ڈرامہ ارطغرل سے جڑی یادیں


اللہ رب العزت نے انسان کے رزق کا بندوبست عجیب اور انوکھے ڈھنگ سے کیا ہے۔ اس کو بکھرا اور پھیلا ہوا رکھا ہے اور کسی فرد کو یہ علم نہیں کہ رزق کے دانے جو بکھرے پڑے ہیں کہاں کہاں سے چنے ہیں۔ یہ انسان کو پہاڑوں بیابانوں کی سیر کراتا ہے، اس کی بدولت انسان نئی نئی زمینوں کو اپنی جائے سکونت بناتا ہے، یہ نئے نئے شہروں میں بسنے کی ہمت اور نئے نئے لوگوں سے شناسائی کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ رزق کے دانوں کو اکٹھے کرنے کی سعی و کوشش کے دوران کچھ لوگ عزیز بن جاتے ہیں تو وہی کچھ عدو کے روپ میں سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔

چند سال قبل ٹنگڈار میں رہنے کا سبب یہی رزق کے دانے تھے جن کو سمیٹنا آسان نہ تھا۔ ان دانوں کو اکٹھا کرنے کے دوران مجھے کچھ مہینے ڈاکٹر الطاف حسین صاحب کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب اسلامک اسٹیڈیز پڑھاتے تھے۔ نہایت ہی سنجیدہ، حساس اور پررونق آدمی تھے۔ علم نور ہے، ڈاکٹر صاحب کے سینے کے اندر اس نور کا سمندر بہہ رہا تھا۔ اسی نور کے سبب ان کا چہرہ منور تھا، آنکھیں روشن تھیں اور ماتھا چمکیلا۔ مسکراتا چہرہ، باتوں میں مٹھاس اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ اثر تھا۔

ہماری جان پہچان اور سلام دعا تو دو سال سے تھی لیکن کالج سے باہر ایک ہی کمرے میں چار پانچ مہینے ساتھ رہنے کا موقع ان کے تبادلہ سے پہلے ملا۔ بہت سی عادتیں ان کی اپنانے کے قابل ہی نہیں بلکہ ان کو خود میں پیدا کرنے اور عملانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جن میں اول تا آخر کتاب کا مطالعہ دنیا سے بے خبر ہو کر کرنا اور قرآن کی روز ایک گھنٹے تلاوت کرنا خاص تھیں۔ ان سے جڑی بہت ساری باتیں اور یادیں ان کے جانے کے بعد اس کمرے میں ہفتہ بھر گونجتی رہی جہاں ہم اکٹھے رہتے تھے۔

جو ایک یاد مجھے سستاتی اور پریشانی کرتی رہی وہ ارطغرل ڈرامے سے جڑی ہوئی ہے۔ قریبا ایک دو ماہ سے ہمارا معمول بن گیا تھا کہ ہم دونوں ارطغرل ڈرامے کا بے صبری سے انتظار کرتے اور اکٹھے اس کی قسط دیکھ لیا کرتے تھے۔ ارطغرل ڈراما تو اچھا ہے ہی لیکن ہم دونوں کے اکٹھے دیکھنے سے اور اچھا لگتا اور بہت لطف آتا تھا۔ ڈرامے کا انتظار کرنا، ایک ساتھ دیکھنا اور مختلف کرداروں کے بارے میں باتیں کرنا روز کا معمول بن گیا تھا۔

بمسی کی ہر بات کو دہرانا اور پھر اس پر ہنسنا، سلجان خاتون سے پہلے نفرت اور پھر اس کا توبہ کر کے نیک اور پارسا بننا اور ہماری ہمدردیوں کا مرکز بننا، ارطغرل کو مختلف سازشوں کے تحت پھساننے کی کوششیں، ابن العربی کی دعاؤں کا حصار، آیتولن کی سازشیں اور اس کا سلجان سے تناؤ، دمیر استاد کی بہادری سے پر اور نصیحت آمیز گفتگو، گوکچے کا بدلنا اور اپنی بہن کے خلاف ہونا، ہائمہ خاتون کی باتیں، انداز اور شفقت، کوچہ باش کی چوروں جیسی نظریں، نویان کا کردار، تانگت کی شکل اور اس کے عجیب و غریب سر کے بال، الوبلجی کی ڈفلی بجانا اور مقدس روحوں سے بات کرنے کا انداز یہ سب کچھ مختلف اقساط دیکھنے کے بعد موضوع بحث رہتا تھا۔

ڈرامے کے دو کرداروں کوچہ باش اور کردوغلو کا نام دو اشخاص کو دینا جن کی خصلتیں اور عادتیں من وعن ان جیسی تھیں۔ سازشیں کرنا، چالاکی و مکار اور فریب دے کر اپنائیت کا احساس دلانا شاید انہوں نے ان دونوں کرداروں سے سیکھا تھا۔ ارطغرل ہفتے میں دو دن نہیں آتا تھا۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ایک خط عمران خان کے نام لکھیں گے جس میں یہ گزارش ہوگی کہ ارطغرل ڈرامے کی قسط کو روزانہ بنیادوں پر یوٹیوب پہ اپلوڈ کیا جائے تاکہ اس کا انتظار کرنے میں جس ذہنی کساؤ اور اذیت کا سامنا رہتا ہے اس سے رہائی مل جائے۔ یہ خواہش ادھوری رہی اور ان کا تبادلہ ہو گیا۔

ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ ہو گیا تھا اب میں اس کمرے میں اکیلا تھا جہاں کبھی ڈاکٹر صاحب کی آواز گونجتی تھی۔ دن تو جیسے تیسے گزر گیا رات ہوئی تو ارطغرل کی قسط آئی لیکن اس کو اب دیکھنے میں وہ مزہ نہ آیا جو ساتھ دیکھنے میں آتا تھا۔ کمرہ ڈاکٹر صاحب کے بغیر

سنسان اور ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مجھ پر عجیب ہی کیفیت طاری ہوئی۔ لگتا تھا ابھی مانوس سی آواز آئے گی کہ ابھی مت دیکھنا اکٹھے دیکھتے ہیں لیکن یہ میرا وہم تھا۔ ڈاکٹر صاحب یہاں سے چلے گئے تھے البتہ میرے ذہن پر سوار تھے۔ ان کی آواز نہ آئی، ہاں یاد آئی اور آنکھیں اشک بہانے کو تیار ہوئیں۔ حوصلہ کی رسی کو تھما اور دل کو سمجھایا کہ ہمت اور صبر کے ہتھیار جن کے پاس ہوں وہ نا امید اور کم حوصلہ نہیں ہوتے۔

ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے اور ڈاکٹر صاحب کے حق میں دعائیں کیں۔ امید یہ کی کہ دعاؤں سے میری بھی قسمت جاگ جائے گی جو تاریکی اور چھاؤں میں سوئی ہوئی ہے۔ شاید میری قسمت رحمت کی دھوپ اور کرم کی کرن کی منتظر ہو اور ان کی روشنی پڑتے ہی بیدار ہو جائے۔ انسان سے مناسبت قائم ہو جائے، دل ایک ہی جیسی بولی بولنے لگ جائے تو ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی آس پاس ہونے کا احساس نہیں جاتا۔ ایک جیسے خیالات اور اپنے مزاج جیسے لوگوں کا ملنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں اور اس نعمت کو پانے کے بعد اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments