ہلاکو خان کا شرعی جواز اور مکالمے کی سیاست


سن 1258 کی بات ہے، مسلمانوں کی مسلکی رنجشیں اپنا اثر دکھا چکیں تھیں۔ آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کے قتل کیا گیا تاکہ خلیفہ کے پاک خون کا اک قطرہ بھی خاک آلود نا ہونے پائے۔ شب طرب اپنے عروج پے تھی کہ نئے وزیروں (جو خلیفہ کے بھی وزیر رہ چکے تھے ) کو خیال آیا کہ حق نمک ادا کیا جائے اور بادشاہ سلامت کی لا دینی اور اسلام بیزار امیج کو بدل کر ایک نجات دہندہ اور عین شرعی شناخت دی جائے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر ہلاکو خان نے یہ فتویٰ صادر کرانے میں کامیابی حاصل کرلی کہ ”عادل کافر بادشاہ ظالم مسلمان بادشاہ سے بہتر ہے“ اور اس فتویٰ کو اس نے اپنے لئے شرعی جواز بنایا۔

صدیاں گزر گئیں سیاست کے انداز بدل گئے جغرافیائی اکائیاں بدل گئیں نہ بدلے تو صرف ہمارے انداز و اطوار نہ بدلے وگرنہ پوری دنیا ہی بدل گئی۔ ایک بار پھر مصاحبوں کو حق نمک ادا کرنا تھا پھر چاہے وہ ملت سے دغا کر کے ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اک فرق ضرور تھا کہ اب کی بار تختۂ مشق بغداد کی جگہ مملکت خداداد پاکستان تھی اور لادین منگول ہلاکو خان کی جگہ مرد مومن جرنل ضیا الحق۔ کام وہی تھا ہاں بس نام اور طریقہ کار بدل گئے تھے کہ علماء و مشائخ کی جگہ عوام سے فتویٰ لینا تھا جسے اب ریفرینڈم کا نام دیا گیا تھا۔ جس کے لیے بھی عوام کی شرکت کوئی اتنی ضروری نہیں تھی حالانکہ سب جانتے تھے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے حاکم یا محکوم کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے زبردستی تھوپے۔

یوں تو پاکستان میں سیاسی عمل کا انحطاط قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں سے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن 80 کے عشرے تک گویا اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی لولی لنگڑی جمہوریت آئی بھی تو اس میں جمہور کی رائے کا کم غیر جمہوری قوتوں کی پسند نا پسند کا ہاتھ زیادہ رہا۔ ہونا یہ چاہے تھا کہ سیاستدان ان مواقع کو غنیمت جانتے اور آپس میں مل کر استبدادی قوتوں کی آئندہ طالع آزمائی کے راستے ہی بند کر ڈالتے۔ لیکن ان مختصر مدت اور محدود اختیارات کے باوجود انہوں نے آپسی دشمنیوں، لوٹ مار اور موروثی حکمرانی کی روایات کی وہ داغ بیل ڈالی کہ ’سیاست‘ پاکستانی معاشرے میں خدمت کی بجائے گالی کا استعارہ بن کے رہ گئی۔

بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں طاقت ملنے پر ہر دوسرا شخص خود کو عقل سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ نظریہ ضرورت اور بندوق کے زور پر اقتدار چھیننے والوں کے تو کیا ہی کہنے یہاں تو عالم یہ ہے کہ اہل قلم اور دانش بانٹنے والوں نے بھی موقع ملنے پر نہ صرف چور دروازے سے اقتدار کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے بلکہ اسے اپنا حق بھی گردانا۔ بقول شخصے ”یہاں ہر کوئی حسب توفیق فرعون ہے“ ۔ یہ انفرادی استبداد، موروثی، جاگیرداری اور ذاتی طالع آزمائیاں ہی ہیں جس کی وجہ سے اک پوری نسل سیاست سے متنفر ہو چکی ہے اور سیاست کو صرف اک مخصوص طبقے کا استحقاق سمجھتی ہے۔ ویسے تو جمہوری مکالمے اور سیاسی عمل سے انکار کا رویہ ہماری تاریخ کا بدنما داغ رہا ہے۔ لیکن حالیہ عشروں میں رونما ہونے والے واقعات اس بات کی غمازی ہیں کہ ہماری نوجوان نسل جمہوری مکالمے کی بجائے ہر ممکن طریقے سے اپنی بات منوانے پے یقین رکھتی ہے۔

آج اشد ضرورت اس عمل کی ہے سماجی مسائل کو ایک مربوط سیاسی عمل میں ڈھالا جائے۔ ایک صحافی کا کام معاشرے کی صحیح تصویر سامنے لانا ہے ایک ڈاکٹر کا کام سماج کو مرض سے محفوظ رکھنا ہے، ایک قانون دان کا کام افراد کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہے، اسی طرح ایک سماجی کارکن کا کام سماج کے نظر انداز کیے گئے طبقوں کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ یہاں حالات اس نہج پر آچکے ہیں کہ یہی طبقے گاہے بہ گاہے معتوب رہتے ہیں قطع نظر اس کے کہ حکومت میں کون ہے۔ تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب یہ سب کسی نہ کسی سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہوں اور جمہوری مکالمے پہ یقین رکھتے ہوں (یاد رہے سیاست کا مطلب آج بھی مغرب میں عام آدمی کے نزدیک اقتدار نہیں خدمت ہے ) ۔

انسانی ارتقا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ سماجی ارتقا کے نتیجے میں صدیوں کے تجربات کے بعد کچھ حقیقتیں بنی نوع انسان بنا کسی نسلی تفریق کے سمجھنے لائق ہوا۔ اس میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قوموں کا درخشاں مستقبل ہمیشہ جمہوری مکالمے اور سیاست میں پنہاں ہے۔ یاد رہے کہ فطرت کے قوانین کبھی کسی کے لیے نہیں بدلتے۔ جیت ہمیشہ اس کی ہوتی ہے جو ان ازلی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی طے کرتا ہے۔ آج مختلف شعبوں کے افراد کو کسی مسئلے پے انفرادی سطح پر جدوجہد کرتے دیکھ افسوس ہوتا ہے کہ ایسے باشعور افراد بھی ابھی اتقاء کے اوائلی فلسفے کو سمجھنے میں بے اعتنائی برت رہے ہیں۔

کسی ایک پارٹی سے مایوسی کا یہ مطب ہرگز نہیں کہ پورے سسٹم پر ہی چار لفظ بھیج دیے جائیں۔ یاد رہے سیاست سے بے اعتنائی نے اس قوم کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ امید کی کرن کہیں کھو سی گئی ہے۔ ان انفرادی جدوجہد کے کوئی نتائج نکلنے ہوتے تو آج ہم بھی بحیثیت قوم اپنے پاؤں پے کھڑے ہوتے نہ کہ مختلف سپر پاورز کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہوتے بقول آئن اسٹائن ”بار بار ایک ہی عمل دہرا کر مختلف نتیجہ کی امید رکھنا دیوانگی ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments