افغانستان کا گرین کارڈ – مکمل کالم


خدا کو جان دینی ہے، سچ بات کہنے سے گھبرانا نہیں چاہیے اور غلطی کا اعتراف کرنے میں شرمانا نہیں چاہیے۔ گزشتہ برس تک میرا بھی یہی خیال تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور یوں اس کی افواج فتح کا نقارہ بجاتی ہوئی افغانستان سے نکل رہی ہیں۔ لیکن پچھلے ہفتے میں نے روزنامہ کالک میں ایک اداریہ پڑھا جس کے بعد مجھے اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنی پڑی۔ یہ بڑے آدمی کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ حقائق کی روشنی میں اپنا نظریہ تبدیل کرتا ہے، مجھ میں ایسی کئی نشانیاں ہیں مگر خدا کا شکر ہے کہ میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔

اداریے کا لب لباب یہ تھا کہ بیس برس تک افغانستان میں جھک مارنے کے بعد بالآخر امریکیوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ طالبان سے لڑنا ان کے بس کی بات نہیں سو اب امریکی فوجی افغانستان سے دم دبا کر بھاگ رہے ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا کہ طالبان بھاگتے ہوئے امریکیوں کی دم پر پاؤں رکھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے امریکیوں کو بھاگنے میں بے حد تکلیف اور دشواری ہوتی ہے، طالبان کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں، وہ سیریس لوگ ہیں، ویسے بھی بھاگتے ہوئے فوجیوں کی دم پر پاؤں رکھنا جنیوا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

اخبار نے یہ بھی لکھا کہ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے والی ہے اور یہ ایک تاریخی لمحہ ہے، پاکستان میں صاحبان نظر اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے ابھی سے اسلام آباد میں واقع افغان سفارت خانے میں امیگریشن کی درخواست جمع کروا دی ہے، قارئین میں سے بھی اگر کوئی افغانستان کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ فوری طور پر نیچے دیے ہوئے نمبر پر بذریعہ ایزی لوڈ ہمیں 3,530 روپے بھیجے، ہمارا مستعد اور قابل سٹاف رقم ملتے ہی آپ کی امیگریشن کا عمل شروع کر دے گا اور محض سات دن کے اندر اندر آپ کا گرین کارڈ گھر پر ارسال کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ہماری اور کوئی برانچ نہیں، مزید براں ایزی لوڈ کرواتے وقت دکاندار آپ کو بتائے گا کہ یہ نمبر کرن شہزادی کے نام ہے، تاہم قارئین اس نمبر پر فون کرنے کی زحمت نہ کریں کیونکہ اصل میں یہ نمبر حاجی ظاہر خان کا ہے جو قندھار میں بڑے گوشت کا کام کرتے ہیں اور ہمارے نمائندہ خصوصی ہیں۔

یہ اداریہ پڑھنے کے بعد میں نے ان صاحبان نظر کو فون گھمایا جن کا ذکر اس اداریے میں کیا گیا تھا، ان تمام لوگوں نہ صرف افغانی امیگریشن کے لیے درخواست جمع کروانے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ بہت جلد اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کابل منتقل ہونے والے ہیں۔ سچی بات ہے مجھے اپنی لا علمی اور کج فہمی پر سخت غصہ آیا۔ جو بات نائن الیون کے بعد ایک دودھ پیتے بچہ بھی جانتا تھا کہ افغان باقی کہسار باقی، اس بات کو سمجھنے میں مجھے بیس برس لگے۔ اتفاق سے اگلے روز انجمن صاحبان دور اندیش کا ہفتہ وار اجلاس تھا، میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ وہاں میری ملاقات ایسے بہت سے لوگوں سے

ہوئی جو افغان شہریت حاصل کر چکے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ بے شک یہ سچ ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے واپس جا رہی ہے مگر اس کے باوجود ابھی افغانستان پر طالبان کا اقتدار قائم نہیں ہوا، ہنوز کابل دور است، سو آپ لوگ ابھی سے کیوں اپنا سب کچھ بیچ کر افغانستان شفٹ ہو رہے ہیں؟ میری بات سن کر پہلے تو وہ تمام درویش خوب ہنسے پھر ان میں سے ایک درویش، جس نے شلوار قمیض کے نیچے جوگر پہن رکھے تھے، یکایک رونے لگا۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولا کہ اے نادان شخص، دراصل تو اب بھی مغربی میڈیا سے مرعوب ہے، تجھے یہ علم ہی نہیں کہ طالبان کا کابل میں جھنڈا لہرانا اب صرف چند ماہ کی بات ہے، اس کے بعد وہاں ایک مثالی اسلامی حکومت قائم ہوگی، اس حکومت میں طالبان اسی طرح انصاف کریں گے جیسے انہوں نے پہلے دور اقتدار میں کیا تھا، یہ ہماری غلطی تھی کہ اس وقت ہم افغانستان منتقل نہیں ہوئے تھے لیکن اب امریکی فوج کی ذلت آمیز شکست کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم افغانستان کا گرین کارڈ حاصل نہ کریں، طالبان خدا کے پراسرار بندے ہیں جو افغانستان کو ایک اسلامی سپر پاور بنا کر دم لیں گے، شاید اس کام میں آٹھ دس ماہ لگ جائیں لیکن اتنا وقت تو ہمیں بھی یہاں سے ’وائینڈ اپ‘ کرنے میں لگ جائے گا، میں نے تو اپنا گھر بکنے کے لیے لگا دیا ہے، ایک دو ہفتے میں اس کا بیعانہ ہو جائے گا، اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا پلاٹ تھا وہ میں نے پچھلے ماہ ہی بیچ دیا تھا، باقی تھوڑی بہت جمع پونجی بینک میں ہے، اس کے لیے ایک افغان بھائی سے بات ہوئی ہے، اس نے تمام سرمایہ کابل منتقل کرنے کی گارنٹی دی ہے، البتہ گاڑی ابھی میرے استعمال میں ہے، چاہو تو تم خرید لو، صرف تیس ہزار کلومیٹر چلی ہے، ایک لیٹر میں پندرہ کلومیٹر کرتی ہے، نئے ٹائر ہیں، صرف اگلا بمپر ٹچ ہے، باقی ٹوٹل جینوئن ہے، پچیس ڈیمانڈ ہے، تم چوبیس دے دینا۔

اس سے پہلے کہ یہ تمام گفتگو سننے کے بعد میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑتے، دوسرے درویش نے میرا بازو پکڑا اور پرے لے جا کر کہنے لگا کہ میاں کیا اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لو گے، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ لوگ افغانستان کی امیگریشن کے لیے اسی طرح دیوانہ وار کوشش کر رہے ہیں جیسے تم لوگ امریکہ کینیڈا کی امیگریشن کے لیے کرتے ہو، وقت بدل رہا ہے میاں صاحبزادے، میری مانو تو اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے، جس روز کابل میں طالبان نے حکومت بنا لی اس روز یہی گرین کارڈ تمہیں کروڑ روپے میں بھی نہیں ملے گا، میں نے تو جلال آباد میں بات بھی کر لی ہے، وہاں طالبان ٹوڈے کے مدیر کی نوکری میرا انتظار کر رہی ہے، اگر چاہو تو میں تمہارے لیے بھی بات کر سکتا ہوں، روزنامہ قندھار میں تمہارا کالم شروع ہو سکتا ہے، ویسے تورا بورا کرانیکل میں بھی آسامیاں خالی ہیں، بولو کیا خیال ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، ایک درویش نے گنگنا شروع کر دیا ’تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی‘ اور باقی تمام درویش اس دھن پر تھرکنے لگے۔

اللہ کو جان دینی ہے، اس سے پہلے مجھے کبھی اپنی کوتاہ نظری کا اس قدر احساس نہیں ہوا تھا جتنا اس روز ان اہل نظر حضرات سے ملاقات کے بعد ہوا۔ افغانستان میں تازہ بستیاں یہی اہل نظر آباد کریں گے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ

افغانستان میں طالبان کا اقتدار قریب آ رہا ہے اور یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ طالبان کی حکومت دراصل اس خواب کی تعبیر ہے جو ایک عرصے سے امت مسلمہ دیکھ رہی تھی۔ تاریخ کروٹ لے رہی ہے اور کروٹ لیتے لیتے اس کا دوپٹہ سرک گیا ہے، عالمی طاقتیں تاریخ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر خود ان کے کپڑے تار تار ہو چکے ہیں۔ اہل حکمت و دانش سے ملاقات کے بعد میرے جیسا دنیا دار بندہ بھی اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ افغانستان کے گرین کارڈ کے لیے درخواست جمع کروا دینی چاہیے، زندگی میں پہلے بھی کئی مرتبہ میں ایسے سنہری مواقع گنوا چکا ہوں، مگر اب نہیں۔ یہ کالم ختم کرنے کے بعد میں دو کام کروں گا، ایک تو حاجی ظاہر خان کو ایزی لوڈ کرواؤں گا اور دوسرے تورا بورا کرانیکل میں مدیر کی نوکری کے لیے درخواست دوں گا۔ اہل نظر نے بتایا تھا کہ اس کے مشاہرے میں دیگر مراعات کے علاوہ دو کنیزیں بھی شامل ہیں۔ ’تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments