مغربی ادب۔ افلاطون سے پوسٹ ماڈرن ازم تک (پانچویں قسط)


قرون وسطی یا مڈل ایج کے فوراً بعد مغربی تہذیب کا وہ یاد گار دور یورپ میں شروع ہوجاتا ہے جس نے وہاں کے آرٹ، کلچر، سیاست اور اقتصادیات میں نہ صرف دیر پا اثرات پیدا کیے بلکہ آنے والے ادوار کے لیے بھی ایک جدید ماڈرن ترقی یافتہ یورپ کی بنیادیں مستحکم کردی۔ نشاۃ ثانیہ جسے فرانسیسی زبان میں ’رینیسانس‘ کہا جاتا ہے، جس کے معنی دوبارہ پیدا ہونا یا ’ری برتھ‘ کے ہیں یعنی اس دوران یورپ میں علم و آگہی کی حیات نو ہوئی۔

ویں 14 سے 17 صدی کے نشاۃ ثانیہ کے دوران یورپ میں کلاسیکل یونانی فلسفے، ادب اور آرٹ کی دریافت ہوئی اور نئے سائنسی قوانین، جدید مذہبی و سیاسی نظریات اور ماڈرن فن تعمیر سے ایک ترقی یافتہ یورپین سوسائٹی کی تعمیر و تشکیل ہوئی۔ اس دوران کئی ایک اہم واقعات ہوئے یعنی رومن ایمپائر کا یورپ پر سے سیاسی کنٹرول ختم ہوا، یورپ میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوا اور ایک نیا بورژوازی سماج پیدا ہوا، پروٹیسٹنٹ ریفارمیشن نے کیتھولک چرچ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا، فرانس، انگلینڈ اور اسپین جیسی اقوام نئی طاقتیں بن کر سامنے آئیں، اٹلی خاص طور پر ایک منفرد شکل میں سامنے آیا جہاں قائم شہری ریاستوں کی جامع شکل ایک ریپبلیکن تہذیب کی صورت میں نمودار ہوئی اور پھر اس نئی طرز کے ریاستی سیاسی نظام نے سیکولر ازم کی بنیادوں پر ایک نئے یورپ کی بنیادیں رکھی۔

جوں جوں تجارتی ذرائع بڑھتے گئے یہی سیکولر تصور حیات تمام تر یورپ میں پھلتا چلا گیا اور یوں ایک متوازن یورپی سوسائٹی کی تشکیل ہوئی جہاں فرد کی انفرادی شناخت اور آزادی خیال جیسے رویے پیدا ہوئے۔ ان تمام تر تہذیبی تبدیلیوں نے مغربی معاشرے کا رخ ایک بار پھر یونانی ہیلینسٹک فکر کی طرٖف موڑ دیا اور ادبی فکر کے دھارے کو خصوصاً کلاسیکل دور کے ادب سے ہم آہنگ کر دیا۔

نشاۃ ثانیہ کے دور میں ہی جغرافیائی دریافت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جس نے یورپ کی سیاسی وسعت میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ مارکو پولو، ڈایاز، کولمبس، ڈاگاما اور میگالن جیسے معروف متلاشی جغرافیہ داں انسانی تاریخ کا حصہ بنے جن کی سخت ترین جدوجہد کے ثمر میں نت نئے جزائر اور ممالک کی دریافت ہوئی اور پرتگال، اسپین، ڈچ، فرانس اور انگلینڈ کو دنیا کے ایک بڑے حصے کو کلونائز کرنے کا موقع ملا۔ یہی نہیں بلکہ اس جغرافیائی تبدیلیوں نے فزیکل سائنس کی دریافت کے لیے بھی نت نئی راہیں کھول دی اور پھر گلیلیو، کوپر نیکس اور کیپلر جیسے سائنس دانوں اور ماہر فلکیات کے ناموں سے دنیا واقف ہوتی چلی گئی اور یوں اگلے ادوار میں فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ریاضی اور فلکیات پر جدید نظریات اور علمی انقلابات آتے چلے گئے۔ نشاۃ ثانیہ کا یہ دور نہ صرف سیکولرازم اور انفرادی یا شخصی شناخت کا ثابت ہوا بلکہ اسی دور میں یونانی کلا سکس کو بھی حیات نو ملی۔

اٹلی کے شہر فلورنس میں پلاٹونک اکیڈمی کی تعمیر ہوئی جہاں نہ صرف کرسچیٹی کی نیو پلاٹونزم کی بنیادوں پر پھر سے تفہیم کے ذرائع پیدا کیے گئے بلکہ جدید بنیادوں پر بھی اسے پرکھنے کے مواقع پیدا ہوئے۔ اسی دور میں چھاپے خانے کی ایجاد نے لامحدود کتابوں کو ان گنت موضوعات پر چھاپنے اور دنیا بھر میں پھیلانے کا کام شروع ہوا۔ اٹلی وہ پہلا ملک تھا جہاں نشاۃ ثانیہ کا پہلا پہل تجربہ ہوا تھا اور پھر یہ عظیم تحریک نہ صرف سائنس، آرٹ، لٹریچر اور فلسفہ بلکہ سیاسی شکل میں بھی کئی ایک سرکاری اداروں کا حصہ بنتی چلی گئی۔

اسی دور کی برکات سے ڈاو نچی، مایکل اینجیلو اور رافیل جیسے عظیم اطالین آرٹسٹ اور مجسمہ ساز پیدا ہوئے اور یوں اٹلی جدید آرٹ اور دانش مندی کا مرکز بن گیا۔ انگلستان میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک اٹلی کے مقابلے میں قدرے دیر سے نظر آئی مگر جب 1558 میں اسپینش آرمیڈا کی شکست ہو گئی تو پھر انگلینڈ باضابطہ طور پر دنیا کی کئی ایک سلطنتوں کو کلونائز کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے دور تک اٹلی مجسمہ سازی، پینٹنگ اور تعمیری فن میں رہنمائی کرتا ہوا ملتا ہے مگر ادب کی دنیا میں انگلینڈ کئی حوالوں کی وجہ سے اٹلی سے آگے نظر آتا ہے۔

مڈل ایج یا قرون وسطی کے پچھلے ایک ہزار برسوں میں مذہبی روحانیت کی فکر اور فنون لطیفہ خصوصی طور پر ادب کا حصہ بنی رہی مگر نشاۃ ثانیہ کے دور میں انسان و کائنات کا موضوع مذہبی فکر سے بالاتر ہو کر ادب میں شامل ہوا اور ہیومن ازم یعنی انسانوں کی زندگی، ان کے احساسات و جذبات اور معاشرتی مسائل کی حقیقی وسائل کی روشنی میں تفہیم کی گئی۔ یہی نہیں اس دور میں روح جیسی مذہبی فکر، مذہبی اخلاقیات، آرٹ و سائنس پر دلائل اور ان کے مسائل پر آزادانہ بحث کو بھی ادب کا حصہ بنا دیا گیا۔ ایک آئیڈیل نشاۃ ثانیہ سے آراستہ انسان سے یہ توقع باندھی گئی کہ وہ اپنے تمام تر جواہر کو بروئے کار لاکر خود اپنی زندگی کے لیے اور ایک بہتر معاشرے کی تکمیل کے لیے بھی کوشش کرے گا۔

ادب کے حوالے سے نشاۃ ثانیہ کے دوران نت نئی اصناف کے تجربات ہوئے اور کلاسیکل لٹریچر کا نئے انداز سے اعادہ ہوا۔ اسی دور میں نہ صرف انگلش شاعری اور فرنچ بیلے جدید مغربی تہذیب کا فیشن بنے بلکہ طربیہ اور علامتی و استعاری انداز میں لکھی گئی طویل رومانٹک نظمیں بھی یادگار ادب کی صورت میں تخلیق ہوئیں۔ اس دور کی نثر بھی ایک جداگانہ انداز سے ادب کا حصہ بنی، چاہے وہ اسپینش ’پیکارسک‘ ناولز ہو یا فرانسیسی ’مانٹین‘ یا پھر انگلش رائٹرز بیکن کے نثر پارے ہوں، انہوں نے ساری مغربی ادبی دنیا میں دھوم مچا دی۔

جہاں قرون وسطی کی مذہبی اخلاقیات اور ’پرسرار (مسٹری‘ اقسام کے موضوعات کو پھر سے اس دور میں اسٹیج کا حصہ بنایا گیا، وہی سیکولر ازم اور ہیومن ازم کو بھی ڈراموں کے موضوعات کا حصہ بنا دیا گیا۔ جہاں روایتی کامیڈی اور ٹریجڈی کو ماڈرن تھیٹر پر اس دوران بارہا پرفارم کیا گیا وہی شخصی آزادی اور انفرادی شناخت کو بھی ڈراموں کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اگر ایک طرف اٹلی میں ’کوہ میڈی ڈیلار تھے‘ یعنی کرافٹ کی کامیڈی مشہور ہوتی چلی گئی تو دوسری جانب انگلینڈ میں بین جانسن کی طنزو مزاحیہ کامیڈیز اور فلیچر اور فرانسس بیماونٹ کو ٹریجک کامیڈیز پر ڈرامے لکھنے پر بھی عالمی شہرت نصیب ہوئی۔

اس دور میں ہی شیکسپیر کی ’ہیملٹ‘ ، ’رومیو اینڈ جیولٹ‘ ، ’میکبیتھ‘ اور ’کنگ لیر‘ کو شہرت کی بلندیاں نصیب ہوئیں۔ اسی دور میں پبلش ہونے والی جان ملٹن کی ’پیراڈائیز لاسٹ‘ ، تھامس مور کی ’‘ یوٹوپیا ’، دانتے کی‘ ڈوائین کامیڈی ’، ایراسمس کی‘ پریز آف فولی ’اور نیکولو مائیکیووکیلی کی‘ دی پرنس ’نے مغربی ادبی دنیا کو قیمتی بنا دیا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments