ایران ، امریکہ تعلقات ۔ ایک نئی اُمید


ایرانی سیاست میں ایران کے صدر کے طور پر ابراہیم رئیسی نہ صرف دنیا بلکہ امریکہ کی جو بائیڈن حکومت کے لئے بھی بالکل ایک نیا چہرہ ہیں۔ وہ جو بائیڈن حکومت جو اسلامی ممالک خصوصاً ایران کے حوالے سے بنائی گئی امریکن جوہری پالیسی کی حدود میں رہتے ہوئے ایران کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کی امید رکھتی ہے۔

میری رائے میں امریکہ کی جو بائیڈن حکومت کے لیے سب سے زیادہ پریشانی ایران کے ساتھ کیے گئے سابقہ جوہری معاہدے کا مستقبل ہے۔ وہ معاہدہ جو امریکہ اور ایران کے مابین جولائی 2015 میں طے پایا تھا۔ جولائی 2015 کا وہ معاہدہ جس میں کچھ پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں ایران کے جوہری پروگرام پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جولائی 2015 میں دنیا کی 6 بڑی عالمی طاقتوں امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس، چائنہ اور یورپی یونین کے ایران کے ساتھ ہونے والے ”کمپری ہینسو پلان آف ایکشن“ کے تحت ایران نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ایران جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے یورینیئم کے ذخائر اور جوہری ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے یورینیئم کو بھی پندرہ سال کے لیے محدود کر دے گا۔ اور مزید یہ کہ ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے کیمیکل ”پلوٹونیئم“ کو بھی تیار نہیں کرے گا۔ ان شرائط پر عمل درآمد کے بدلے میں یورپی یونین، امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔

ایران نے یہ بات ہمیشہ دنیا کو باور کروانے کی کوشش کی کہ اس کا ایٹمی پروگرام امن مقاصد کے لیے ہے جس کی تصدیق انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی بھی کرتی ہے۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2018 میں ایران کے ساتھ جولائی 2015 میں طے پانے والے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ جس کے بعد ایران نے اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کیا اور اس معاہدہ میں شامل کچھ اہم شقوں کو توڑتے ہوئے یورینیئم کو افزودہ کرنے کی اپنی صلاحیت میں مزید اضافہ کیا۔ جب امریکہ نے معاہدہ ختم کر دیا تھا تو ایران پر بھی اسے معاہدے کی پاسداری کی امید نہیں رکھنی چاہیے تھی۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ نو منتخب ایرانی صدر 60 سالہ ابراہیم رئیسی ایران، امریکہ تعلقات کے حوالے سے اپنا کیا کردار ادا کر پاتے ہیں۔ ابراہیم رئیسی ایک عالم دین اور جج رہے جنہوں نے ایران کے عدالتی نظام میں متعدد بار اہم کردار ادا کیا۔ مارچ 2016 میں ایران کے نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایران کے سب سے اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا فاؤنڈیشن کا انتظام سنبھالا۔ یہ مذہبی ادارہ ایران کے شہر مشہد میں امام رضا کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی خارجہ پالیسی طے کرنے کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ اس حوالے سے ایران میں سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہم اداروں کے درمیان پہلے ہی اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے اور ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اس پر دستخط بھی کر چکے ہیں۔ لیکن ملک کی خارجہ پالیسی کیسے طے کی جاتی ہے۔ صدر اب بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے نامزد کیے گئے مذاکرات کار فی الحال ویانا میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے یورپی ہم منصب افراد کے ساتھ مل کر امریکہ، ایران معاہدے کی بحالی کا نیا راستہ تلاش کریں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ نیا معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ جب کہ سپریم رہنما پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ جوہری معاہدے کے حق میں ہیں۔

منصور احمد قریشی
Latest posts by منصور احمد قریشی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

منصور احمد قریشی

Mansoor Ahmed Qureshi is an independent journalist, columnist, blogger, researcher and content writer. He writes about politics, international affairs and social issues.

mansoor-ahmed-qureshi has 7 posts and counting.See all posts by mansoor-ahmed-qureshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments