڑتے بلکہ کسٹمر سروس کے لئے بھی 3 روپے تک ادا کرنے پڑتے یا یوں کہیں کہ موبائل فون سم پر کی جانے والی ہر سرگرمی پر سروس چارجز اور ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔

سیلولر کمپنیوں کی جانب سے ان 8 کروڑ پچاس لاکھ صارفین کو راغب کرنے کے لئے ہفتہ وار، ماہانہ کال، انٹر نیٹ اور ایس ایم ایس بنڈل متعارف کروائے گئے۔ سیلولر کمپنیوں کے اعداد و شمار کے مطابق فری پیکجز اور بنڈلز کے بعد اوسط فی منٹ کال 33 پیسے میں پڑ رہی ہے، اس طرح پانچ منٹ کی فون کال پر انڈسٹری 1 روپے 65 پیسے وصول کرتی ہے۔ سیلولر کمپنیوں کے مطابق موبائل فون خدمات پر پہلے ہی جی ایس ٹی 32 پیسے اور ود ہولڈنگ ٹیکس 20 پیسے عائد ہے۔

اگر 75 پیسے شامل کر دیے جائیں تو اسی ایک روپے 65 پیسے روپے کال پر ایک روپے ستائیس پیسے ٹیکس ادا کرنے ہوں گے، جس سے فون کال پر ٹیکس 77 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ جس کا نقصان یہ ہوگا کہ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سستے کال پیکجز یا بنڈلز یا تو ختم کر دئے جائیں گے یا پھر مہنگے کر دیے جائیں گے، جس کی صورت میں میری طرف سے مضمون کے شروع میں بیان کیے جانے ٹیرف کے مطابق صارفین پر مہنگی سروسز کا طوفان آئے گا، یا پھر مقابلہ بازی کے چکر میں کمپنیوں کو یہ بوجھ خود پر لینا پڑے گا۔

کیونکہ پاکستان ورلڈ اکنامک فورم کی 2019 کی رپورٹ کی مطابق دنیا بھر میں سستی ترین ٹیلی کام سروسز فراہم کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر تھا، جس کی وجہ اس رپورٹ کے مطابق شہریوں کے پاس زیادہ چوائسز اور مقابلہ بازی قرار دیا گیا تھا۔ اب کیونکہ حکومت کی جانب سے گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی کمی، دودھ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے جو کہ 80 سے 90 ارب روپے بنتی ہے، اب ایف بی آر کی جانب سے اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے یہ ٹیکس ایجاد کیا گیا ہے کیونکہ دیکھا جائے تو ان ٹیکسوں کی مد میں ایف بی آر کو سالانہ بیس سے تیس ارب روپے آمدنی ہوگی۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک ہاتھ میں دے کر دوسرے ہاتھ سے لینے کے مصداق حکومت نے عوام کو سکھ کا سانس نہ لینے دینے کی ٹھان رکھی ہے۔ اب دیکھیں عوامی احتجاج کام آتا ہے یا پھر یہ ٹیکس نازل کر دیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments