الیکشن اصلاحات ترمیمی بل: اپوزیشن انتخابات میں ’شفافیت سے خوفزدہ‘ یا حکومت ’منظم دھاندلی‘ کی راہ پر گامزن

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ متنازع انتخابی اصلاحات کے بل کو تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جلد بازی میں پارلیمان سے پاس کروانے کا واحد مقصد اگلے عام انتخابات میں ’منظم دھاندلی‘ کی راہ ہموار کرنا ہے۔

دوسری جانب حکومتی وزرا یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اس مجوزہ بل میں شامل شقیں جیسا کہ ’بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانا‘ اور ’آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال‘ وغیرہ درحقیقت ملک میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی غرض سے ہیں اور ’شفافیت پر مبنی یہی اقدامات‘ اپوزیشن کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی سے ایک ہی روز میں 21 بل ’انتہائی عجلت‘ میں منظور کروائے گئے تھے جن میں ‘الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2020’ بھی شامل تھا۔

اگرچہ حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف ایک ہی روز میں منظور کروائے گئے تقریباً تمام بلوں پر تنقید ہوئی مگر سب سے زیادہ تنقید الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر ہوئی تھی، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ بل کو قومی اسمبلی میں لانے سے قبل اس کو قائمہ کمیٹی میں اُس طور زیر بحث نہیں لایا گیا جس طرح کی بحث اس انتہائی اہم معاملے پر ہونی چاہیے تھی۔

یاد رہے کہ یہ بل قومی اسمبلی میں اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا مگر اب اہم مرحلہ اس کا سینیٹ سے پاس ہونا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے رولز کو معطل کر کے عجلت میں اس بل کو منظور کروانے پر اپوزیشن جماعتوں نے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔

مگر اہم سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس بل پر اعتراض کیا ہے اور حکومت اس کی کیا وضاحت پیش کرتی ہے؟

الیکشن

الیکٹرانک ووٹنگ مشین

اس بل میں ایک شق آئندہ عام انتخابات میں الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے متعلق ہے۔

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا ہے پاکستان میں شرح خواندگی اتنی تسلی بخش نہیں ہے۔ ‘جس ملک میں لوگوں کی اکثریت کو پیسے نکلوانے کے لیے اے ٹی ایم مشین استعمال نہ کرنا آتا ہو وہاں ووٹنگ مشین کا درست استعمال کیسے ممکن ہو پائے گا۔’

انھوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دیہاتوں میں رہنے والے مستحق افراد کو جب یہ رقم ان کے اکاؤنٹ میں بھجوائی جاتی تھی تو مستحق افراد مل کر ایک شخص کی خدمات حاصل کرتے تھے جو اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے میں ان کی مدد کرتا تھا اور اسی دوران فراڈ اور باقاعدگیوں کے الزامات بھی سامنے آتے رہے۔

محسن شاہنواز رانجھا کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ نظام اتنا کامیاب ثابت نہیں ہوا اور اِس کی شفافیت پر شکوک و شہبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ‘آر ٹی ایس سسٹم’ کے بیٹھنے کی تحقیقات مکمل نہیں ہو پائیں اور اگر ائندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوگئیں تو اس میں ہونے والی دھاندلی کی تحققیات کے لیے تو صدیاں درکار ہوں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی شازیہ مری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی متنازع قانون سازی ‘ملک کے بااثر اداروں’ کو جموری اداروں میں مداخلت کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے الیکشن ایکٹ سنہ 2017 میں جس جلد بازی میں ترامیم متعارف کروائی ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے قائمہ کمیٹی سے جب اس مجوزہ بل میں کچھ ترامیم کو منظور کروایا تھا تو اس وقت مجموعی طور پر اٹھ ارکان اس قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے جس میں سے پانچ ارکان کا تعلق حکمراں جماعت سے جبکہ تین کا تعلق حزب مخالف کی جماعتوں سے تھا۔

شازیہ مری کا کہنا تھا کہ نہ صرف قائمہ کمیٹی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی اس رپورٹ پر بحث کرنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ الیکشن اصلاحات سمیت تمام اہم امور پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین رائے شماری کی شفافیت کے معاملے میں سب سے زیارہ مؤثر ہے اور ان کے بقول لوگوں کو سب سے زیادہ اعتبار اس مشین پر ہے۔

ای سی پی

بعدازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اس معاملے سے لگاتار راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہے کیونکہ انتخابات میں شفافیت کے پیش نظر انھیں اپنی واضح ہار نظر آ رہی ہے۔

اگرچہ اس حوالے سے قانون سازی ابھی ہونا باقی ہے تاہم حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں پانچ ارب روپے مختص کیے ہیں۔

وفاقی وزرا الیکٹرنک ووٹنگ مشینوں کو وزیر اعظم عمران خان کا ’وژن‘ قرار دیتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اگلے انتخابات میں ان مشینوں کا کردار نیوٹرل ایمپائر کی طرح ہو گا۔

دوسری جانب الیکٹرنک ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا تحریری مؤقف سامنے آیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں وفاقی وزرا نے الیکشن کمیشن کے حکام کے ساتھ ملاقات میں بتایا تھا کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے تیار کی جانے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ماڈل اگلے ماہ کے وسط میں تیار ہو کر آ جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے یہ بھی واضح کیا کہ ایکشن کمیشن کے حکام اس سے پہلے بھی دو بین الاقوامی کمپنیوں کی طرف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا عملی مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔

سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق

اسی مجوزہ بل میں ایک شق بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہے۔

مسلم لیگ نواز کے محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت بیرون ممالک بسنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر حکومت کی جانب سے سامنے والے بل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کی تصدیق کا عمل کیسے مکمل ہو گا؟

’پولنگ سٹیشن کہاں ہوں گے، پریذائڈنگ افسر کون ہوں گے، الیکشن کمیشن اپنا عملہ بھیجے گا یا سفارت حانے کا عملہ کام کرے گا، ووٹوں کی گنتی کہاں ہو گی اور ووٹوں کے مسترد یا درست ہونے کا فیصلہ کون کرے گا، ان سب اہم سوالات کا اس بل میں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس بارے میں نہ حزب مخالف کی جماعتوں سے مشاورت کی اور نہ ہی الیکشن کمشین سے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے اس بل میں الیکشن کمیشن سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ نادرا کے ساتھ ملکر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے ای ووٹنگ کا انتظام کرے، صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں۔

شازیہ مری کہتی ہیں کہ حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے حکام سے بھی مشاورت نہیں کی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کو، جو کہ ایک خود مختار ادارہ ہے، اپنی منشا کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے تو پھر انتخابات میں حصہ لینے کا حق بھی ان کے پاس ہوگا، تو ایسے حالات میں کیا قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا اور کیا دوبارہ حلقہ بندیاں ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ صرف یہ کہہ دینا کی بیرون ممالک میں مقیم پاکستانوں کو ووٹ کا حق دے دیا گیا ہے کافی نہیں، اس کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی اور اس کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی جو حکومت کے پاس نہیں ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی تحریک انصاف کے سپورٹر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم ملکی ترقی میں دیار غیر میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر اُن کو ووٹ کا حق دینے اور انتخابات میں حصہ لینے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں اس معاملے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کے قانون میں دوہری شہریت رکھنے والے کسی بھی شخص پر اس وقت تک انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے جب تک وہ دوسرے ملک کی شہریت کو نہیں چھوڑ دیتا جہاں پر وہ رہائش پذیر ہے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں ہی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے نادرا کے تیار کردہ آئی ووٹنگ سسٹم کا تھرڈ پارٹی آڈٹ بھی کروایا تھا اور اس کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھجوائی تھی جس میں اس سسٹم میں متعدد خامیوں کی نشاندہی کی گئی اور اس رپورٹ میں آئی ووٹنگ سسٹم کو استعمال نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

آبادی کی بجائے ووٹرز کی بنیاد پر حلقہ بندیاں

الیکشن

مجوزہ ترمیمی میں ایک تجویز جس پر زیادہ اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے نہیں بلکہ ووٹرز کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں۔

اس معاملے پر محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ووٹرز کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں۔

انھوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت اگر کسی بھی حلقے میں کوئی ترقیاتی کام ہوتے ہیں تو وہ ووٹرز کو نہیں بلکہ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔

شازیہ مری کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کی اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں اور ان کا ووٹ نہیں بنا ہوا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت جتنی جلد بازی میں قانون سازی کر رہی ہے اس میں ان کا خوف عیاں ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی میں نشستوں کو ووٹرز کی بنیاد پر نہیں بلکہ آبادی کی بنیاد پر مختص کیا جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کیے گیے ترمیمی بل میں پیش کی گئی ترامیم ملکی آئین کے متصادم ہیں۔ ’ان میں سرفہرست انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اس پر نظرثانی کے اختیارات ہیں جو آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔‘

’آئین کے ارٹیکل 222 کے تحت ان اختیارات کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کمی لائی جا سکتی ہے، جبکہ ترمیمی بل کے ذریعے متعلقہ دفعات کو حذف کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انتخابی فہرستوں کی نطرثانی کا عمل الیکشن کمیشن کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔‘

حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان اختلافات اس وقت سامنے آئے جب اس سال ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں حکومت نے اوپن بیلٹنگ کروانے کے بارے میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی اور الیکشن کمیشن نے حکومت کے موقف کی تائید نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ آئین میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے انتخاب کے علاوہ تمام انتخابات میں رائے شماری خفیہ ہی ہو گی۔

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال کا کہنا ہے کہ الیکشن اصلاحات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حکومت وقت اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کرے بلکہ یہ معاملہ دیگر سیاسی جماعتوں اور جمہوری روایت کو سامنے رکھتے ہوئے حل کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دوران جب انتخابی اصلاحات کی گئی تھیں تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف نے اس ضمن میں بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس پارلیمانی کمیٹی نے اپنے امور کو اس وقت تک آگے نہیں بڑھایا تھا جب تک پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جس طرح الیکشن ایکٹ 2017 اتفاق رائے سے بنایا گیا تھا اسی طرح اگر حکومت کوئی ترمیم لانا چاہتی ہے تو حزب مخالف کی جماعتوں کو اعتماد میں لے۔

انھوں نے کہا کہ انڈیا میں جب یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین آئی تھی تو اسے پورے ملک تک پھیلانے میں 22 سال کا عرصہ لگا تھا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کام اس وقت ہی کر لینا چاہیے تھا جب وہ اقتدار میں آئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’تین سال کا عرصہ گزرنے کو ہے اور اب حکومت اس معاملے پر جتنی جلد بازی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس سے شکوک وشہبات جنم لے رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp