مذہبی حصاروں میں یہ غیر محفوظ علما


یہ بڑی سادہ سی بات ہے کہ کالجوں کے سکینڈلز، یونیورسٹی کے لونڈوں کی نازیبا حرکتیں اور پروفیسروں کی لونڈہ بازیوں سے میری نیند حرام نہیں ہوتی۔ اپنے علاوہ کسی ساتھی، کسی پروفیسر کو بھی محض اس لئے افسردہ نہیں پایا کہ کسی درسگاہ میں مدرس نے کچھ غلط کر دیا ہے۔ ہم نے ہر ایسے عمل کو عامل کے کھاتے میں ڈالا اور اپنا دامن اگر صاف پایا تو شکر بجا لائے اور داغدار نظر آیا تو اوپر والے سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی کہ ویڈیو کو محشر پہ اٹھا رکھئے۔

مگر مذہبی لوگوں، خاص کر علماء کا رویہ اس باب میں بڑا مختلف اور مضحکہ خیز رہا ہے۔ ایک عالم کا اسکینڈل آتا ہے اور سارے علماء کے ہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جس کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں، وہ ان کا نمائندہ تھا یا پھر کوئی ”گناہ کفایہ“ تھا جو سب کی طرف سے ایک نے ادا کر دیا اور باقی خلق خدا سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔

بھلا اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوگا کہ اپنے گھر کے اندر سوگ منایا جا رہا ہے۔ اعتراض اس پر ہے کہ ہم کسی ایسی فلمائی حرکت پر اعتراض نہیں کر سکتے۔ اور ہر تبصرہ سارے علماء کے زخموں پر نمک پاشی تصور ہوتا ہے۔ ہمارے ناتواں تبصرے سے بھی زخم خوردہ اہلیان ایمان کی بلند فصیلوں میں شگاف پڑ جاتا ہے۔

جب لاہور کے مفتی عزیز الرحمان کی ویڈیوز پر ہزاروں لوگ تبصرہ کر رہے تھے تو وہیں پر ہم بھی مجنون پہ سنگ اٹھا رہے تھے۔ ہماری بد قسمتی یا خوش قسمتی کہہ لیں کہ بہت سارے علماء کے ساتھ ذاتی شناسائیاں ہیں اور خاندانی روابط ہیں۔ انہوں نے ہر بھٹکے کو راہ راست پر لانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ یوں لگتا ہے اس وقت تک یہ جنت یا جہنم نہیں جائیں گے جب تک ہمیں پہلے کسی ایک طرف بھیج نہ دیں۔ بھائی تم جاؤ۔ جدھر آپ ہوں گے، ہم اس طرف ”نقش قدم“ پر چلے آئیں گے۔

کوئی دو ہفتے ادھر کی بات ہے۔ ایک دوست کے انتظار میں سر بازار کھڑا تھا کہ دستار کندھے پر ڈالے عالمانہ لباس میں ایک شخص نے آ لیا۔ منحنی سا قد، سانولی رنگت، لب خشک، آنکھیں پھٹی ہوئیں، چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہوئیں، لہجے میں کرختگی، پیشانی پر سلوٹیں، سرتاپا اضطراب۔ اللہ اللہ۔ یہ تیرے نیم ملا، جن کی ٹھوکر سے ہم دو نیم۔ چھوٹتے ہی پوچھا ”آپ محمد نبی ہیں؟“ ایک نگاہ غلط ڈال کر اثبات میں سر ہلایا تو کہا ”آپ علماء کے خلاف کیوں لکھتے ہیں؟“

”معذرت میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ اپنا تعارف کرایں گے؟“ گھبراہٹ پر قابو پا کر پوچھا۔

”مجھے چھوڑو۔ میں بھی کوئی مولوی ہوں۔ لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ کا خاندان دیانت دار ہے مگر آپ کیوں مذہب بے زار ہیں اور علماء کے خلاف ہیں؟“ اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو آنکھیں ٹھہر نہ سکیں۔ دور افق پر ڈھلتے سورج کو دیکھتے ہوئے کہا:

”مولانا آپ کچھ مخصوص حوالہ دیں گے؟ آپ کی شان میں یہ کیا ایسی گستاخی کر بیٹھے ہیں؟“ انہوں کہا کہ میں نے مفتی عزیز الرحمٰن کے بارے میں یہ لکھا۔ وہ لکھا۔

”لیکن مولانا کیا میں نے ہی لکھا ہے؟ ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ہزاروں لوگوں نے اس پر تبصرہ کیا۔ میں نے بھی کچھ لکھ دیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔“

انہوں نے ایک بار پھر خاندان اور والد صاحب کا حوالہ دیا کہ وہ ایسے علماء کے قدردان ہیں اور آپ کی یہ کم نگاہی۔ غامدی صاحب کو بھی لے آئے کہ ان کے گمراہ کن نظریات نے علماء بیزاری کا یہ بیج بویا ہے۔ میں نے کہا کہ مولانا صاحب مجھے آپ ڈیفائن تو نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی دوسرا۔ جو ہوں، سو ہوں۔ آپ کے یوں بیچ چوراہے پکڑ کر پوچھ گچھ سے کوئی کیوں کر توبہ تائب ہو کر آپ کے حلقۂ درس میں مؤدبانہ بیٹھ جائے گا۔

اتنے میں دوست بھی پہنچ گیا۔ مجھے غصہ اسی پر تھا کہ ان کی دیر پائی ہمارے سر پر یہ بلائے ناگہاں لے آئی تھی۔ ہمارے دوست نے ان کو کچھ سمجھایا بجھایا اور کہا کہ بھائی آپ کا اپنا موقف ہو سکتا ہے اور ان کو اختلاف کا حق ہے۔ نیز مفتی عزیز الرحمان کی ویڈیو پر پورا ملک تبصرہ کر رہا ہے۔ آپ کتنوں کا گریبان سر بازار پکڑیں گے۔ یہ ایک غلط کام ہو گیا ہے۔ اس کی آپ بھی مذمت کریں۔ ہم بھی کرتے ہیں۔

میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ان مولانا (بقول دوست کہ، وہ بھی مفتی ہیں۔ مولانا نہیں، واللہ اعلم) سے بس اتنا پوچھ لیجیے کہ ان کے اس رویے سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے اور کتنے راندۂ درگاہ علماء کا احترام کرنے لگ جائیں گے۔ آپ پہلے یہ تو سیکھ لیجیے کہ احترام بندوق سینوں پر رکھ نہیں کروایا جاتا اور نہ ہی کاسۂ گدا لے کر بھیک کی صورت میں وصول ہوتا ہے۔

مولانا کو تو ہم چھوڑ آئے مگر دیر تک سوچتا رہا کہ مذہب کی ایسی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھے یہ علماء اتنا غیر محفوظ کیوں محسوس کرتے ہیں۔ مجھ جیسوں کی تنقید سے ان کو فرق کیا پڑنا ہے۔ فوج اور مذہبی طبقے کو تو اس ملک ضیا داد میں وہ طاقت حاصل ہے کہ سپر پاور امریکہ بھی روس کو شکست دینے کے لئے ان بلند فصیلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ آج بھی ان دونوں طاقتوں کی خوشنودی اور آشیر باد حاصل کیے بغیر وہ افغانستان سے نکل نہیں سکتا۔ مگر یہ دونوں تنقید سے گھبرا جاتے ہیں۔ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔

پاکستان میں مذہبی طاقتوں، مذہبی تحریکوں اور نتائج سے ایک جہاں واقف ہے۔ پاکستان کو چھوڑ کر چترال آ جائیں تو یہاں ہر دوسرے گھر میں کوئی قاری، عالم، یا تبلیغی ملے گا۔ چترال میں علماء کی حکومت ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ایم این اے اور ایم پی اے، دونوں کے ناموں کا سابقہ ”مولانا“ ہے۔ سماجی، سیاسی، معاشی، ہر سطح پر مذہب پرستوں کا راج۔ پھر بھی ہم جیسوں کی اتنی پرواہ؟ فولادی قلعے میں بیٹھ کر بھی شیشے کے گھر کا گماں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments